ہندوؤں کی یاترا کے دوران دکانوں کے باہر نام لکھنے کا حکم: ’یہ مسلمانوں کو الگ کرنے کی کوشش ہے‘

انڈیا کی ریاستوں اترپردیش اور اتر کھنڈ میں ہندوؤں کی مذہبی یاترا کے لیے مختص راستوں پر دکانوں اور کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والوں کو دکانوں پر اپنے نام جلی حروف میں لکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بعض لوگوں نے اسے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک قرار دیا جبکہ کچھ نے اس کا موازنہ نازی جرمنی میں یہود مخالف اقدامات سے کیا۔
کانوڑ یاترا ہر سال ساون کے مہینے میں نکلتی ہے جو تقریبا 15 روز تک رہتی ہے
Getty Images
کانوڑ یاترا ہر سال ساون کے مہینے میں نکلتی ہے جو تقریبا 15 روز تک رہتی ہے

انڈیا کی ریاستوں اترپردیش اور اتر کھنڈ میں ہندوؤں کی مذہبی یاترا کے لیے مختص راستوں پر دکانوں اور کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والوں کو دکانوں پر اپنے نام جلی حروف میں لکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔

پہلے یہ حکم صرف مغربی اترپردیش کے علاقے مظفر نگر کے لیے جاری ہوا تھا اور اس پر چہار جانب سے سخت تنقید ہوئی لیکن اس کا اثر نہ لیتے ہوئے ریاست کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے جمعے کو اسے پوری ریاست میں نافذ العمل قرار دیا۔

اتر پردیش کی طرز پر اتر کھنڈ میں بھی ہوٹلوں، ڈھابوں اور سڑکوں پر کھانے پینے کی اشیا بیچنے والوں کو اپنے نام ظاہر کرنے کا کہا گیا ہے۔

اتر پردیش میں بی جے پی کی حکومت ہے لیکن اس نئے اقدام پر نہ صرف اسے اپنے اتحادیوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے بلکہ مختار عباس نقوی جیسے چند گنے چنے بی جے پی رہنما بھی اس حکم کے خلاف ہیں اور اسے تقسیم کرنے والی سیاست سے تعبیر کر رہے ہیں۔

بعض نقاد اس کا موازنہ ’نازی جرمنی‘ کی یہود مخالف حکمت عملی سے کر رہے ہیں۔ جیسے معروف نغمہ نگار، سکرپٹ رائٹر اور سابق رکن پارلیمان جاوید اختر نے اس اقدام کو 20ویں میں نازی جرمنی کے حکم کے مشابہ ٹھہرایا۔

یوپی پولیس
Getty Images
کانوڑیوں کی یاترا کے دوران یوپی پولیس

پولیس کا مسلم دکانداروں کے ساتھ سخت رویہ، مسلم ملازمین کو بھی ہٹانے کی ہدایت

بی بی سی ہندی کے صحافی دلنواز پاشا نے اس معاملے کے بعد مظفر نگر کا دورہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ بیانات اور زمینی حقیقت میں بہت فرق ہے۔

وہ لکھتے ہیں: ’ہریدوار سے آنے والی مرکزی سڑک مدینہ چوک سے ہوتی ہوئی مظفر نگر میں داخل ہوتی ہے۔ اب یہاں کی تقریباً ہر دکان کے باہر سفید تختوں پر مسلمان دکانداروں کے نام بڑے سرخ حروف میں لکھے ہوئے ہیں۔‘

دہلی سے ہریدوار جانے والی شاہراہ اور شہر کے دیگر علاقوں اور راستوں کا بھی یہی حال ہے۔

مظفر نگر کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ابھیشیک سنگھ نے کہا ہے کہ دکانداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر اپنے نام ظاہر کریں۔

لیکن زمینی حقیقت کچھ اور نظر آتی ہے۔

کھتولی میں گذشتہ دس سالوں سے 'لورز ٹی پوائنٹ' کے نام سے چلنے والی چائے کی دکان کا نام اب 'وکیل صاب چائے' کر دیا گيا ہے۔

دکان کے مالک ایڈوکیٹ احمد کا دعویٰ ہے کہ اس کے باوجود پولیس کو اعتراض تھا۔

وہ کہتے ہیں: ’جب میں نے پولیس کی درخواست پر اپنی دکان کا نام بدل کر کے وکیل صاحب رکھا تو پولیس والے دوبارہ میرے پاس آئے اور کہا کہ اس نام سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ آپ مسلمان ہیں، انھوں نے مجھ سے نام تبدیل کرنے کو کہا۔'

وکیل احمد اب ایک اور بڑا سائن بورڈ لگانے پر مجبور ہیں۔ وکیل کو اپنی دکان کا دس سال پرانا نام تبدیل کرنے پر افسوس ہے۔

اس پر لکھا ہے پروپرائٹر: انیس احمد کی شاپ
BBC
اس پر لکھا ہے پروپرائٹر: انیس احمد کی شاپ

وہ کہتے ہیں: ’یہ واضح طور پر مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے اور مذہبی تفریق کو بڑھانے کی کوشش ہے۔ لیکن ہمیں کاروبار کرنا ہے، ہم انتظامیہ کے سامنے کیا کر سکتے ہیں۔‘

مظفر نگر کے بھنگیلا گاؤں میں ہائی وے پر چائے کا سٹال چلانے والے آصف کا دعویٰ ہے کہ جب انھوں نے سائن بورڈ نہیں لگایا تو پولیس انھیں زبردستی تھانے لے گئی اور جیل بھیجنے کی دھمکی دی۔

آصف کا کہنا ہے کہ ’مقامی ایم پی ہریندر ملک کی مداخلت کے بعد مجھے تھانے سے رہا کر دیا گیا۔ لیکن مجھے رہا کرنے سے پہلے پولیس نے میری دکان پر میرے نام کا بڑا بینر بھی لگا دیا۔‘

کئی دوسرے ڈھابوں کے مالکان کا دعویٰ ہے کہ پولیس کی ٹیمیں ان کے ڈھابوں پر آئی تھیں اور ان سے مسلم ملازمین کو ہٹانے کو کہا تھا۔

اسی ڈھابے کے قریب ایک اور ڈھابے کے ہندو مالک کا کہنا ہے کہ کچھ دن پہلے پولیس آئی تھی اور پوچھا تھا کہ کیا وہاں کوئی مسلمان تو کام نہیں کرتا ہے، میں نے کہا کہ میرے یہاں کوئی نہیں ہے، پھر پولیس یہ ہدایت دے کر چلی گئی کہ کوئی مسلمان ملازمت نہ کرے۔'

اس ڈھابے کو پہلے ایک مسلمان چلایا کرتا تھا۔ لیکن گذشتہ سال ہونے والے تنازعے کے بعد انھوں نے اپنا ڈھابہ بند کر دیا اور اب اسے ایک ہندو مالک چلا رہا ہے۔

اب نئے ہندو مالکان کا کہنا ہے کہ ’جو مسلمان ہیں ان کا کام متاثر ہوا ہے، جو ہم جیسے ہندو مالک ہیں ان کا کام ابھی تک جاری ہے۔‘

ایک مالک جس نے مینیجر سمیت چار مسلم ملازمین کو اپنے ڈھابے سے نکالا تھا ان کا کہنا ہے کہ 'آپ ہماری پوزیشن کو سمجھتے ہیں، ہم کوئی تنازع نہیں چاہتے۔'

مظفر نگر کے ایس ایس پی ابھیشیک سنگھ نے ان الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس نے بیان جاری کیا ہے، اس کے علاوہ ہمارے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔'

اسی دوران شہر کے کھتولی علاقے میں کئی دکانوں کے مالکان نے الزام لگایا کہ ان سے زبردستی مسلم ملازمین کو اپنی دکانوں سے ہٹانے کے لیے کہا گیا۔

اس بارے میں جب کھتولی کے ایس ایچ او سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ پولیس کسی دکان یا ڈھابے پر نہیں گئی اور نہ ہی کسی مسلمان ملازمین کو گرفتار کر کے نکالا گیا۔

دکانوں پر نام ظاہر کرنے کا حکم کیوں دیا گیا؟

مظفر نگر پولیس کے مطابق مذہبی جلوس کے دوران ’الجھن سے بچنے‘ کے لیے کانوڑ یاترا کے راستے میں پڑنے والے تمام فوڈ جوائنٹس کو یہ حکم دیا گیا۔

مظفر نگر کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ابھیشیک سنگھ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا: ’کانوڑ یاترا کے لیے تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔‘

انھوں نے تمام کھانے پینے کی دکانوں، ہوٹلوں، ڈھابوں اور ٹھیلوں کو ہدایت دی کہ وہ اپنے مالکان یا دکان چلانے والوں کے نام ظاہر کریں تاکہ ’کانوڑیوں میں کوئی الجھن نہ ہو اور مستقبل میں کوئی الزام نہ لگے۔‘

اتراکھنڈ میں ہریدوار کے ایس ایس پی پرمیندر ڈوول کے مطابق کانوڑ یاترا کے دوران کئی بار ایسی دکانوں کو لے کر تنازعات پیدا ہوتے ہیں۔ ’کئی بار مالک کا نام نہ لکھے جانے کی وجہ سے کانوڑ یاتری اعتراض بھی کرتے ہیں۔‘

چہار جانب سے تنقید کے بعد مظفرنگر پولیس نے کہا کہ انھوں نے 'رضاکارانہ' طور پر نام لکھنے کی تجویز دی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ساون کے مہینے میں علاقے کے یاترا کے لوگ ہریدوار سے پانی لیتے ہیں اور وہ مظفر نگر کے راستے گزرتے ہیں اور وہ اس دوران بعض کھانوں سے پرہیز کرتے ہیں۔

جبکہ پرمیندر ڈوول کہتے ہیں کہ 'اس سلسلے میں، ہریدوار پولیس کانوڑ یاترا کے راستے پر تمام دکانوں، ریستورانوں، ڈھابوں اور گلیوں کے دکانداروں کے نام اور کیو آر کوڈ کی تصدیق کرنے پر زور دے رہی ہے۔‘

پرینکا گاندھی
Getty Images
پرینکا گاندھی نے اسے آئین مخالف کہا اور اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے

حزب اختلاف نے اسے آئین کے خلاف کہا

حزب اختلاف کی جانب سے اس ہدایت کو تنقید کا نشانہ بنایا گيا ہے۔

ریاست میں دوسری سب سے بڑی جماعات سماجوادی پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو نے ایکس پر بارش کی وجہ سے پانی میں پھنسے ہوئے موٹر سائیکل سوار کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے طنز کیا کہ ’یہ دیکھ کر پریشان نہ ہوں۔ یہ ویڈیو گورکھپور کا نہیں ہے۔ پانی جمع ہونا نہ صرف گورکھپور کا بلکہ پوری ریاست کا مسئلہ ہے۔‘

کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی نے جاری کردہ ہدایات واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے ایکس پر لکھا: ’ہمارا آئین ہر شہری کو ضمانت دیتا ہے کہ اس کے ساتھ ذات، مذہب، زبان یا کسی اور بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔

’اتر پردیش میں ٹھیلوں، گاڑیوں، ریڑیوں اور دکانوں پر ان کے مالکان کے نام کے بورڈ لگانے کا تفرقہ انگیز حکم ہمارے آئین، ہماری جمہوریت اور ہمارے مشترکہ ورثے پر حملہ ہے۔'

انھوں نے مزید لکھا کہ 'سماج میں ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم پیدا کرنا آئین کے خلاف جرم ہے۔ اس حکم کو فوری طور پر واپس لیا جائے اور اسے جاری کرنے والے اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔'

بی جے پی لیڈر اور سابق مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے اسے 'اچھوت' کہا اور ایکس پر لکھا کہ ’حد سے زیادہ پرجوش افسران کے احکامات جلد بازی میں جاری کیے گئے۔ اس سے اچھوت کی بیماری کو فروغ مل سکتا ہے۔‘

اس حوالے سے نقوی نے رائے داس کا شعر بھی ٹویٹ کیا کہ ’کسی کی ذات نہ پوچھو، سب ذات پربھو کی ہے۔'

جبکہ اس کے برعکس مرکزی وزیر اور بی جے پی لیڈر گری راج سنگھ نے کہا کہ حکومت کے احکامات پر عمل کیا جانا چاہیے۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی سے بات کرتے ہوئے گری راج سنگھ نے کہا: 'اس طرح کے حکم پر کوئی تنازع نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی کسی کو گھبرانا چاہیے۔ اگر ہمارے پاس ثبوت ہیں تو دکھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔'

لیکن مرکز میں بی جی پی کی حلیف جے ڈی یو اور ایل جے پی (رام ولاس) اس حکم سے مطمئن نہیں ہے۔

ایل جے پی کے رہنما اور رکن پارلیمان چراغ پاسوان نے کہا کہ وہ اس حکم کی حمایت نہیں کرتے۔

انھوں نے کہا کہ ’جہاں بھی ذات پات اور مذہب کے نام پر تقسیم ہوتی ہے میں اس کی حمایت نہیں کرتا اور نہ ہی اسے فروغ دینا چاہتا ہوں۔‘

بی جے پی کی اہم حلیف جماعت جنتا دل یوکے رہنما کے سی تیاگی نے کہا کہ یہ یاترا اترپردیش، بہار اور راجستھان میں صدیوں سے ہو رہی ہے اور کبھی کوئی فرقہ وارانہ معاملہ سامنے نہیں آیا ہے۔ ’اگر مذہبی خطوط پر اس طرح کی چیزیں ہوتی ہیں تو اس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچے گا۔‘

ادھر آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ اور رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے ایکس پر لکھا کہ ایسے اقدام کو ماضی میں ’جنوبی افریقہ میں نسل پرستی اور ہٹلر کے جرمنی میں بائیکاٹ کہا جاتا تھا۔'

کانوڑ یاترا
Getty Images
کانوڑ یاترا

اس کا موازنہ ’نازی جرمنی‘ سے کیوں؟

مظفر نگر پولیس کے اس حکم کے بعد گیت نگار جاوید اختر نے اس کا موازنہ ’نازی جرمنی‘ سے کیا اور لکھا کہ 'کیا نازی جرمنی میں وہ صرف مخصوص دکانوں اور مکانات پر نشان نہیں بناتے تھے؟'

خیال رہے کہ اپریل 1933 کے دوران نازی جرمنی نے یہودیوں کے کاروبار کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا جس کے تحت یہودیوں کی دکانوں کے باہر نعرے لکھے جاتے تھے اور لوگوں کو ان میں داخل ہونے سے روکا جاتا تھا۔

معروف بالی وڈ اداکار سونو سود نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر دکان پر صرف 'انسانیت' لکھا ہونا چاہیے۔

ان کے اس ٹویٹ کی وجہ سے انھیں ٹرولنگ کا سامنا ہے جبکہ نئی رکن پارلیمان اور اداکارہ کنگنا رناوٹ نے اس کا جواب انھیں کھانے پینے کی اشیا پر ’حلال‘ لکھے ہونے سے دیا۔

مسٹر فکس نامی ایک صارف نے جرمنی کی پرانی اور انڈیا کی تازہ تصویر ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔‘

https://twitter.com/yippeekiyay_dk/status/1814520242133213735

ایک صارف نے طنز کیا کہ ’بلڈ گروپ کے ساتھ خون کا عطیہ کرنے والے کا نام بھی بوتل پر لکھا دینا چاہیے۔‘

کانگریس رہنما پون کھیڑا کے بیان کو بھی شيئر کیا جا رہا ہے کہ 'انڈیا میں بڑے گوشت کے ایکسپورٹر ہندو ہیں۔ کیا ان کے ذریعے فروخت کیا جانے والا گوشت دال چاول بن جاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح کسی الطاف کے ہاتھوں فروخت کیے جانے والے آم امرود یا گوشت نہیں۔‘

کانوڑ یاترا کیا ہے؟

کانوڑ یاترا ہندوؤں کے بھگوان شیو کے عقیدت مندوں کی ایک سالانہ یاترا ہے جس میں لاکھوں کی تعداد میں یہ بھکت یا عقیدت مند جنھیں کانوڑیا کہا جاتا ہے۔

وہ شیو کے دوسرے نام 'بھولے' یا 'بم بم بھولے' کا جاپ (ورد) کرتے ہوئے لیے ہریدوار، گاؤمکھ اور گنگوتری اتراکھنڈ سے مقدس دریا گنگا کا پانی لیتے ہیں اور اپنے کندھوں پر سینکڑوں میل تک اپنے مقامی شیو مندروں یا مخصوص مندروں جیسے دہلی کے قریب واقع باغپت ضلع میں پورا مہادیو مندر اور میرٹھ میں اوگرناتھ مندر، وارانسی میں کاشی وشواناتھ مندر پانی پیش کرتے ہیں۔

اسی طرح ریاست بہار میں بھی اسے بڑے جوش و خروش اور عقیدے کے ساتھ منایا جاتا ہے اور گنگا کا پانی دیوگھر لے جا کر چڑھایا جاتا ہے۔

یہ یاترا ہر سال ہندی کیلنڈر کے حساب سے ساون کے مہینے میں منعقد ہوتی ہے۔

یہ یاترا رواں سال سوموار یعنی 22 جولائی سے شروع ہو رہی ہے اور چھ اگست تک جاری رہے گی۔ اس سے قبل اترپردیش میں کانوڑیوں پر ہیلی کاپٹر سے پھول برسائے گئے تھے جسے بعض حلقے سے مذہبی رسومات کو سرکاری تعاون دیا جانا کہا گیا تھا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.