خاتون کا شوہر اور بیٹی کے سامنے ریپ، کیا پولیس تھانے کی حدود کے تعین پر جھگڑتی رہی؟

image

صوبہ پنجاب کے ضلع حافظ آباد کے علاقے سکھیکی میں بدھ کو پولیس کے مطابق ایک خاتون کا شوہر اور کم عمر بیٹی کے سامنے ریپ کیا گیا۔ اس واقعے کی ایف آئی آر تھانہ سکھیکی میں خاوند کی مدعیت میں درج کی گئی ہے۔

ایف آئی آر میں درج واقعے کی تفصیلات کے مطابق چنیوٹ کا رہائشی شاہد نامی شخص اپنی اہلیہ اور بچی کے ساتھ اپنے قریبی رشتہ داروں سے ملنے سکھیکی آیا ہوا تھا۔ موٹر سائیکل پر واپس گھر جاتے ہوئے شام کے وقت سکھیکی سے سانگلہ روڑ پر انہیں تین افراد نے روکا اور ڈکیتی کرنے کے بعد خاتون کو ایک ڈاکو نے ریپ کیا اور شوہر کو گن پوائنٹ پر خاموش رہنے کا کہا۔

اس واقعے کے ایک روز بعد کچھ ایسی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے جائے وقوعہ پر پولیس اہلکار بڑی تعداد میں کھڑے ہیں اور افسران اس بات پر اُلجھ رہے ہیں کہ یہ زمین ضلع ننکانہ میں آتی ہے یا پھر ضلع حافظ آباد میں۔

اس جھگڑے کے دوران پولیس افسران ایک دوسرے پر سخت الفاظ استعمال کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔

اس جھگڑے کے منظرعام پر آنے کے بعد ایس ایچ او تھانہ سکھیکی کو معطل کر دیا گیا ہے۔

تو کیا پولیس کی جانب سے حدود کے تعین کے باعث اس مقدمے کے اندراج میں کوئی تاخیر ہوئی اور کیا ایس ایچ او سکھیکی لقمان اعظم کو اسی وجہ سے معطل کیا گیا؟ اور سرے سے یہ جھگڑا ہوا ہی کیوں؟

 ان تمام سوالوں کے جواب کے لیے اردو نیوز نے ڈی پی او حافظ آباد فیصل گلزار سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’سب سے پہلے تو میں آپ کو یہ بتاؤں کہ بدھ کی رات 24 جولائی کو جب یہ واقعہ ہوا تو اطلاع ملنے پر سکھیکی پولیس فوری پہنچی اور بغیر کسی چوں چراں کے اس رات مقدمہ درج کر لیا گیا اور متاثرہ خاتون کا میڈیکل بھی کروایا گیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’مقدمے کے اندراج میں کسی بھی قسم کی کوتاہی نہیں ہوئی اور نہ تاخیر ہوئی۔ جو ویڈیوز سوشل میڈیا پر دکھائی جا رہی ہیں وہ دن کے وقت کی ہیں جبکہ وقوعہ رات کا ہے۔ تو لوگوں پر یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ یہ ایک روز بعد کی ویڈیوز ہیں۔ اور ان کا سیاق و سباق وہ نہیں جو  پیش کیا جا رہا ہے۔‘

تو پھر جھگڑا ہوا کیوں؟

فیصل گلزار بتاتے ہیں کہ ’ڈاکوؤں نے جس سڑک پر اس موٹر سائیکل سوار فیملی کو روکا وہ حافظ آباد میں ہے لیکن خاتون کے ساتھ ریپ کرنے کے لیے جو ایک شخص اسے بانس کے کھیتوں میں لے کر گیا وہ ضلع ننکانہ میں ہیں۔ یہ وہ معاملہ تھا جو قانونی طور اس کیس کے ٹرائل کو متاثر کر سکتا تھا۔ اس لیے ہم چاہ رہے تھے کہ کوئی قانونی سقم نہ ہو۔ لیکن ایف آئی آر فوری اس لیے درج کی کہ یہ قانونی معاملہ پولیس بعد میں خود ہی نمٹاتی رہے گی اس لیے وہ ویڈیوز ایک روز بعد کی ہیں۔‘

اس حوالے سے جب سکھیکی کے شہریوں سے رابطہ کیا گیا تو ایک مقامی شخص شہادت بھٹی نے بتایا کہ ’یہ سڑک جس پر دس ایکڑ بانس کے کھیت ہیں یہی سکھیکی کو فیصل آباد سے ملاتی ہے۔ اور یہ سارے گاؤں حافظ آباد میں آتے ہیں۔ اسی سڑک پر تین کلومیٹر آگے تھانہ سانگلہ کی حدود کا بورڈ لگا ہے۔ لیکن وقوعہ جن بانس کے کھیتوں میں ہوا ہے وہ ضلع ننکانہ میں ہے اور چوہدری اقبال مانیکا کی زمین ہے۔ وہ خود تو حافظ آباد کے ہیں وہ زمین قانونی طور پر ضلع ننکانہ میں درج ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایک ہی وقت میں یہ وقوع دو اضلاع میں ہوا ہے۔‘

پولیس حکام کے مطابق ایک ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اگر ایف آئی آر فوری درج ہوئی اور حدود کے جھگڑا مقدمہ درج کرنے میں رکاوٹ نہیں بنا تو سکھیکی کے ایس ایچ کو کیوں معطل کیا گیا؟

جب یہ سوال ڈی پی او حافظ آباد سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس کی وجوہات کچھ اور ہیں اور دیرینہ ہیں۔ وہ کئی مواقع پر غیر ذمہ دار پائے گئے ہیں۔ اس واقعے میں بھی انہوں نے میڈیکل کروانے کے لیے مقدمے کے تفتیشی انچارج انوسٹیگیشن یعنی انسپکٹر رینک کے افسر کے بجائے کسی معمولی ملازم کو ہسپتال بھیجا۔ جو کہ اتنے بڑے کیس میں ایک غیر ذمہ دار عمل تھا۔ ایسے محسوس ہوا کہ انہوں نے اس کیس کو بہت ہلکا لیا ہے اس لیے انہیں معطل کیا۔‘

اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’آئی جی آفس سے بھی ہم رابطے میں ہیں، حدود کا تعین بھی ہو جائے گا اور قانونی طور پر اگر یہ حدود دوسرے ضلعے میں آئی تو ایف آئی آر سمیت ہر چیز وہاں منتقل ہو جائے گی۔ ہم نے ایک ملزم کو گرفتار کر لیا ہے اس سے دو پستول بھی برآمد کیے ہیں، باقی دو کی تلاش جاری ہے۔‘


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.