کراچی میں بگٹی خاندان کے دو گروپوں میں فائرنگ سے پانچ افراد ہلاک: ’فریقین ماضی میں ایک دوسرے کیخلاف مقدمے درج کرا چکے ہیں‘

پولیس کے مطابق فریقین ماضی میں مختلف الزامات کے تحت ایک دوسرے کے خلاف مقدمے درج کرا چکے ہیں۔
نواب اکبر بگٹی
Getty Images
نواب اکبر بگٹی کے آخری ایام کی تصاویر میں سے ایک تصویر میں فہد بگٹی (بائیں جانب) کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے

’سفید رنگ کی ہیلکس سڑک پر جیسے موڑ لے کر نکلتی ہے تو سامنے سے ایک اور سفید رنگ کی ہیلکس اس کے ساتھ ٹکراتی ہے۔ دونوں کے اندر مسلح افراد سوار ہیں جو فائرنگ شروع کر دیتے ہیں۔‘

یہ سی سی ٹی وی کیمرے میں قید مناظر وہ ہیں جو پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر کراچی کی پولیس کو خیابان نشاط کمرشل ایریا سے ملے ہیں۔

اس مسلح تصادم میں بگٹی خاندان سے تعلق رکھنے والے پانچ افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں نواب اکبر بگٹی کے بھتیجے فہد بگٹی بھی شامل ہیں۔

ایڈیشنل آئی جی سندھ جاوید عالم کا کہنا ہے کہ پولیس نے زخمی علی حیدر سمیت 13 افراد کو حراست میں لیا ہے جبکہ سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ مقتول فہد بگٹی سابق رکن قومی اسمبلی احمد نواز بگٹی کے بیٹے اور بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کے بھتیجے تھے۔

علی حیدر بگٹی سابق رکن قومی اسمبلی غلام حیدر بگٹی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ ان کے ایک بھائی ذوالفقار بگٹی ڈیرہ بگٹی کے ناظم رہے چکے ہیں جبکہ نواب اکبر بگٹی ان کے ماموں تھے۔

ڈی آئی جی ساؤتھ اسد رضا کے مطابق پونے گیارہ بجے یہ واقعہ خیابان نشاط میں پیش آیا، جہاں فہد بگٹی کی رہائش ہے۔

ان کے مطابق فریقین میں تکرار ہوئی، علی حیدر بگٹی نے فہد کی گاڑی کو سامنے سے ٹکر ماری اور اس کے بعد فائرنگ کا یہ واقعہ پیش آیا۔

اس تصادم میں فہد بگٹی اور ان کا ایک ساتھی جبکہ دوسری طرف سے علی حیدر بگٹی کے دو بیٹے میر محسم بگٹی، میر عیسیٰ بگٹی اور ایک گارڈہلاک ہو گئے۔

پولیس کے مطابق فریقین ماضی میں مختلف الزامات کے تحت ایک دوسرے کے خلاف مقدمے درج کرا چکے ہیں۔

’ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف مقدمات‘

کراچی پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ تصادم ذاتی دشمنی کا نتیجہ ہے اور دونوں گروپس آپس میں کزن ہیں جن کی تکرار کافی عرصہ سے چل رہی تھی۔

ایڈیشنل آئی جی جاوید عالم اوڈھو کا کہنا تھا کہ انھیں کچھ شہادتیں ملی ہیں جن کی تفصیلات مکمل تحقیقات کے بعد شیئر کریں گے۔

نواب اکبر بگٹی کے فرزند جمیل بگٹی کہتے ہیں کہ دونوں طرف سے بگٹی خاندان کا ہی نقصان ہوا ایک طرف ان کے چچا کے بیٹے تو دوسری طرف ان کی پھوپھی کے بیٹے تھے۔

لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’خاندانی دشمنی یا زمین سمیت کوئی آپس کا تنازعہ نہیں تھا۔ فریقین میں کسی بات پر چپقلش ہوئی جس کے بارے میں علم نہیں۔‘

ایڈیشنل آئی جی جاوید عالم اوڈھو سے جب جمیل بگٹی کے بیان کے تناظر میں سوال کیا گیا کہ بگٹی خاندان تو کہہ رہا ہے کہ کوئی دشمنی نہیں تھی تو پولیس کس بنیاد پر یہ دعویٰ کر رہی ہے، اس کے جواب میں جاوید عالم اوڈھو کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہنا چاہتے۔

دوسری جانب کلفٹن پولیس کے ایک ایس پی کے مطابق مقتول فہد بگٹی اور محسم بگٹی ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف دھمکیاں دینے کے الزامات کے تحت مقدمات درج کرا چکے ہیں جو کراچی کے درخشاں اور ساحل تھانے میں درج ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

فہد بگٹی نواب کے ساتھ پہاڑوں میں

نواب اکبر بگٹی کے آخری ایام کی تصاویر میں سے ایک تصویر میں فہد بگٹی کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس میں وہ نواب بگٹی کو چلنے میں سہارا دے رہے ہیں اور ان کے ایک کندھے پر گن موجود ہے۔

جمیل بگٹی بتاتے ہیں کہ جب دسمبر 2006 میں ڈیرہ بگٹی پر بمباری ہوئی تو نواب اکبر پہاڑوں پر چلے گئے اس وقت فہد اور ان کے والد احمد نواز، اکبر بگٹی کے ساتھ موجود تھے۔

ان دنوں میں نواب اکبر سے ملاقات کرنے والے سینیئر صحافی شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ جب نواب اکبر ڈیرہ بگٹی کے علاقے میں تھے تو ان کے ساتھ فہد موجود تھا بعد میں جب ان کی نواب بگٹی سے تراتانی میں ملاقات ہوئی تو فہد وہاں موجود نہیں تھے کیونکہ ان کو فیملی نے بلا لیا تھا۔

شہزادہ ذوالفقار کے مطابق فہد بگٹی کا کوئی سیاسی یا قبائلی کردار نہیں رہا اور جمیل بگٹی بھی اس موقف کی تائید کرتے ہیں۔

ایک اور صحافی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’فہد بگٹی کم گو شخصیت تھے۔ وہ ان کے ساتھ نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی کے پروگرام میں شریک رہے۔ یہ پروگرام بلوچستان کے صحافیوں، دانشوروں اور سیاست دانوں کے لیے ترتیب دیے گئے تھے لیکن اس پروگرام میں انھوں نے کوئی سوال تک نہیں کیا تھا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.