لبنان پر اسرائیلی فوج کا زمینی حملہ کہاں اور کیسے ہو سکتا ہے؟

لبنان میں ماضی کی جنگوں میں اسرائیل نے اپنی زمینی کارروائیوں میں مختلف طریقوں پر عمل کیا ہے۔ اگر اب اسرائیل لبنان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو اس حملے کا ممکنہ منظرنامہ کیا ہو سکتا ہے اور کیا اسرائیل لبنانی علاقوں میں طویل عرصے تک رہنا اور انھیں کنٹرول کرنا چاہتا ہے؟
لبنان
Getty Images

اسرائیلی فوج کے سربراہ کا کہنا ہے کہ لبنان پر اسرائیل کے تازہ حملے اسرائیلی فوجیوں کے وہاں ممکنہ داخلے (یعنی زمینی آپریشن) کی تیاری کے سلسلے میں کیے گئے ہیں۔

اسرائیل کے آرمی چیف ہرزی حلوی نے فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے جنگی طیاروں کی آوازیں سُنی ہیں؟ ہم پورا دن حملے کرتے رہے ہیں۔ یہ آپ کے ممکنہ داخلے کے لیے زمین تیار کرنے اور حزب اللہ کو کمزور کرنے کے لیے ہیں۔‘

اسرائیل اور لبنان کے درمیان تنازع میں حالیہ تیزی بہت سے لوگوں کو سنہ 2006 کی جنگ کی یاد دلاتی ہے، جس میں شدید فضائی بمباری کے بعد لبنانی سرزمین کے اندر اسرائیلی فوج نے زمینی کارروائیاں کی تھیں۔

حماس کے اسرائیل پر سات اکتوبر 2023 کے حملوں کے بعد عسکریت پسند گروپ حزب اللہ نے جنوبی لبنان سے اسرائیل پر اپنے حملے تیز کر دیے اور اس کے بعد مسلسل ایک سال سے کشیدگی جاری ہے۔

لہٰذا اگر اسرائیل لبنان پر زمینی حملہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو یہ حملہ کیسا ہو سکتا ہے اور کیا اسرائیل لبنانی علاقوں میں رہنا اور اسے کنٹرول کرنا چاہتا ہے؟

اسرائیل لبنان پر زمینی حملے کے لیے تیار

اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے ایک سے زیادہ مرتبہ اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ حزب اللہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی لڑائی کی وجہ سے شمالی اسرائیل میں اپنے گھروں سے بےدخل ہونے والے تقریباً 60 ہزار اسرائیلیوں کی بحفاظت واپسی کا انتظام کریں گے۔

25 ستمبر کو یہ واضح ہو گیا کہ اسرائیل کسی نہ کسی شکل میں لبنان میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ حزب اللہ سے اپنے باشندوں کو لاحق خطرے کو کم سے کم تر کر سکے۔

اسرائیلی فوج کے سربراہ ہرزی حلیوی نے اسرائیلی فوجیوں سے کہا کہ ’ہم جاری رکھیں گے، ہم رُکے نہیں ہیں۔ ہم ہر جگہ ان کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ مقصد بہت واضح ہے- شمالی اسرائیل کے رہائشیوں کی بحفاظت واپسی۔‘

اسرائیل، حزب اللہ کشیدگی: تازہ ترین صورتحال بی بی سی اُردو کے لائیو پیج پر

انھوں نے کہا کہ فوج ’ایک حکمتِ عملی تیار کر رہی ہے، جس کا مطلب ہے کہ آپ دشمن کے علاقے میں داخل ہوں گے، اُن دیہات میں داخل ہوں گے جنھیں حزب اللہ نے بڑی فوجی چوکیوں کے طور پر تیار کیا ہے۔‘

اس سے پہلے 23 ستمبر کو حالیہ کشیدگی ایک نازک مرحلے میں داخل ہو گئی تھی، جس میں اسرائیل کے بقول لبنان میں حزب اللہ کے اہداف پر فضائی حملوں کی شدید لہر کے بعد 550 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

لبنان کی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں درجنوں شہری، خواتین، بچے اور طبی عملے کے ارکان بھی شامل ہیں۔

اگرچہ فضائی حملے جاری ہیں لیکن بہت سے تجزیہ کار یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ اسرائیل جلد ہی زمینی افواج بھی لبنان میں بھیجے گا۔

لبنان پر اسرائیل کا حملہ کیسا ہو سکتا ہے؟

لبنان
AFP
2006 میں اسرائیل کی لبنان میں زمینی دراندازی 1982 کے مقابلے میں محدود اور نسبتاً سست تھی اور لبنان کے اندر چند کلومیٹر سے زیادہ کے قصبوں اور ان کے اطراف تک محدود تھی

لبنان میں ماضی کی جنگوں میں اسرائیل نے اپنی زمینی کارروائیوں میں مختلف طریقوں پر عمل کیا ہے۔

ممکنہ منظرناموں کو سمجھنے کے لیے سنہ 1982 اور سنہ 2006 میں لبنان پر اسرائیل کے پچھلے حملوں پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔

1982 کی جنگ: ایک بڑے پیمانے پر زمینی حملہ

اسرائیلی سفارتی مشن کی ویب سائٹ کے مطابق سنہ 1982 میں اسرائیلی افواج سرحد پار سے فلسطینیوں کی چھاپہ مار کارروائیوں کو روکنے، لبنان میں شام کی موجودگی اور اس کا اثرورسوخ ختم کرنے اور وہاں ’اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرنے کے قابل ایک زیادہ دوستانہ حکومت کی تشکیل میں مدد کرنے کے لیے‘ لبنان میں داخل ہوئیں۔

اُس وقت یاسر عرفات اور اُن کی تحریکِ آزادی نہ تو اسرائیل کو تسلیم کرتے تھے اور نہ ہی اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کا حامی تھا۔

حملہ بہت بڑا تھا، جس میں ہزاروں فوجی اور سینکڑوں ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں شامل تھیں۔ اس فوج کو فضائی، بحری اور توپ خانے کی مدد حاصل تھی۔ اسرائیلی متعدد مقامات سے لبنان میں داخل ہوئے اور ایک ہفتے کے اندر اندر لبنانی دارالحکومت بیروت کے مضافات میں پہنچ کر شہر کا محاصرہ کر لیا۔

دنیا نے 1982 کی دراندازی کو کیسے دیکھا؟

لبنان
Getty Images
جون 1982 میں لبنان پر اسرائیل کے زمینی حملے کے دوران وادی بقاع میں اسرائیلی فوج

اس دخل اندازی کے نتیجے میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے رہنما یاسر عرفات اور اسرائیل کے خلاف اُن کی حمایت کرنے والے تقریباً دو ہزار شامی فوجیوں کو لبنان چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔

بی بی سی کے ایک نامہ نگار نے اُس وقت لکھا تھا کہ ’اس بات کا امکان نہیں ہے کہ یاسر عرفات کو، جو اب بحری جہاز کے ذریعے یونان جا رہے ہیں، لبنان میں اُن کے قیام کے تباہ کن اثرات کے بعد ایک اور عرب حکومت پناہ دینے کے لیے تیار ہو جائے گی۔‘

ستمبر 1982 میں جب بیروت میں سینکڑوں فلسطینیوں کو عیسائی ملیشیا نے قتل کیا تو دنیا بھر میں اسرائیل کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی، کیونکہ وہاں موجود اس کے فوجیوں نے اس عمل کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔

یہ واقعے صابرہ اور شتیلا قتل عام کے نام سے جانے جاتے ہیں، اس وقت یہ کہا گیا یہ چار دن پہلے ہلاک کیے جانے والے منتخب صدر بشیر جمائیل کے قتل کا بدلہ لیا گیا تھا۔

2006 کی جنگ: لبنان میں اسرائیل کی محدود زمینی مداخلت

سنہ 2006 میں اسرائیل کی لبنان میں زمینی دراندازی سنہ 1982 کے مقابلے میں محدود اور نسبتاً سست تھی، اور لبنان کے اندر چند کلومیٹر تک محدود تھی۔

اسرائیلی سیاسی تجزیہ کار یوو سٹرن نے 23 ستمبر کو بی بی سی کو بتایا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ مستقبل میں کوئی بھی زمینی دراندازی 1982 کی طرح ہو گی، بلکہ یہ ایک سست، محتاط اور حساب کتاب سے کی جانے والی کوشش ہو گی۔

اُن کا خیال ہے کہ اسرائیل تیزی سے اور بھرپور حملے شروع کرنے کی بجائے ایک ایک کر کے جنوبی لبنان کے قصبوں پر قبضہ کر سکتا ہے۔ یہ سنہ 2006 میں ہونے والے واقعات سے ملتا جلتا ہو گا لیکن اس مرتبہ اسرائیل لبنانی علاقے میں زیادہ اندر، دریائے لطانی تک پہنچنا چاہے گا۔ یہ دریا طویل عرصے سے لبنان کے اہم علاقوں پر کنٹرول کے خواہاں فریقین کے لیے ایک اہم منزل رہا ہے۔

سٹرن نے اپنی پیشین گوئی کی بنیاد جنوبی لبنان کے قصبوں میں حزب اللہ کی طویل مدتی موجودگی کی بنیاد پرکی ہے، جو اسرائیل کو ان قصبوں پر قبضہ کرنے اور انھیں جلد چھوڑنے سے روکے گا۔

عسکری تجزیہ کار اور سابق جنرل ہشام جابر کا کہنا ہے کہ جنوبی لبنان میں اسرائیل کے کسی بھی حملے کے بعد اسرائیلی فوج وہاں طویل مدت تک نہیں رک سکے گی۔

’اسرائیل کو 2006 میں ایک حملے میں زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کے نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ اب کوئی بھی ممکنہ حملہ بہت مختلف شکل اختیار کرے گا۔‘

جابر کو توقع ہے کہ لبنان میں اسرائیلی زمینی کارروائیاں سرحد پار چھاپوں تک محدود ہوں گی جس کا دائرہ بہت کم ہے۔ اس میں محدود علاقے شامل ہیں اور ہر ایک چھاپہ ایک دن سے زیادہ طویل نہیں ہو گا۔

اُن کا کہنا ہے یہ بھی ممکن ہے کہ اسرائیل زمینی حملے کی آپشن سے دستبردار ہو جائے اور اس کے بجائے فضائی حملوں میں تیزی لائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ہدف بنا کر قتل کیا جائے اور سائبر سکیورٹی آپریشنز ہوں۔

زمینی کارروائی کہاں ہو سکتی ہے؟

جابر کو توقع ہے کہ اسرائیلی زمینی کارروائیاں ’لبنانی سرحدی قصبوں میں انتہائی محدود علاقوں‘ تک محدود رہیں گی لیکن انھوں نے اس امکان کو مسترد نہیں کیا کہ اسرائیل دوسرے لبنانی علاقوں میں ’کمانڈو آپریشنز‘ کر سکتا ہے۔

دوسری طرف، سٹرن سمجھتے ہیں کہ ممکنہ زمینی کارروائی کے دائرہ کار میں جنوبی لبنان کے جس علاقے کو شامل کیا جائے گا وہ ’لبنان-اسرائیل سرحد اور دریائے لطانی کے درمیان کا علاقہ ہے۔‘

انھوں نے اس بات کو مسترد نہیں کیا کہ حکمت عملی کے تحفظات اسرائیل کو لطانی کے شمال میں کچھ علاقوں میں دراندازی کرنے اور پھر وہاں سے پیچھے ہٹنے یا دشمن کے عقب میں اُترنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ اسرائیل مستقبل میں مذاکراتی فائدہ حاصل کرنے کے مقصد سے لبنان کے بہت اندر تک آ سکتا ہے۔

سنہ 1982 کی جنگ میں دراندازی تین اہم محوروں تک مرکوز تھی، جن میں سے دو مشرقی لبنان اور وسطی پہاڑی علاقوں میں وادی بقاع کی طرف جلیلی فنگر کے نام سے جانے والے علاقے سے شروع ہوئے، اور تیسرا محور جنوب سے بیروت جانے والی ساحلی سڑک پر تھا۔

اس حملے میں پیادہ فوجیوں اور بکتر بند گاڑیوں کو جنوبی شہر سیدون کے شمال میں سمندر کے راستے بھی پہنچایا گیا تھا۔

زمینی حملے کے مقاصد کیا ہو سکتے ہیں؟

سنہ 1982 میں اسرائیلی حملہ صرف جنوبی لبنان تک محدود نہیں تھا بلکہ اس میں وادی بقاع، چوف اور بیروت کے بڑے علاقے شامل تھے۔

سنہ 1982 کی جنگ اور اس کی زمینی کارروائیوں کا اعلان کردہ ہدف شمالی اسرائیل کے قصبوں کو جنوبی لبنان میں فلسطینی جنگجوؤں کے راکٹوں اور توپ خانے کی مؤثر حد سے ہٹا کر لبنان اور اسرائیل کی سرحد سے 40 کلومیٹر پیچھے دھکیلنا تھا۔

اسرائیل نے اضافی مقاصد میں پی ایل او کے بنیادی ڈھانچے بشمول بیروت میں اس کے ہیڈکوارٹر کی تباہی اور شامی افواج کو لبنان سے باہر دھکیلنا بھی شامل کیا۔

ہشام جابر کا خیال ہے کہ محدود رینج کی زمینی کارروائیاں یا محدود دراندازی کا اثر طویل المدتی نہیں ہو گا۔

دوسری طرف سٹرن کا خیال ہے کہ جنوبی لبنان میں کسی بھی ممکنہ دراندازی کے ذریعے اسرائیل کا بنیادی ہدف دو اہم وجوہات کی بنا پر حزب اللہ کے جنگجوؤں کو دریائے لطانی کے شمال میں پیچھے دھکیلنا ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ ’اسرائیلی قصبوں پرکم فاصلے تک مار کرنے والے راکٹوں کے حملے روکے جا سکیں اور شمالی اسرائیل میں سات اکتوبر کے حملے کی طرح کے حملے کے امکان کو ختم کیا جا سکے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.