’سٹون مین‘: ممبئی اور کولکتہ میں پتھر مار کر جان لینے والا سیریل کلر

image

13 فروری 2009 کو ایک فلم ریلیز ہوئی جس کا نام ’سٹون مین مرڈرز‘ رکھا گيا۔ یہ فلم انڈیا کے دو مختلف شہروں میں ہونے والی ایک جیسی سلسلہ وار قتل کی وارداتوں پر مبنی ہے کیونکہ پولیس کو شبہ رہا ہے کہ یہ ایک ہی شخص کی کارستانی ہو سکتی ہے۔

سب سے پہلے فلم نگری ممبئی میں سیریل کلنگ کے واقعات رونما ہوئے۔ 1985 سے 1988 تک یعنی دو ڈھائی سال کے دوران کسی شخص نے کم از کم 13 لوگوں کا سر پتھر سے کچل کر قتل کر دیا۔

عام طور پر وہ فٹ پاتھ پر سونے والے غریب اور تنہا لوگوں کا شکار کیا کرتا تھا۔ کئی لوگوں کو اس نے 30 کلو وزنی پتھر سے سوتے ہوئے سر کچل کر ہلاک کیا تھا۔

اس کا شکار ایسے لوگ ہوتے تھے جن کا کوئی پوچھنے والا نہیں تھا لیکن اس کی وجہ سے ممبئی کے سائن، کنگس سرکل اور ماتونگا کے علاقوں میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔

سٹون مین کون؟

سٹون مین کے نام سے مشہور سیریل کلر کی اصل شناخت ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ تاہم تقریباً دو دہائیوں تک اس گمنام شخص نے ممبئی اور کولکتہ میں لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں دہشت پھیلا رکھی تھی۔

تمام شواہد اور پولیس ریکارڈ کے مطابق سٹون مین نے پہلا قتل وسطی ممبئی کے سائن کے علاقے میں کیا تھا۔ یہ 1985 کی بات ہے جب شہر کی سڑکوں پر اتنی بھیڑ نہیں تھی جتنی آج ہے، خاص طور پر رات کے وقت۔

اس وقت سی سی ٹی وی کیمرے بھی نہیں تھے اس لیے شہر کی نگرانی عام طور پر ہوم گارڈز کے ذمہ ہوا کرتی تھی۔

اس کے بعد سے کسی بڑے پتھر سے بے گھر لوگوں کی کھوپڑیوں کے ٹکڑے ہونے کے واقعات سامنے آنے لگے اور پولیس نے اس شخص کو پکڑنے کے لیے گشت بڑھا دیا، تاہم پولیس کو کبھی پتہ نہیں چل سکا کہ اس کا ذمہ دار کون ہے۔

پولیس نے قیاس لگایا کہ قاتل ایک بڑا، مضبوط اور طاقتور آدمی تھا کیونکہ پتھروں کا وزن عام طور پر 30 کلوگرام تک ہوتا تھا۔ ان تمام قتل کی وارداتوں کے درمیان واحد مشترک چیز یہ تھی کہ وہ سب بے گھر بے در اور غریب لوگ تھے اور یہ کہ انہیں ان کی نیند میں ایک بڑے پتھر سے مارا جا رہا تھا۔ بظاہر کوئی مقصد نظر نہیں آرہا تھا اور ثبوت کی تو گنجائش ہی نہیں تھی۔

ممبئی کی پولیس جو کر سکتی تھی وہ کیا۔ کچھ گرفتاریاں ضرور ہوئیں لیکن کسی پر جرم ثابت نہ ہو سکا (فوٹو: اے ایف پی)بہر حال ایک دن ایک بے گھر ویٹر سٹون مین کے حملے سے بچ گیا اور وہ پولیس کو اطلاع دینے میں کامیاب ہو گیا لیکن سائن کی کم روشنی والے علاقے میں جہاں وہ سو رہا تھا، وہ اپنے حملہ آور کو اچھی طرح سے دیکھنے سے قاصر رہا۔

اس کے بعد شبے میں کئی لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ لیکن پھر کچھ دنوں بعد ماتونگا کے مضافاتی علاقے میں ایک کوڑا کرکٹ چننے والے کو اسی طرح قتل کر دیا گیا۔ اگرچہ پولیس اور میڈیا نے اسی شخص پر شبہ ظاہر کیا، تاہم واقعات سے منسلک کوئی ثبوت نہیں ملا۔

ممبئی کی پولیس جو کر سکتی تھی وہ کیا۔ کچھ گرفتاریاں ضرور ہوئیں لیکن کسی پر جرم ثابت نہ ہو سکا اور پھر 1988 کے وسط میں اچانک قتل کے واقعات بند ہو گئے لیکن یہ معاملات ابھی تک حل طلب ہیں۔

کولکتہ کے واقعات

اس کے تقریباً ایک سال بعد ممبئی سے کوئی دو ڈھائی ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر مشرق میں آباد شہر کولکتہ اسی قسم کے واقعات سے دہل اٹھا۔

1989 کی گرمیوں میں کولکتہ میں اسی طریق پر ہونے والے قتل کی وارداتوں کا ایک سلسلہ دیکھا گیا۔ یہاں بھی متاثرین فٹ پاتھ پر رہنے والے تھے اور انہیں ممبئی کے متاثرین کی طرح مارا گیا تھا۔

پہلا واقعہ جون میں پیش آیا تھا اور اگلے چھ ماہ کے دوران اس قسم کے کوئی ایک درجن مزید واقعات رونما ہوئے۔

کسی بھی صورت میں 30 سال بعد بھی کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ سیریل کلر سٹون مین کون تھا (فوٹو: ویب انڈیا)ممبئی کی طرح  قتل کے واقعات اسی طرح اچانک رک گئے جیسے وہ شروع ہوئے تھے۔ کولکتہ پولیس بھی اس قتل کو پکڑنے میں ناکام رہی جو آدھی رات کے بعد یا طلوع فجر سے پہلے قتل کرتا تھا۔

یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ سٹون مین ایک نفسیاتی مریض تھا جو یا تو مر گیا ہو یا کسی اور جرم کا مرتکب ہوا ہو جس کے نتیجے میں وہ جیل میں ہو۔

بہر حال میڈیا نے اس قاتل کو ’پتھر مار‘ یا ’سٹون مین‘ کا نام دیا جس نام سے وہ آج تک جانا جاتا ہے۔

کسی بھی صورت میں 30 سال بعد بھی کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ سیریل کلر سٹون مین کون تھا یا اس کے ساتھ کیا ہوا یا یہ کہ ممبئی اور کولکتہ والے مجرم دو تھے یا ایک ہی تھے۔

بہر حال فلم ریلیز ہونے کے بعد اسی طرح کا ایک اور سلسلہ آسام کے دارالحکومت گوہاٹی میں دیکھا گیا۔ 2010 میں گوہاٹی میں یکے بعد دیگرے ایک ہی طرح کے 11 قتل ہوئے جس سے پورے شہر میں خوف و ہراس پھیل گیا۔

ماتر بھومی نامی ویب سائٹ نے لکھا کہ کیا سٹون 24 سال بعد پھر سے دہشت پھیلانے کے لیے واپس آیا ہے۔ لیکن اس معاملے میں بھی کسی کو مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکا۔ بہر حال اگر دیکھیں تو ممبئی کے واقعے کو بھی اب تقریباً 40 سال ہونے کو آئے ہیں ایسے میں اگر وہ قاتل زندہ بھی ہوا تو اتنا بوڑھا تو ہو ہی چکا ہوگا کہ اب اس قسم کے قتل کا ارتکاب اس پیمانے پر اسی انداز میں نہ کر سکے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.