جب یونیورسٹی میں آپ کا نیا ہمسایہ ایک دن بادشاہ بن جائے

یونیورسٹی پہنچ کر آپ کو کس کا ساتھ نصیب ہوتا ہے، یہ ایک لاٹری کی طرح ہے۔ 1983 میں آکسفورڈ میں پڑھنے والے ایک امریکی طالب علم کیتھ جارج کے ساتھ بھی کُچھ ایسا ہی ہوا جب اُن کے ساتھ پڑھنے والا نیا دوست جاپان کا ولی عہد نکلا۔

یونیورسٹی پہنچ کر آپ کو کس کا ساتھ نصیب ہوتا ہے، یہ ایک لاٹری کی طرح ہے۔

1983 میں آکسفورڈ میں پڑھنے والے ایک امریکی طالب علم کیتھ جارج کے ساتھ بھی کُچھ ایسا ہی ہوا جب ان کا نیا دوست جاپان کا ولی عہد نکلا۔

آج کے شہنشاہ ناروہیتو جو اس وقت ولی عہد تھے اور مرٹن کالج میں کیتھ کے بغل والے کمرے میں رہا کرتے تھے۔

مغربی ورجینیا سے تعلق رکھنے والے کیتھ بتاتے ہیں کہ ’شروع میں یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ میرے برابر کے کمرے میں ولی عہد رہتے ہیں، لیکن بہت جلد ہماری دوستی ہو گئی۔‘

جاپان
Getty Images
شہزادے نے 1983 میں مرٹن کالج آکسفورڈ میں ایک نئے طالب علم کی حیثیت سے آغاز کیا۔

40 سال سے زائد عرصے کے بعد شہنشاہ ناروہیتو برطانیہ کے سرکاری دورے پر پہنچے ہیں اور اس دوران انھوں نے زمانہ طالب علمی کے دوستوں کو بھی ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔

شمالی امریکہ کے اپلاچیائی پہاڑوں سے تعلق رکھنے والے اور بلیو گراس موسیقی کے شوقین کیتھ نے نوجوان جاپانی شہزادے کو شاہی گھرانے کی طرزِ رہائش سے ہٹ کر ایک نئی دُنیا دیکھنے کا موقع دیا۔

یونیورسٹی پہنچنے پر ولی عہد کے لیے کسی تقریب کا انعقاد نہیں کیا گیا تھا۔ کیتھ کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے مجھے پہلے ہی دن کہہ دیا تھا کہ مجھے ہیرو کہہ کر بلایا جائے۔‘

آپ کا پڑوسی اگر شاہی خاندان کا فرد ہو تو اس کا مطلب یہ بھی ہوا کرتا ہے کہ اُن کی سکیورٹی کے لیے وہاں اہلکار ہوں گے اور اگر وہ پب یا ریستوران جائیں گے تو وہ سب بھی اُن کے ساتھ ہوں گے۔

کیتھ کا کہنا ہے کہ ’میری تو اُن (سکیورٹی اہلکاروں) کے ساتھ بھی اچھی دوستی ہو گئی۔‘

یونیورسٹی کے بعد بھی جاپان کے شہنشاہ اور امریکی وکیل آپس میں رابطے میں رہے جس دوران ولی عہد کی مغربی ورجینیا کے شہر مورگن ٹاؤن میں کیتھ اور ان کے اہل خانہ سے ملاقاتیں بھی شامل ہیں۔

شہزادے کو اپنے گھر میں بطور مہمان رکھنے کے شکریہ کے طور پر، کیتھ کے والد اور والدہ کو واشنگٹن ڈی سی میں رونالڈ ریگن اور جارج ایچ بش کے ساتھ ایک سرکاری عشائیہ میں بھی مدعو کیا گیا۔

لیکن کیتھ کو جو بات یاد ہے وہ بس یہ کہ انھوں نے ایک شہنشاہ کو شاہی طرزِ زندگی سے نکال کر واپس زمانہ طلب علمی کی یاد تازہ کرنے کا موقع فراہم کیا تھا۔

کیتھ کا کہنا ہے کہ ’سب سے بڑی آسائش ذاتی آزادی ہے۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ ’جب ان کا دل چاہتا وہ پیزا کھانے کے لیے نکل پڑتے۔‘

برطانیہ میں ولی عہد نسبتاً گمنام طور پر گھوم سکتے تھے اور کیتھ کا کہنا تھا کہ ان کے شاہی دوست کو توجہ حاصل کیے بغیر باہر جانا ’پسند‘ تھا۔

کیتھ کا کہنا ہے کہ ’انھیں آکسفورڈ کے آس پاس کے مناظر بہت پسند تھے، وہ پب اور ریستوراں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔‘

وہ اپنی دوستی اور ایک ساتھ گُزرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’وہ خوش رہتے تھے اور اپنے زمانہ طالبِ علمی سے بھرپور لطف اندوز ہونا چاہتے تھے۔‘

یونیورسٹی کے دوران جاپانی شہزادے نے بلیو گراس بینڈ کے ساتھ وولا نامی موسیقی کا آلہ بھی بجایا تھا۔

اگرچہ اس سرکاری دورے میں شہنشاہ ناروہیتو کے لیے سرخ قالین بچھایا گیا ہے جس میں بکنگھم پیلس میں سرکاری ضیافت بھی شامل ہے، لیکن شاید وہ اپنے طالب علمی کے دوستوں سے ملنے کے منتظر ہوں گے۔

کیتھ کہتے ہیں کہ ’میں جانتا تھا کہ وہ کون ہیں اور میں ان کا احترام کرتا تھا۔ وہ ایک فرد کے طور پر کون تھے، ہماری دوستی اس سب سے بڑھ کر تھی۔ وہ اس لیے میرے دوست نہیں تھے کیونکہ اس وقت وہ ولی عہد تھے۔‘

اب یہ دونوں دوست 60 کی دہائی میں ہیں اور کیتھ اپنی بیٹیوں کو ایک دوسرے سے تعلق قائم رکھتے دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ تقریباً 40 سال پہلے شروع ہونے والی دوستی اگلی نسل میں بھی جاری رہے۔

وہ اس غیر متوقع طور پر بننے والے طویل تعلق کو آج بھی یاد کرتے ہیں تو انھیں خوشگوار احساس ہوتا ہے۔

’میں کہہ سکتا ہوں کہ جاپان کے شہنشہاہ میرے بہت اچھے دوست ہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.