’دکھی عورت بہت سخت جان ہوتی ہے‘ دس بار ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی شرپا جن کی ذاتی زندگی کرب سے بھری تھی

لکھپا شرپا کی زندگی کی کہانی ایک چونکا دینے والی کہانی ہے۔ یوں تو دنیا میں ان کی شہرت ماؤنٹ ایورسٹ کو 10 بار سر کرنے کا ریکارڈ رکھنے والی خاتون کی ہے لیکن ان کی ذاتی زندگی خطرناک اور خوفناک رہی ہے۔
Getty Images
Getty Images

اس مضمون میں گھریلو تشدد کی تفصیلات شامل ہیں جو کچھ قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔

لکھپا شرپا کی زندگی کی کہانی ایک چونکا دینے والی کہانی ہے۔ یوں تو دنیا میں ان کی شہرت ماؤنٹ ایورسٹ کو 10 بار سر کرنے کا ریکارڈ رکھنے والی خاتون کی ہے لیکن ان کی ذاتی زندگی خطرناک اور خوفناک رہی ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ دنیا کی بلند ترین چوٹی کو سر کرنے کے دوران انھیں اپنے شوہر کی جانب سے گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑا جس میں 2004 میں ایورسٹ سے اترنے کے دوران بھی ہونے والا ایک ایسا ہی واقعہ شامل تھا۔

وہ اب امریکہ میں مقیم ہیں انھوں نے ایک گروسری سٹور میں صفائی کا کام کرکے تین بچوں کی پرورش کی ہے۔

ان کی زندگی کو نیٹ فلکس کی دستاویزی فلم ماؤنٹین کوئین: دی سمٹس آف لکھپا شرپا میں عکس بند کیا گیا ہے جس کی ہدایت کاری لوسی واکر نے کی ہے۔

شرپا کو اس فلم پر فخر ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں لوگوں کو دکھانا چاہتی ہوں کہ خواتین ایسا کر سکتی ہیں۔‘

ان کی ریکارڈ کوہ پیمائی کے بارے میں شاید حیران کن بات یہ ہے کہ انھوں نے بہت کم ٹریننگ کے ساتھ ایسا کیا۔

ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھنا جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ایک صدی قبل جب سے اس علاقے میں پہاڑوں پر چڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے تب سے اب تک 300 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایسے میں چوٹی پر جانا بہت اہمیت کا حامل ہے۔

فلم میں دکھایا گیا ہے کہ شرپا کنیکٹیکٹ کے پہاڑوں میں چہل قدمی کرتے ہوئے فٹ رہتی ہیں لیکن وہ ضرورت کی وجہ سے اپنے معمول کے کام بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

واکر نے ہمارے انٹرویو کے دوران شرپا کو بتایا کہ ’آپ ایک غیر معمولی ایتھلیٹ ہیں۔ بہت دراز قد اور بہت مضبوط۔‘

’لوگ اسے اتنی اہمیت نہیں دیتے لیکن یہ ایک ناقابل یقین کامیابی ہے کہ آپ اپنے روزمرہ کام کے ساتھ ایورسٹ کو سر کرسکتی ہیں۔

شرپا کا جواب تھا ’میں تعلیم میں تو اچھی نہیں رہی مگر پہاڑوں کے معاملے میں بہت بہتر ہوں۔‘

وہ سنہ 1973 میں نیپالی ہمالیہ میں یاک کے کسانوں کے ہاں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ 11 بہن بھائی میں سے ایک ہیں۔

ان کی پرورش ایک ایسے علاقے میں ہوئی جہاں لڑکیوں کی تعلیم کو اہہیت نہیں دی جاتی تھی۔ وہ اپنے بھائی کوپہاڑوں میں گھنٹوں پیدل چل کر سکول لے جاتی تھیں لیکن انھیں اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔

نیپال میں اب حالات بہتر ہو رہے ہیں خواتین کی خواندگی 1981 میں 10 فیصد سے بڑھ کر 2021 تک 70 فیصد ہوگئی ہے لیکن شرپا کی تعلیم کی کمی کے اثرات دیرپا تھے وہ اب بھی پڑھنے سے قاصر ہیں۔ لوگ جن چیزوں کو معمولی سمجھتے ہیں جیسے ٹی وی ریموٹ کنٹرول کا استعمال کرنا وغیرہ ان کے لیے یہ بھی مشکل ہے۔

ان کا بیٹا نیما، جو 90 کی دہائی کے آخر میں پیدا ہوا تھا، اور بیٹیاں سنی(22 ) اور شائنی (18) اس کمی کو پورا کرنے میں مدد کرتی ہیں۔

سکول کی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے جب وہ 15 سال کی تھیں تو پہاڑی مہمات پر ایک پورٹر کے طور پر کام کر رہی تھیں اور اکثر وہ اکیلی لڑکی ہوتیں۔ اپنے کوہ پیمائی کے کام کے ذریعے وہ روایتی شادی سے بچنے میں کامیاب رہیں لیکن زندگی اس وقت مشکل ہو گئی جب وہ کھٹمنڈو میں ایک مختصر رشتے کے بعد حاملہ ہو گئیں۔

ایک غیر شادی شدہ ماں کے طور پر انھیں گھر لوٹنے میں بہت شرمندگی محسوس ہوئی۔

اس کے باوجود جب ممکن ہوتا وہ کوہ پیمائی کرتیں۔ ان کی ملاقات رومانیہ سے تعلق رکھنے والے امریکی کوہ پیما اور گھر کی تزئین و آرائش کے ٹھیکیدار جارج دیجمرسکو سے ہوئی اور وہ انھیں پسند آ گئے۔

وہ دریائے ڈینیوب میں تیر کر رومانیہ سے فرار ہوئے تھے اور امریکہ میں ایک نئی زندگیشروع کر چکے تھے۔

سنہ 2002 میں انھوں نے کنیکٹیکٹ میں سکونت اختیار کی اورسنی اور شائنی کو جنم دیا۔

شرپا کا کہنا ہے کہ دیجمرسکو پرتشدد ہوتے گئے اور یوں ان کا رشتہ ٹوٹنے لگا۔

یہ بات 2004 میں اس وقت کھل کر سامنے آئی جب انھوں نے نیو انگلینڈ کے کوہ پیما گروپ کے ساتھ ایورسٹ سر کی۔

چوٹی پر پہنچنے کے بعد انھیں خراب موسم کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک مقامی اخبار کے لیے رپورٹنگ کرنے والے صحافی مائیکل کوداس کے مطابق دیجمرسکو کا رویہ ’فوری طور پربدل گیا ‘۔

دستاویزی فلم میں اسے یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ دیجمرسکو کا رویہ ’پر تشدد‘ ہو گیا۔

شرپا جو ان کے ساتھ ایک خیمے میں تھیں، کہتی ہیں ’جارج چیخ رہا تھا اور اس نے مجھے گھونسا مارا۔‘

اس کے بعد ہم کوداس کی جانب سے لی گئی تصویریں دیکھتے ہیں جن میں وہ بے ہوش پڑی ہوئی ہیں۔ صحافی کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی بیوی کو خیمے سے گھسیٹتے وقت دیجمرسکو کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ’یہ کچرا یہاں سے نکالو۔‘

ہسپتال کا ٹرننگ پوائنٹ

فلم میں شرپا نے بے ہوش ہونے کے تجربے کو جسم سے جان نکلنے جیسا قرار دیا۔

’لوگوں کی آوازیں بہت سے پرندوں کی آوازوں میں بدل گئیں۔ میری پوری زندگی میری نظروں کے آگے گھوم گئی۔ میں اپنی ماں کے گھر کے قریب اڑ رہی تھی۔ میں نے سب کچھ دیکھا۔۔۔ مجھے خود پر شرمندگی محسوس ہوئی۔ میں مرجانا چاہتی تھی۔‘

پھر انھوں نے اپنے بچوں کو یاد کیا اور کہا ’میں مرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔‘

کوداس نے اس پرتشدد واقعے کو اپنی 2008 کی کتاب ’ہائی کرائمز: دی فیٹ آف ایورسٹ ان دی ایج آفگریڈ‘میں شامل کیا تھا۔

واکر نے بعد میں انھیں اپنی فلم کے لیے فوٹیج دینے پر راضی کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ بہت مشکل موضوع ہے اور لوگ اس کا حصہ نہیں بننا چاہتے کیونکہ یہ متنازعہے۔‘

شوہر کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے باوجود وہ مزید کئی سالوں تک ایک ساتھ رہے۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ 2012 میں جب دیجمرسکو نے ان پر دوبارہ حملہ کیا تو انھیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔

یہ ایک اہم موڑ تھا۔ایک سماجی کارکن کی مدد سے شرپا دونوں لڑکیوں کے ساتھ خواتین کی پناہ گاہ میں چلی گئیں، جہاں انھوں نے اپنی زندگی کی تعمیر نو شروع کی۔

اس جوڑے نے 2015 میں طلاق لے لی تھی اور 2016 میں ایک عدالت نے شرپا کو ’بچیوں کی واحد قانونی‘ کفیل قرار دیا تھا۔

اس وقت آؤٹ ڈور آن لائن میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دیجمرسکو کو امن کی خلاف ورزی کے جرم میں چھ ماہ کی سزا اور ایک سال پروبیشن کا سامنا کرنا پڑا۔

Mountains
Getty Images

انھیں سیکنڈ ڈگری حملے کا مجرم نہیں پایا گیا کیونکہ عدالتی دستاویزات میں کہا گیا تھا کہ شرپا کے سر پر کوئی چوٹ نہیں تھی۔

دیجمرسکو 2020 میں کینسر کے باعث وفات پا گئے لیکن اپنے پیچھے وہ ایک صدمہ چھوڑ گئے تھے۔

شرپا کو دستاویزی فلم کے لیے ان کے تعلقات پر بات کرنا واقعی مشکل لگا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میری خواہش ہے کہ تمام جھگڑا پوشیدہ رہے، میں نہیں چاہتی کہ میری زندگی میں یہ سب کو معلوم ہو‘۔

لیکن ان کے بیٹے نے انھیں واکر کے ساتھ فلم بنانے کا مشورہ دیا۔

ہدایت کار نے شرپا سے کہا ’جب آپ اپنی کہانی سنائیں تو آپ کچھ حصے چھوڑ دیں۔ ہم ان سالوں کے بارے میں بات نہیں کریں گے۔‘

’اور آہستہ آہستہ ہم مشکل چیزوں پر آگئے۔ یہ بہت تکلیف دہ ہے۔ یہ پریشان کن ہے، آپ کو سوچ سوچ کر نیند نہیں آتی‘۔

’لیکن اگر آپ اسے دوسروں سے شیئر کرتے ہیں تو لوگ آپ سے زیادہ محبت کرتے ہیں کیونکہ جب آپ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ آپ کس مشکل سے گزرے ہیں تو میرے خیال میں وہآپ کو سمجھ سکتے ہیں۔ ‘

’دکھی عورت بہت سخت جان ہوتی ہے‘

سنی اور شائنی نے اس کی تائید کی۔

وہ فلم میں بھی نظر آتی ہیں اور ’شروع میں فلم دیکھنے میں تھوڑی مشکل ہوئی کیونکہ ہم نے اپنی پوری زندگی کھول کر دوسروں کے سامنے نمائش کے لیے رکھ دی تھی۔‘

انھوں نے اس میں شامل ہونے پر رضامندی ظاہر کی کیونکہ ’ایک خاندان کے طور پر ہم جسمشکل وقت سے گزرے ہیں اور اس نے کس طرح ہمیں مضبوط بنایا ہے، یہ ہماری ماں کی کہانی کا ایک اہم حصہ ہے۔‘

شرپا کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ شادی کے بعد زندگی مشکل تھی۔

’اوہ میرے خدا، ہاں میں رو رہی ہوں۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت کچھسہا ہے۔ میں نے سخت محنتکی اور بہت ہمت دکھائی۔ ‘

وہ کہتی ہیں ’کبھی کبھی میں سوچتی تھی میں کیوں زندہ ہوں، میں مرکیوں نہیں گئی، اتنے سارے خطرات تھے، میں لگ بھگ جنت میں پہنچ کر واپس آئی ہوں۔ بہت مشکل تھا لیکن کسی طرح میں نے یہ کیا۔۔۔‘

’دکھی عورت بہت سخت جان ہوتی ہے، آسانی سے ہار نہیں مانتی اور میں نے اپنا سفر جاری رکھا۔‘

کوہ پیمائی نہ صرف ان کا شوق ہے بلکہ یہ ان کی روح کے زخموں کے لیے مرہم کا کام بھی کرتا ہے۔

وہ کہتی ہیں ’اپنی زندگی کی تاریکی کو میں پیچھے چھوڑ آئی ہوں۔‘

ہم نے انھیں 2022 میں ایورسٹ کی چوٹی کو 10 بار سر کرنے کا ریکارڈ قائم کرتے دیکھا۔

بیس کیمپ میں قریبی خیمے میں سوتے ہوئے شائنی کے کان میں سرگوشی میں الوداع کہہ کر ٹارچ کی روشائنی سے رات کو کوہ پیمائی کاآغاز ہوتا ہے۔

رات کو نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ چوٹی سے واپسی کا سفر دن کی روشنی میں ممکن ہو گا۔۔

ان کی بیٹیوں کو اپنی ماں پر فخر ہے۔

شرپا کہتی ہیں کہ وہ امریکہ میں اپنے بچوں کے لیے ’بہتر زندگی‘ بنا رہی ہیں جس میں انھیں تعلیم دینا بھی شامل ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں اپنی بیٹیوں کی زندگی بدلنا چاہتی ہوں اور اس کے لیے میں سخت محنت کرتی ہوں۔‘

وہ اپنی گائیڈنگ کمپنی سے روزی کمانا چاہتی ہیں اور مزید سپانسر شپکی تلاشمیں ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’میں پہاڑوں کو جانتی ہوں۔ کاش میں اپنی مہارت اور تجربہ دوسرے لوگوں کے ساتھ بانٹ سکتی۔‘

سنی اور شائنی کا کہنا تھا کہ ’کئی خواتین نے اونچی چوٹیوں پر کوہ پیمائی کرنا اور ہماری ماں کے نقش قدم پر چلنا شروع کر دیا ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.