کینیا میں نوجوان نسل نے حکومت کو نئے ٹیکس عائد کرنے کے بجائے سرکاری اخراجات کم کرنے پر کیسے مجبور کیا

منگل کی دن جب کینیا کی پارلیمان نے ملگ گیر احتجاجی مظاہروں کے باوجود نئے ٹیکس نافذ کرنے کی منظوری دی تو احتجاج پرتشدد ہو گیا جس میں 22 افراد ہلاک ہوئے۔ اس دوران مظاہرین نے پارلیمنٹ کی عمارت پر حملہ کیا جہاں توڑ پھوڑ بھی کی گئی اور آگ بھی لگائی گئی۔ چند مظاہرین نے پارلیمان کے اختیار کی علامت سمجھا جانے والا عصا بھی چرا لیا۔
کینیا مظاہرے
Getty Images

ملک کی معیشت کو بیرونی قرضوں سے نجات دلانے اور استحکام کی جانب گامزن کرنے کے لیے حکومت نے عوام پر ٹیکسوں کا نیا بوجھ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔

صدرِ مملکت نے کہا کہ حکومت کی جانب سے پیش کیا جانے والا فنانس بل ’ملک کو قرض کی تکلیف سے نجات دلانے اور اس کی خودمختاری‘ کے لیے ضروری ہے۔

تاہم ملک کے نوجواںوں نے اس اضافے کو یہ کہہ کر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ حکومت محض اپنی شاہ خرچیوں اور کرپشن کے لیے عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔

بات ہورہی ہے افریقی ملک کینیا کی جہاں پچھلے دو روز کے دوران پیش آنے والے واقعات نے نہ صرف حکومت کی پالیسیوں کا رخ موڑ دیا ہے بلکہ ٹیکس محصولات کے لیے مشہور صدر ولیم روٹو کو نوجوانوں کے سامنے جھکنے پر مجبور کر دیا ہے۔

منگل کی دن جب کینیا کی پارلیمان نے ملگ گیر احتجاجی مظاہروں کے باوجود نئے ٹیکس نافذ کرنے کی منظوری دی تو احتجاج پرتشدد ہو گیا جس میں 22 افراد ہلاک ہوئے۔ اس دوران مظاہرین نے پارلیمنٹ کی عمارت پر حملہ کیا جہاں توڑ پھوڑ بھی کی گئی اور آگ بھی لگائی گئی۔ چند مظاہرین نے پارلیمان کے اختیار کی علامت سمجھا جانے والا عصا بھی چرا لیا۔

سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی جانب سے شروع کی جانے والی تحریک نے بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ مانے جانے والی افریقی لیڈروں میں سے ایک کو اپنے ہی بجٹ کو ترک کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

یہ احتجاج نوجوانوں کی جانب سے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے منظم کیے گئے اور کہا جارہا ہے کہ اس احجاج اور حکومتی فیصلے نے نوجوانوں کی طاقت اور جین زی کے اثر ورسوخ کو ظاہر کیا ہے۔

تاہم ایسا قطعی نہیں ہے کہ مسٹر روٹو کو احساس ہوا ہے کہ انھوں نے ٹیکس میں اضافے کے لیے دباؤ ڈال کر کچھ غلط کیا تھا جس کی وجہ سے کینیا میں بہت غصہ پایا جاتا ہے بلکہ انھیں آج بھی یقین ہے کہ ان کی جانب سے اپنائی گئی پالیسی ملک کے حق میں تھی۔ شاید اس ہی لیے انھوں نے بدھ کے روز قوم سے اپنے خطاب کا آغاز اپنی بجٹ پالیسی کا جواز پیش کرتے ہوئے کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے معیشت کو مستحکم کرنے اور کینیا کو قرضوں کے جال سے نکالنے کی غرض سے سخت لیکن انتہائی ضروری اقدامات لیے تھے۔

کینیا ٹیکس محصولات کا 61 فیصد قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کرتا ہے۔

صدر روٹو کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے پیش کیا جانے والا فنانس بل ’ملک کو قرض کی تکلیف سے نجات دلانے اور اس کی خودمختاری‘ کے لیے ضروری تھا۔

تاہم حالیہ دنوں کی ہنگامہ آرائی نے صدر روٹو کو اپنا راستہ یکسر بدلنے پر مجبور کر دیا ہے۔

اب صدر روٹو عوامی کفایت شعاری کا ایک نیا پروگرام متعارف کروا کر معاشی استحکام حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

کفایت شعاری کے اس پروگرام کے تحت صدر روٹو کے اپنے دفتر کے اخراجات میں بھی کٹوتی کی جائے گی۔

یہ اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ وہ مطاہرین کی جانب سے حکومت پر لگائے جانے والے بدعنوانی اور شاہ خرچیوں کے الزامات کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔

اس کے علاوہ کینیا کے صدر نے نوجوانوں سے بات چیت کرنے اور ان کے گلے شکووں کو سننے کا وعدہ کیا ہے۔

خطاب کے دوران صدر روٹو نے اپنے ممبرانِ پارلیمنٹ سے فنانس بل کی حمایت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ ان میں کئی شاید اب یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ صدر روٹو کے اس یو ٹرن نے ان کی ساکھ پر سوالیہ نشان چھوڑ دیے ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ دو روز صدر روٹو کے لیے کافی مشکل رہے ہیں۔

منگل کے روز ان کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہروں کو کچلنے کے لیے بے جا طاقت کے استعمال اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی مذمت کی جا رہی ہے۔

ان پر تشدد مظاہروں میں کم از کم 22 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں جن میں سے اکثر کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان کی موت پولیس کی گولی لگنے سے ہوئی ہے۔

ابتدائی طور پر صدر روٹو نے پرتشدد مظاہروں کے بعد الزام لگایا تھا کہ پارلیمنٹ پر حملے اور وسیع پیمانے پر لوٹ مار کے پیچھے جرائم پیشہ عناصر ملوث ہیں اور انھوں نے ان کے خلاف سخت کارروائی کا عندیہ بھی دیا تھا۔

لیکن بدھ کے روز اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنے کے علاوہ انھوں نے اس بات کو بھی قبول کیا کہ یہ مظاہرے عوام کے دلوں میں موجود غصے کا ایک جائز اظہار تھے۔

انھوں نے تسلیم کیا کہ ’یہ واضح ہو گیا ہے کہ عوام اب بھی مزید مراعات دینے کی ضرورت پر اصرار کر رہی ہے۔‘

’میں حکومت چلاتا ہوں لیکن میں لوگوں کی قیادت بھی کرتا ہوں اور عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔‘

مگر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا لوگوں کو لگتا ہے کہ مسٹر روٹو کی جانب سے فنانس بل واپس لیا جانا کافی ہے؟

کچھ لوگ صدر کے استعفیٰ کا مانگ کررہے ہیں۔

کیا بوتل سے باہر آئے عوامی غیض و غضب کے جن کو دوبارہ قید کرنا ممکن ہوگا، اس کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا۔

مسٹر روٹو کے لیے ایک اور پریشانی یہ ہے کہ اس بحران نے ان کی عالمی حیثیت کو کیسے متاثر کیا ہے۔

صدر روٹو کی منگل اور بدھ کی تقریروں کے درمیان لہجے کے فرق کی ایک بڑی وجہ شاید کینیا کے قریبی سفارتی اتحادیوں اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے پرامن عوامی احتجاجی مظاہروں کی اجازت کے لیے پڑنے والا دباؤ بھی ہے۔

ہزاروں افراد کے سڑکوں پر نکلنے کے علاوہ سیکورٹی فورسز کی جانب سے بے جا طاقت کے استعمال کے خلاف آنے والا ردِعمل بھی مسٹر روٹو کے آئندہ کے لائحہ عمل پر اثر انداز ہوگا۔

لیکن وجہ کچھ بھی ہو لیکن اب مسٹر روٹو اب اپنی پالیسی دوبارہ مرتب کرنی ہوگی اور انھیں ایک ایسی اقتصادی پالیسی پر عمل کرنا پڑے گا جس پر وہ بھروسہ نہیں کرتے۔

مسٹر روٹو کے کچھ مخالفین شاید ان کے بیان کو ایک ایسے رہنما کے بیان کے طور پر دیکھیں جسے مشکلات نے جھکنے پر مجبور کردیا ہے۔

دوسری جانب اس فتح کے بعد کئی افراد کو یقین ہو چلا ہے کہ وہ صدر کے اختیارات کو مستقبل میں بھی چیلنج کرسکتے ہیں.

اس واقعہ کی گونج کئی دوسرے ممالک میں بھی سنی جاسکتی ہے۔

اگرچہ مسٹر روٹو کے یو ٹرن کے نوجوانوں کے غم وغصے کے علاوہ دوسرے عوامل بھی کارفرما تھے تاہم انھوں نے خود بھی تسلیم کیا کہ یہ کینیا کے نوجوان ہی تھے جنھوں نے اس آگ کو بھڑکایا۔

افریقہ کی آبادی کا تقریباً تین چوتھائی 35 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے جس کے باعث اسے سب سے کم عمر آبادی والا برِ اعظم بھی کہا جاتا ہے۔

ان میں سے بہت سے افراد کو بدھ کو ہونے والے واقعات کے بعد شاید اس بات کا یقین ہو چلا ہے کہ وہ اپنے لیڈروں کو اپنی مانگیں ماننے پر مجبور کر سکتے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.