ارب پتی کی بیوی ہونے کی غلط فہمی میں اغوا اور قتل ہونے والی خاتون کی تلاش کا معمہ: ’ہم دن میں ہزار بار مر رہے تھے‘

روپرٹ مرڈوک کی اس وقت کی اہلیہ کے دھوکے میں موریئل میککے کو 1969 میں ومبلڈن میں ان کے گھر سے اغوا کر لیا گیا تھا اور انگلینڈ کے شہر ہرٹفورڈ شائر میں روکس فارم میں یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ ان کی رہائی کے لیے دس لاکھ پاؤنڈ کا تاوان مانگا گیا۔

اغوا کے بعد قتل کر دی جانے والی ایک خاتون کے خاندان کا کہنا ہے کہ انھیں ان کی گمشدگی کے بعد ’ایک ہزار ہلاکتوں‘ جیسی اذیت کو جھیلنا پڑا۔

موریئل میکے کو 1969 میں روپرٹ مرڈوک کی اس وقت کی اہلیہ کے دھوکے میں ویمبلڈن میں ان کے گھر سے اغوا کر لیا گیا تھا۔ انھیں انگلینڈ کے شہر ہرٹفورڈ شائر میں روکس فارم میں یرغمال بنا کر رکھا گیا۔ ان کی رہائی کے لیے دس لاکھ پاؤنڈ کا تاوان مانگا گیا۔

رواں ہفتے موریئل کی باقیات کی تلاش میں شروع ہونے والی ایک نئی قبر کشائی کے موقع پر ان کے بچوں نے اپنی ماں کی گمشدگی کے بعد ہونے والی اذیت اور صحافیوں، ہمدردوں اور حتیٰ کے مذاق میں کی جانے والے مسلسل کالز کے بارے میں بات کی۔

آرتھر حسین جو روکس فارم کے مالک تھے اور ان کے چھوٹے بھائی، نظام الدین حسین کو بعد میں موریئل کے اغوا اور قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

اپنے خاندانی گھر میں واپسی کے بارے میں بتاتے ہوئے جہاں ان کے ساتھ ان کے والد، ایلک اور بہنیں ڈیان اور جینیفر بھی شامل تھے ایئن میکے نے کہا ’مجھے واضح طور پر یاد ہے کہ میں گھر میں داخل ہوا تو مجھے اپنی ماں کی موجودگی کو محسوس کیا تھا۔‘

’میں یہ سب بیان نہیں کر سکتا۔ ‘

میکے نے صحافیوں، اجنبیوں اور مذاقاً کی گئی ان گنت کالز کے بارے میں بتایا۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام کالوں کا جواب دیا گیا ’ہم بے چین تھے۔ ہمیں ہر طرح کے احمق لوگ فون کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ کہاں ہیں۔‘

فون کرنے والے بہت سے اجنبیوں نے پیسے مانگے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ ’یہ یقین کرنا واقعی مشکل ہے کہ لوگ خوفناک طریقے سے برتاؤ کر سکتے ہیں۔‘

’ہم دن میں ہزار بار مر رہے تھے کیونکہ ہر کال ایک امید تھی۔ یہ سب سے ناقابل یقین، اذیت ناک تجربہ تھا جس کا آپ تصور کر سکتے ہیںاور یہ صرف چند دن نہیںبلکہ ہفتوں تک جاری رہا۔‘

آرتھر اور نظام الدین حسین کوسات فروری 1970 کو گرفتار کیا گیا تھا اور ابتدائی طور پر کنگسٹن پولیس سٹیشن میں رکھا گیا تھا کیونکہ صحافیوں کا ہجوم ومبلڈن میں پولیس سٹیشن کے باہر جمع تھا۔

میکے نے گرفتاری کے فورا بعد اپنے گھر کے ڈائننگ روم میں کیس کے انچارج افسر ڈیٹیکٹیو سپرنٹنڈنٹ بلاسمتھ اور ڈیٹیکٹیو سارجنٹ جان مائنرز کے ساتھ ہونے والی بات چیت کو یاد کرتے ہوئے بتایا ’انھوں نےمجھ سے کہا کہ اگر آپ پولیس سٹیشن جانا چاہتے ہو تو ہم آپ کو قید خانے میں جانے دیں گے،آپ ان کے ساتھ جو چاہیں کر سکتے ہیں اور کسی کو کبھی پتہ نہیں چلے گا۔‘

میکے کا کہنا تھا کہ ’میں کافی حیران تھا، میں ایسا کچھ سوچ بھی نہیں رہا تھا ۔‘

آج تک میکے یہ سمجھ نہیں پائے کہ آیا یہ پیشکش حقیقی تھی یا ’بہادری ، مایوسی (کہ ملزم بھائی سوالات کا جواب نہیں دے رہے تھے) اور خاندان کے ساتھ ’وفاداری‘ کے احساس کا مرکب تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں وہ ہمارے سامنے یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ انھوں نے ہر ممکن کوشش کی اور مجھے لگتا ہے کہ انھیں(پولیس) ہمارا دردنظر آ رہا تھا۔‘

میکے نے کہا کہ انھوں نے اپنی والدہ کی جانب سے بھیجے گئے تقریباً 120 خطوط میں سے صرف آخری دو خطوط اپنے پاس رکھے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ باقی خطوط انھوں نے اس خوف سے جلا دیے کہ کہیں وہ غلط ہاتھوں میں نہچلے جائیں اور ان کی نجی زندگی میں دخل اندازی نہ ہو۔

انھوں نے کہا کہ اگرچہ ان میں کچھ بھی خفیہ نہیں تھا۔ ’یہ صرف ناقابل یقین حد تک ذاتی تھا۔‘

کیا حسین بھائیوں کو جلد پکڑا جا سکتا تھا؟

میکے کی سب سے بڑی بیٹی جینیفر کا کہنا ہے کہ انھیں اپنی والدہ کی گمشدگی کے فوراً بعد ملنے والے شواہد کو نظر انداز کر دیا گیا۔

انھوں نے مرئیل کے لاپتہ ہونے کے ایک دن بعد سسیکس میں اپنے گھر سے لندن پہنچنے کے بارے میں بتایا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد فکر مند تھے اور انھیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اپنے ساتھ کیا کریں۔ گھر والوں کو اندازہ نہیں تھا کہ موریئل کے ساتھ کیا ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ آئی آر اے (آئرش ریپبلکن آرمی) ہو سکتی تھی، یہ مافیا ہو سکتی تھی، ہم نہیں جانتے کہ یہ کیا ہے۔‘

’یہ واقعی غیر معمولی تھا کیونکہ گھر پولیس اور رپورٹروں سے بھرا ہوا تھا، وہ کئی ہفتوں تک باہر فٹ پاتھ پر قطار میں کھڑے تھے۔‘

پولیس نے شواہد کی تلاش میں گھر کی تلاشی لی تھی لیکن جینیفر کا کہنا تھا کہ وہ خود اس پر نظر ڈالنا چاہتی ہیں۔

’میں خاموشی سے گھر کے اردگرد گھومنا چاہتی تھی۔ میں ہر کمرے میں صرف یہ دیکھنے کے لیے گھوم رہی تھی کہ شاید میں کچھ مختلف محسوس کر سکوں۔‘

باورچی خانے سے باہر ایک چھوٹے سے کمرے میں ایک میز کے نیچے انھیں فرش پر ایک تصویر ملی۔ انھوں نے کہا کہ یہ تصویر ایک ٹریلر کے ساتھ مردوں کے ایک گروپ کی تھی۔

انھوں نے بتایا ’یہ ایک ایسی چیز ہے جسے وہاں نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘

انھوں نے اس دریافت کا ذکر ڈیٹیکٹیو سارجنٹ مائنرز سے کیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’اور پھر میں اندر گئی اور کہا کہ میں آپ کو کچھ دکھانا چاہتی ہوں جو مجھے ملا ہے‘۔

ان کے مطابق انھیں نظر انداز کیا گیا اور ان کے ساتھ ’احمق بیٹی‘ جیسا سلوک کیا گیا۔

’انھوں نے تصویر کو دیکھا اور کہا کہ میں اس بارے میں آپ سے بعد میں بات کروں گا‘ اسے اپنی جیب میں ڈال لیا اور میں نے اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔ ‘

انھوں نے کبھی تسلیم نہیں کیا کہ یہ (تصویر)ان کے پاس تھی اور کہانییہںی ختم ہو گئی۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا انھیں یقین ہے کہ تصویر میں نظر آنے والوں میں سے کچھ حسین برادران ہیں، جینیفر نے کہا ’اوہ ہاں، مجھے لگتا ہے کہ یہ نظام الدین اور دو دیگر لوگ تھے۔‘

آرتھر جیل سے انتہائی سکیورٹی والے ہسپتال منتقل ہونے کے بعد انتقال کر گئے۔ نظام الدین کو سزا کاٹنے کے بعد ان کے آبائی ملک ٹرینیڈاڈ جلاوطن کر دیا گیا تھا۔

جنوری میں ڈیان اور ان کے بیٹے مارک رینڈولف ڈائر نظام الدین سے ملنے کے لیے ٹرینیڈاڈ گئے، جس نے آخر کار انھیں بتایا کہ اس نے لاش کو کہاں دفن کیا تھا۔

لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کی جانب سے فارم سائٹ کی ایک اور تلاشی لینے کا فیصلہ مارچ میں حسین سے بات کرنے کے لیے ٹرینیڈاڈ جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔

ڈیان نے کہا کہ خاندان نے مریئل کی گمشدگی کے بارے میں کبھی بات نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم میں سے کسی نے بھی اپنے تجربے کے بارے میں کبھی بات نہیں کی، جو بالکل منفرد، جذباتی اور خوفناک تھا۔‘

’اس نے واقعی مجھے پریشان کر دیا۔ مجھے معمول پر آنے میں کئی سال لگے۔‘

وہ سمجھتی ہیں کہ نظام الدین شاید ان کی ماں کی لاش کے ٹھکانے کے بارے میں سچ نہیں بتا رہا ہے۔ لیکن پوچھتی ہیں کہ 20 سال جیل میں گزارنے کے بعد وہ ان کی باقیات کے بارے میں جھوٹ کیوں بولیں گے۔

میکے نے کہا کہ وہ بالکل نہیں جانتے کہ مریئل کی لاش ملنے کا خاندان کے لیے کیا مطلب ہوگا لیکن انھوں نے اس کوشش کی حمایت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ انھیں لگتا ہے کہ ان کے خاندان نے ’وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں ہم نے بہترین انداز میں ان کی لاج رکھی۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.