’شینگن ویزا‘ کا حصول کس طرح ’بلیک مارکیٹ‘ میں پیسہ کمانے کا ذریعہ بن رہا ہے

بلیک مارکیٹ ایک ایسے تیز رفتار سافٹ وئیر کام کا کر رہی ہے کہ جو شینگن ایریا کے 29 ممالک کے ویزا کے حصول اور اس کوشش میں لگے لوگوں کی اپائنٹمنٹ حاصل کرنے میں مدد اور انھیں اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔
ویزا
Getty Images

یزان گذشتہ سال اٹلی جانے کے لیے بے چین تھے تاکہ وہ وہاں مقیم اپنے خاندان کی ایک تقریب میں شریک ہوں سکیں لیکن لندن میں زیرِ تعلیم اس 20 سالہ شامی نوجوان کو یورپی ملک کا سفر کرنے کے لیے ویزا حاصل کرنےکی اپائنٹمنٹ ہی نہیں مل سکی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے دو ماہ تک کوشش کی اور آدھی آدھی رات کو اُٹھ کر بھی آن لائن بکنگ سسٹم کی مدد سے انٹرویو کی تاریخ یا ’اپائنٹمنٹ‘ لینے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔‘

’میں نے صبح چار اور پانچ بجے بھی کوشش کی لیکن مجھے اپائنٹمنٹ نہیں ملی۔‘

آخر کار یزان کو ہار ماننا پڑی اور وہ صرف ویڈیو کال کے ذریعے ہی اپنے خاندان کی تقریب میں شرکت کر سکے۔

ویزا اپائنٹمنٹ کے حصول کی کوشش کرنے والے یزان اکیلے نہیں۔ بی بی سی نے دنیا بھر سے ایسے لوگوں سے بات کی ہے جو اپائنٹمنٹ کی کمی کی وجہ سے یورپ کے شینگن ممالک کا سفر کرنے سے قاصر ہیں۔

مدد فراہم کرنے والے فورمز

کچھ لوگ اپائنٹمنٹ حاصل کرنے کے بارے میں مشورے کے لیے فیس بک، ٹیلی گرام گروپس اور آن لائن فورمز کا رخ کر رہے ہیں اور انھیں ان فورمز پر کُچھ رقم کی ادائیگی یا فیس کے عوض ’مدد‘ کی پیشکش کی جا رہی ہیں۔

اس ساری صورتحال میں بلیک مارکیٹ ایک ایسے تیز رفتار سافٹ وئیر کی طرح کام کر رہی ہے جو شینگن ایریا کے 29 ممالک کے ویزا کے حصول اور اس کوشش میں لگے لوگوں کی اپائنٹمنٹ حاصل کرنے میں مدد اور انھیں اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔

’شینگن ویزا‘ غیر یورپی شہریوں کے لیے یورپ کے 29 ممالک میں سے کسی بھی ایک یا ایک سے زیادہ ممالک میں داخلے کے لیے ایک ٹکٹ یا پرمنٹ کی مانند ہے، جس کی مدد سے وہ ان ممالک میں 90 سے 180 دن تک قیام کر سکتے ہیں۔

ویزا
Getty Images

کورونا کی پابندیوں کے بعد سفر میں ریکارڈ اضافہ

کورونا وبا اور اس کی وجہ سے لگنے والی پابندیوں کے بعد سے بین الاقوامی سفر کرنے والوں کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

یورپی یونین نے 2023 میں ایک کروڑ شینگن ویزے جاری کیے جو سنہ 2022 میں تقریباً 70 لاکھ سے زیادہ تھے۔

اقوام متحدہ کی سیاحت کے مطابق 2024 کے پہلے تین ماہ میں ایک اندازے کے مطابق 28 کروڑ سے زیادہ سیاحوں نے بین الاقوامی سفر کیا جو 2023 کے اسی عرصے کے مقابلے میں تقریباً 20 فیصد زیادہ ہے۔

شینگن ویزا درخواستوں کو آؤٹ سورس کیا جاتا ہے، ایجنسیاں یورپی مُمالک کی ایما پر ان درخواستوں کو دیکھتی ہیں،درخواست دہندگان کی دستاویزات جمع کرنے، ان کے بائیومیٹرک ڈیٹا کو رجسٹر کرنے سے لے کر اپائنٹمنٹ تک کا بندوبست بھی یہی ایجنسیاں کرتی ہیں۔

جب ہم نے ایسی دو ایجنسیوں، ٹی ایل ایس کانٹیکٹ اور وی ایف ایس گلوبل سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ ان کی ویب سائٹس پر اپائنٹمنٹ کی تفصیلات جاری کر دی جاتی ہیں تاہم ان کا تعین اور کنٹرول ان ممالک کے سفارت خانوں کے ذریعہ کیا جاتا ہے جن کی وہ نمائندگی کر رہے ہیں۔

یورپی کمیشن کے ترجمان کرسچن وگنڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ کووڈ کی سفری پابندیوں نے کچھ رکن ممالک کو عملے کی تعداد کم کرنے اور بیرونی کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں کو منسوخ کرنے پر مجبور کیا۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ یورپی کمیشن ویزا اپائنٹمنٹ کے لیے انتظار کے دورانیے کو کم کرنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اس مقصد کے لیے ویزا فیس میں 10 یورو کا اضافہ کیا گیا تاکہ ویزے کی درخواست پر تیزی سے کام کرنے کے لیے مزید سٹاف کو رکھا جا سکے۔

ویزا
Getty Images

’ویزا شاپنگ‘

شینگن ویزا کے حصول کے لیے مسافروں کو اس ملک کے لیے اپنی ویزا کی درخواست دینا ہوتی ہے جہاں سے وہ یورپ (شینگن ایریا) میں داخل ہوں گے یا اگر وہ متعدد ممالک کا دورہ کر رہے ہیں تو اُس مُلک کے لیے درخواست دینا ہو گی، جہاں اُن کا قیام سب سے زیادہ وقت کے لیے ہو گا۔

کچھ ممالک کے سفارت خانوں میں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ رش کی وجہ سے بہت سے مسافر ویزا حاصل کرنے کے لیے مہنگے طریقے استعمال کر رہے ہیں: ان میں سے ایک طریقے کو کچھ لوگ ’ویزا شاپنگ‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔

ٹریول ایجنٹس فیڈریشن آف انڈیا کے نائب صدر انل کلسی کا کہنا ہے کہ ’یہ لوگ کسی بھی ایسے ملک کا انتخاب کرنے پر مجبور ہیں جہاں بروقت ویزا اپائنٹمنٹ کی پیشکش کی جاتی ہے۔‘

اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’کچھ مسافر یورپی یونین کے قوانین کی تعمیل کرنے کے لیے کسی اضافی ملک کا دورہ کرنے پر مجبور ہیں اور وہ اس پر زیادہ رقم خرچ کر رہے ہیں۔‘

اگرچہ یہ طریقہ اکثر اپائنٹمنٹس کی کمی کی وجہ سے چنا جاتا ہے لیکن یورپی یونین کمیشن کے کرسچن وگنڈ کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک ایسا عنصر ہے جس کی وجہ سے انتظار کے دورانیے میں اضافہ ہوا۔‘

گذشتہ سال جب لندن میں فرانسیسی سفارتخانے سے اپائنٹمنٹس کی کمی کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ گنجائش میں اضافے سے ’ویزا شاپنگ‘ کی حوصلہ افزائی ہو گی۔

لیکن بہت سے لوگوں کے لیے یہ ’ویزا شاپنگ‘ بہت مہنگی اور وقت طلب ہے اور اسی وجہ سے بلیک مارکیٹ کے تاجر مسافروں کو اپنے پسند کے ملک کے لیے فوری اپائنٹمنٹ کے وعدوں کے ساتھ اپنی جانب راغب کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

بلیک مارکیٹ میں بکنے والی ویزا اپائنٹمنٹ

نروانا مصری ہیں لیکن لندن میں رہتی ہیں، انھوں نے اٹلی میں اپنی ایک دوست کی شادی میں شرکت کے لیے ویزا اپائنٹمنٹ حاصل کرنے کے لیے بلیک مارکیٹ میں 100 پاؤنڈ (تقریباً 130 امریکی ڈالر) ادا کیے تھے۔

37 سالہ نروانا کے مطابق دلہن کے بہت سے رشتہ دار اور دوست بروقت ویزا اپائنٹمنٹ نہ ملنے کی وجہ سے اُن کی خوشی میں شامل ہونے سے محروم ہو گئے۔

انھوں نے ایک دوست کی طرف سے تجویز کردہ پلیٹ فارم کا استعمال کیا جو فیس کے عوض صارفین کے لیے اپائنٹمنٹ بک کرنے کے لیے ’بوٹس‘ کا استعمال کرتا ہے۔

ویزا
BBC

بوٹ دراصل ایک خودکار کمپیوٹر پروگرام ہے جو انسانوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے کام کرتا ہے۔ بلیک مارکیٹ میں کام کرنے والے ایجنٹس ان بوٹس کا استعمال کرتے ہوئے بڑی تعداد میں اپائنٹمنٹ بک کر لیتے ہیں۔

نیدرلینڈز میں ایک کانسرٹ میں شرکت کے لیے سیرین نے لندن میں اپائنٹمنٹ لینے کے لیے تین ماہ تک انتظار کیا جس کے بعد انھوں نے ایک ایسا ہی بوٹ ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے 30 پاؤنڈ ادا کیے، اس بوٹ کا دعویٰ تھا کہ وی ایف ایسگلوبل ویب سائٹ پر اپائنٹمنٹ کا وقت دستیاب ہوتے ہی انھیں نوٹیفیکیشن بھیجا جائے گا۔

لبنان سے تعلق رکھنے والی 26 سالہ سیرین نے سوچا کہ بلیک مارکیٹ کے کسی ایجنٹ کو اپنی ذاتی معلومات دینے کی بجائے یہ آپشن زیادہ محفوظ ہے لیکن بوٹ بھی سیرین کی مدد نہ کر سکا اور جب بھی وہ نوٹیفیکیشن آنے کے بعد اپائنٹمنٹ لینے کی کوشش کرتیں تو وہ غائب ہو جاتی۔

’یہ ایک مشکل عمل تھا اور آخر میں، میں نے اسے چھوڑ دیا۔‘

سیرین ایک برس پہلے ٹکٹ خریدنے کے باوجود کانسرٹ میں شرکت نہیں کر سکیں گی۔

ایسی ہی سروسز فراہم کرنے والا ایک ٹیلی گرام چینل بھی صارفین سے وعدہ کرتا ہے کہ انھیں ایک سے تین دن کے اندر اپائنٹمنٹ مل جائے گی۔

سفارتحانے اور ویزا ایجنسیاں ’اپائنٹمنٹ فراڈ‘ سے مقابلے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہی ہیں۔

ٹی ایل ایس کانیٹکٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ بلیک مارکیٹ میں چیزیں مشکل بنانے کے لیے ون ٹائم پاس ورڈ کا استعمال کر رہے ہیں۔

کچھ ایسے ہی اقدامات وی ایف ایس گلوبل کی جانب سے بھی اٹھائے گئے ہیں، جنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ بوٹس کے ذریعے ہونے والی بکنگ کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔

ویزا
Getty Images

’نجی ونڈو‘ کے ذریعے اپائنٹمنٹ

ایک ٹریول کمپنی چلانے والے احمد (فرضی نام) نے ہمیں بتایا کہ وہ بلیک مارکیٹ میں کام نہیں کرتے لیکن وہ جانتے ہیں کہ یہ کیسے کام کرتی ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ بلیک مارکیٹ میں کام کرنے والے اور ٹریول کمپنیوں کے مالک ویزا سروسز فراہم کرنے والی ایجنیسوں کے ملازمین کے ساتھ تعلقات بنا لیتے ہیں۔ احمد نے بتایا کہ یہ ملازمین اپائنٹمنٹ دستیاب ہونے کی تاریخ اور وقت بتا دیتے ہیں۔

احمد کہتے ہیں کہ ’یہ سب فریقین کے درمیان ہونے والے معاہدے پر منحصر ہے اور بعض صورتوں میں ٹریول کمپنیاں یا بلیک مارکیٹ کے ایجنٹ ایک ’نجی ونڈو‘ کے ذریعے اپائنٹمنٹ کی متوقع ریلیز سے کچھ دیر پہلے ہی ان تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔‘

متلف ذرائع سے ایسے دعوے سننے کے بعد بی بی سی نے مختلف ویزا ایجنیسوں سے رابطہ کیا جو کسی بھی ملک کی نمائندگی کرتی ہیں۔

ٹی ایس ایل کانٹیکٹ نے کہا کہ یہ دعوے غلط ہیں اور ’ممکنہ طور پر ان دعووں کا تعلق بلیک مارکیٹ سے ہے جو اپنی ساکھ قائم کرنا چاہتے ہیں۔‘

ٹی ایس ایل کانٹیکٹ نے یہ بھی کہا کہ ’ہمارے ادارے میں انتہائی محدود سینیئر ملازمین کو ہی اپائنٹمنٹ ٹیبل تک رسائی ہوتی ہے اور ان کی سرگرمیوں پر آئی ٹی کے ذریعے اور ان حکومتوں کی جانب سے نظر رکھی جاتی ہے، جن کے لیے ہم ویزا کی سروسز فراہم کرتے ہیں۔‘

مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں وی ایف ایس گلوبل کے سربراہ اری پرساد وشواناتھن نے بی بی سی کو بتایا کہ کمپنی کے پاس ’ایسی کسی خلاف ورزی کے بارے میں معلومات تو نہیں تاہم وہ اس معاملے کی تحقیقات کریں گے۔‘

’وی ایف ایس کے مطابق اپائنٹمنٹ کے لیے کوئی ’نجی بکنگ ونڈو‘ نہیں اور اپائنٹمنٹ عوامی طور پر سب کے لیے بیک وقت دستیاب ہوتی ہیں۔‘

دوسری جانب یورپی کمیشن کے ترجمان کرسچن وگنڈ کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے رکن ممالک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ویزا سروسز فراہم کرنے والے کمپنیاں اپنے معاہدے پر عملدرآمد کریں اور یورپی یونین کے قوانین پر عمل کریں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.