امریکہ، چین اور روس جیسی عالمی طاقتیں جنگ کے دہانے پر کھڑے مشرقِ وسطیٰ میں لڑائی رکوانے میں ناکام کیوں؟

دنیا کی بڑی طاقتیں آخر مشرق وسطیٰ میں جاری جنگ میں شامل فریقوں کو جنگ بندی پر رضامند کیوں نہیں پا رہیں اور امریکہ کے علاوہ روس اور چین جیسی عالمی طاقتیں اس معاملے پر کوئی مؤثر کردار کیوں ادا نہیں کر پا رہیں؟
چین اور امریکہ
Getty Images

ایران کے اسرائیل پر منگل کی شب کیے گئے میزائل حملوں نے دنیا بھر کی نظریں ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ پر مرکوز کر دی ہیں جہاں ایک خونیں تنازع اب ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔

سٹاک مارکیٹس سے لے کر عالمی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں تک سب ہی مشرقِ وسطیٰ کی تازہ صورتحال اور فریقین کے اگلے قدم کے حوالے سے پیشگوئی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس سب کے بیچ دنیا کی تین بڑی طاقتیں امریکہ، چین اور روس اس تنازع کا حل تلاش کرنے میں بدستور ناکام دکھائی دیتی ہے۔

حماس کے اسرائیل پر سات اکتوبر کے حملوں کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں بڑھنے والی کشیدگی اب غزہ، لبنان اور یمن کے بعد ایران تک پھیلتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور اسرائیلی حملوں میں اب تک حماس اور حزب اللہ کے سینیئر رہنماؤں سمیت ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں۔

اس جنگ کے دوران اسرائیل اپنے دشمنوں بشمول حزب اللہ، حماس اور ایران کے خلاف کامیاب کارروائیاں کرتا ہوا نظر آیا ہے۔

گذشتہ ہفتے لبنان میں اسرائیلی حملوں میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ سمیت تنظیم کے متعدد رہنما بھی مارے گئے تھے اور ان کے علاوہ حزب اللہ کے متعدد سینیئر رہنما بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔

رواں برس ایرانی دارالحکومت تہران میں جولائی میں ہوئے ایک ایسے ہی حملے میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ بھی ہلاک ہوئے تھے۔ اسرائیل نے اس حملے کی ذمہ داری تو قبول نہیں کی تھی تاہم خیال یہی ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس حملے کے پیچھے تل ابیب ہی تھا۔

امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین میں شامل متعدد ممالک نہ صرف غزہ بلکہ لبنان میں بھی جنگ بندی کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن یہ کوششیں تاحال کارگر ثابت نہیں ہوئی ہیں۔

امریکہ سمیت متعدد ممالک کو یہ اندیشہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں لڑی جانے والی جنگ پورے مشرقِ وسطیٰ میں پھیل سکتی ہے۔ گذشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ ’باقاعدہ جنگ کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا تھا کہ ’اس مسئلے کا سفارتی حل اب بھی ممکن ہے، بلکہ کثیرالمیعاد سکیورٹی کو یقینی بنانے کا راستہ بھی یہی ہے۔‘

لبنان
Getty Images

لیکن تمام تر اپیلوں کے باوجود اسرائیل نے غزہ اور لبنان میں اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور اب ایران کے حملے کے بعد اس کی جانب سے ایک بار پھر ایران پر حملے کی دھمکی دی ہے۔

سات اکتوبر 2023 کے بعد سے جہاں غزہ پر اسرائیل کی مسلسل بمباری کے نتیجے میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 40 ہزار سے زیادہ شہری ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں وہیں ستمبر 2024 میں لبنان پر اسرائیلی فضائی حملوں میں مارے جانے والوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔

دوسری جانب غزہ کی پٹی میں گذشتہ ایک سال سے زائد عرصے میں حماس کے خلاف کی گئی زمینی کارروائیوں کے دوران اسرائیل کے درجنوں فوجی ہلاک و زخمی ہوئے ہیں جبکہ حزب اللہ کی جانب سے سات اکتوبر کے بعد سے اسرائیل پر راکٹس داغے جانے کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے اور اسرائیلی وزیراعظم کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ ایک برس کے دوران حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل کے مختلف علاقوں پر مجموعی طور پر آٹھ ہزار سے زیادہ راکٹ داغے جا چکے ہیں۔

یمن کے حوثی جنگجو بھی غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے بحیرۂ احمر میں اسرائیل آنے اور جانے والے بحری جہازوں کو نشانہ بناتے آئے ہیں۔

اس سے قبل رواں برس اپریل کے آغاز میں ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے دو سینیئر کمانڈر شام کے دارالحکومت دمشق میں ایران کے قونصل خانے پر ہونے والے میزائل حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ اسرائیل کی جانب سے اس حملے کی بھی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی تھی تاہم عام خیال یہی ہے کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل ہی تھا۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں یہ تمام تر اقدامات اپنے دفاع میں کر رہا ہے۔ گذشتہ دنوں اقوام متحدہ میں اپنے خطاب کے دوران اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کا کہنا تھا کہ ’اسرائیل امن کا خواہاں ہے۔۔۔ مگر پھر بھی ہمیں وحشی دشمنوں کا سامنا ہے جو ہماری تباہی چاہتے ہیں، اور ہمیں ان کے خلاف اپنا دفاع کرنا چاہیے۔‘

انھوں نے ایران پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ایران سے درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے سات مختلف محاذوں پر اپنا دفاع کر رہا ہے۔ انھوں نے اپنے خطاب کا اختتام کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اسرائیل یہ جنگ جیتے گا کیونکہ یہ جنگ جیتنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔‘

لبنان، اسرائیل، غزہ، امریکہ
Getty Images

لبنان کا محاذ گرم ہونے سے قبل امریکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کروانے کے لیے مذاکرات کی کوشش بھی کرتا رہا ہے، تاہم یہ مذاکرات تاحال تعطل کا شکار ہیں۔

لیکن ابھی بھی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ جنگ بندی کے مطالبات اور سفارتی کوششوں کا اسرائیل پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔

پیر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شیئر کیے گئے ایرانی عوام کے نام تین منٹ کے ویڈیو پیغام میں اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’مشرقِ وسطیٰ میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں اسرائیل نہیں پہنچ سکتا، کوئی ایسا مقام نہیں جہاں ہم اپنے لوگوں اور ملک کی حفاظت کے لیے نہیں جا سکتے۔‘

انھوں نے ایرانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’ہر گزرتے لمحے کے ساتھ (ایرانی) حکومت معزز فارسی عوام کو تباہی کے قریب لے جا رہی ہے۔‘

نتن یاہو نے مزید کہا جب ایران ’بالآخر آزاد ہوجائے گا‘ تو سب کچھ بدل جائے گا اور دونوں قومیں امن سے رہ سکیں گے۔ اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’جنونی ملاؤں کو اپنی امیدیں اور خواب کچلنے نہ دیں، آپ بہتری کے مستحق ہیں۔ ایرانی عوام جان لیں کہ اسرائیل آپ کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہم ساتھ مل کر خوشحال اور پُرامن مستقبل دیکھیں گے۔‘

ایران کے میزائل حملوں کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں آخر اس تنازع میں شامل فریقوں کو فائربندی پر رضامند کیوں نہیں کر پا رہیں اور امریکہ کے علاوہ روس اور چین جیسی عالمی طاقتیں اس معاملے پر کوئی مؤثر کردار کیوں ادا نہیں کر پا رہیں؟

مشرقِ وسطیٰ اور بین الاقوامی خارجہ پالیسی پر نظر رکھنے والے ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ، روس اور چین جیسے ممالک کے درمیان عدم تعاون اور امریکہ کی اندرونی سیاست کچھ ایسے عوامل ہیں جس کے سبب اسرائیل کو جنگ بندی کے لیے قائل کرنا مشکل ہو رہا ہے۔

لبنان، اسرائیل، غزہ، امریکہ
Getty Images

امریکہ، چین اور روس کے درمیان اختلافات اسرائیل کو روکنے میں ناکامی کی وجہ ہیں؟

ایک طرف امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں کسی بڑی جنگ کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے تو دوسری طرف بطور اتحادی وہ اسرائیل کو عسکری طاقت بڑھانے کے لیے اربوں ڈالر بھی فراہم کر رہا ہے۔

گذشتہ ہفتے اسرائیل نے کہا تھا کہ امریکہ کی جانب سے آٹھ ارب 70 کروڑ ڈالر کا امدادی پیکچ ملا ہے تاکہ وہ اپنی عسکری مہمات کو جاری رکھ سکے۔

چینی تھنک ٹینک تائیہی انسٹٹیوٹ کے سینیئر فیلو اینار تانجین کہتے ہیں کہ ’ایک طرف امریکہ جنگ بندی کی بات کرتا ہے لیکن دوسری جانب وہ (اسرائیل کو) اسلحہ، گولہ بارود اور انٹیلیجنس سپورٹ فراہم کر رہا ہے جس کا استعمال خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں عام شہریوں کے قتل کے لیے کیا جا رہا ہے۔‘

امریکہ اب تو جنگ بندی کی بات کر رہا ہے لیکن ماضی میں اس کی جانب سے اقوامِ متحدہ میں جنگ بندی کی قرار دادوں کو روکا بھی کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کی برطانوی نمائندہ مارگریٹ میکلوئیڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے اُسی قرارداد کی مخالفت کی جس میں حماس کی دہشتگردی کو نظرانداز کیا گیا یا جس میں اسرائیل کے حقِ دفاع کو نظر انداز کیا گیا۔‘

دوسری جانب روس اور چین جیسی دیگر بڑی طاقتیں بیانات کی حد تک تو ایسے حملوں کی مذمت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں جن سے خطے میں کشیدگی بڑھنے کا امکان ہو لیکن اُن کی جانب سے اب تک کوئی عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔

حالیہ برسوں میں دُنیا بھر میں چین کا اثر و رسوخ بڑھتا ہوا نظر آیا ہے۔ اس اثر و رسوخ کی مثال یہ ہے کہ گذشتہ برس چین کی کوششوں کے باعث تقریباً سات برسوں بعد ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بحال ہو گئے تھے۔

لیکن لبنان میں اسرائیلی حملے میں حسن نصر اللہ سمیت حزب اللہ کی متعدد سینیئر رہنماؤں کی ہلاکت کے بعد چین نے صرف اتنا ہی کہا کہ وہ لبنان کی خود مختاری اور سکیورٹی کی ’خلاف ورزی‘ کی مخالفت کرتا ہے اور عام شہریوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی مذمت کرتا ہے۔

چین کی وزارتِ خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی غزہ میں تنازع کے سبب بڑھی ہے اور یہ کہ چین کو خطے میں بڑھتے تناؤ پر تشویش ہے۔

’چین تمام متعلقہ فریقین خصوصاً اسرائیل سے درخواست کرتا ہے کہ وہ صورتحال کو درست کرنے کے لیے اقدامات اُٹھائیں اور اس تنازع کو بےقابو ہونے سے روکیں۔‘

دوسری جانب روس ہے جو کہ اس خطے میں ایران کا اہم اتحادی بھی ہے۔ اس کا بھی اس تنازع میں حل کے لیے کوئی مؤثر کردار تاحال نظر نہیں آیا ہے، تاہم مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال پر اس نے بھی مذمت کی ہے۔

پیر کو کریملن کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ روس حزب اللہ کے سربراہ کی ہلاکت کی مذمت کرتا ہے اور یہ کہ اس کے سبب مشرقِ وسطیٰ میں بڑی جنگ کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف کا مزید کہنا تھا کہ روس ایسی تمام کارروائیوں کی مذمت کرتا ہے جس کے سبب خطے کی صورتحال مزید کشیدگی کا شکار ہو جائے۔

امریکی تھنک ٹینک سٹمسن سینٹر کی فیلو باربرا سلاون کہتی ہیں کہ سنہ 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے اور روس پر امریکی پابندیوں کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی بگڑ چکے ہیں۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ چین اور امریکہ کے تعلقات میں موجودہ سرد مہری بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور ایسے میں چین کیوں مشرقِ وسطیٰ میں تنازع کے خاتمے کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون کرے گا؟

اس حوالے سے اینار تانجین کہتے ہیں کہ ’چین اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ امریکہ کو یا جوہری طاقت کے حامل اسرائیل کو ڈکٹیٹ کر سکے۔‘

’چین نے ہمیشہ ہی جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے اور ایسے مذاکرات کی حمایت کی ہے جس سے (اسرائیل اور فلسطین کے مسئلہ کا) دو ریاستی حل ممکن ہو سکے۔‘

خیال رہے دہائیوں سے یہی سمجھا جاتا رہا ہے کہ اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں لیکن اس کی جانب سے کبھی اس بات کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔

کیا امریکی انتخابات اسرائیل پر امریکی اثر کو کم کرنے کی وجہ ہیں؟

لبنان، اسرائیل، غزہ، امریکہ
Getty Images

امریکہ میں رواں برس نومبر میں صدارتی انتخابات کا انعقاد ہونے جا رہا ہے جس میں امریکی نائب صدر کملا ہیرس اور رپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

سٹمسن سینٹر سے منسلک باربرا سلاون کہتی ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ اسرائیل حامی مؤقف رکھتی ہیں۔

’ہم سب کو معلوم ہے کہ جو بائیڈن اسلحے کی فراہمی کو محددو کر کے اسرائیل پر اصل دباؤ ڈالنے میں ہمیشہ ہچکچاہٹ کا شکار رہے ہیں۔‘

باربرا مزید کہتی ہیں کہ ’اب جب امریکی الیکشن صرف چند ہی ہفتے دور ہے تو میرا نہیں خیال کہ بائیڈن یا کملا ہیرس دونوں اسرائیل کے مخالف سخت فیصلوں کی تجویز کریں گے کیونکہ اس سے ٹرمپ کو دوبارہ صدر بننے میں مدد مل سکتی ہے۔‘

خیال رہے بطور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سنہ 2017 میں یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کر لیا تھا جس پر متعدد ممالک نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

تاہم باربرا کہتی ہیں کہ ’لیکن اگر کملا ہیرس جیت جاتی ہیں تو کیا پتا ہمیں غزہ اور لبنان میں جنگ بندی کے لیے امریکی دباؤ بڑھتا ہوا نظر آئے۔لیکن اس سب کا دآرومدار اس پر ہو گا کہ اسرائیل اور ایران اس تنازع کے موجودہ مرحلے میں کہاں لکیر کھینچتے ہیں۔‘

ماضی قریب میں عالمی رہنما ایران اور خطے میں اِس کے اتحادیوں بشمول حماس اور حزب اللہ پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کے خلاف ایسے جوابی حملوں سے باز رہیں جو خطے میں مزید کشیدگی کو بھڑکا سکتے ہیں۔ ایران میں اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے بعد برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایک مشترکہ بیان میں ایران پر زور دیا تھا کہ وہ اسرائیل کے خلاف کارروائی سے گریز کریں تاہم ایران نے اس درخواست کو’ضرورت سے بڑی درخواست‘ قرار دیا تھا۔

لبنان میں حسن نصر اللہ کی ہلاکت کے بعد ایران کی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایران لبنان یا غزہ میں اپنی فورسز نہیں بھیجے گا۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نصیر کنعانی کا کہنا تھا کہ ’ایران کی رضاکار فورسز کو بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ لبنان اور فلسطینی علاقوں میں موجود فائٹرز جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت اور طاقت رکھتے ہیں۔‘

دوسری جانب امریکی حکام بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جنگ بندی کے لیے امریکی کوششیں ابھی تک ناکافی نظر آئی ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کی برطانوی نمائندہ مارگریٹ میکلوئیڈ کہتی ہیں کہ ’جب تک جنگ بندی نہیں ہوگی تب تک میں یہ نہیں کہوں گی کہ امریکی حکومت نے کافی کام کیا ہے۔‘

’ہم سمجھتے ہیں وہ تنازع جو اسرائیل اور حماس کے درمیان میں ہو رہا ہے وہ سفارتکاری سے حل ہونا چاہیے۔‘

انھوں نے اسرائیل اور لبنان سے آنے والی خبروں کو ’تشویشناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ سات اکتوبر کے بعد امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن مشرقِ وسطیٰ کے گیارہ دورے کر چکے ہیں کیونکہ امریکہ کی خواہش ہے کہ یہ معاملہ سفارتکاری سے حل ہو۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.