سرباز خان: ’میں اپنی کامیابی پہاڑوں کے عشق میں جان دینے والے کوہ پیماؤں کے نام کرتا ہوں‘

جہاں پاکستان میں کوہ پیمائی کے شعبے میں ابھی بہت کُچھ ہونا باقی ہے وہیں پاکستانی کوہ پیما سرباز خان نے مُلک کا نام ایسے روشن کیا کہ وہ آٹھ ہزار میٹر سے بلند دُنیا کی 14 چوٹیاں سر کرنے والے پہلے پاکستانی بن گئے ہیں۔

’دنیا کی تمام آٹھ ہزار میٹر سے بلند 14 چوٹیاں سر کرنے کے بعد میں اپنی اہلیہ اور والدہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ جنھوں نے ہر قدم پر میری حوصلہ افزائی کی اور مُشکل معاشی حالات کے باوجود ہمیشہ میری سلامتی کے لیے فکر مند رہیں۔‘

یہ کہنا تھا پاکستان کی تاریخ کے کامیاب ترین کوہ پیما سرباز خان کا جنھوں نے پاکستان کی جانب سے پہلی مرتبہ چین میں تربت کے علاقے میں واقع 8027 میٹر بلند ’شیشا پنگما‘ چوٹی کو سر کر کے یہ منفرد اعزاز اپنے نام کیا ہے۔

سرباز کا اس کامیابی کی بعد کہنا تھا کہ ’میں اپنی اس کامیابی کو پہاڑوں کے عشق میں موت کو گلے لگانے والے بہادر کوہ پیماؤں مراد سد پارہ، علی سد پارہ، اپنے استاد علی رضا سد پارہ اور دیگر تمام کوہ پیماؤں کے نام کرتا ہوں۔‘

سرباز خان نے شیشا پنگما کو کامیابی کے ساتھ سر کرنے کے بعد دنیا کی آٹھ ہزار میٹر اور اس سے بلند تمام 14 چوٹیاں سر کرنے کا کارنامہ بھی سر انجام دیا ہے۔

الپائن کلب آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری کرار حیدری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ پاکستان کی ایڈونچر سپورٹس کی تاریخ میں یادگار لمحہ ہے۔ پاکستان نے کئی نامور کوہ پیما پیدا کیے ہیں۔ مگر سرباز خان کا کارنامہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے اور اس کے دیر پا اثرات سامنے آئیں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سرباز خان کا نام دنیا کے ان پہلے تقریبا ساٹھ کوہ پیماؤں میں درج ہو چکا ہے جنھوں نے ابتک آٹھ ہزار میٹر اور اس سے بلند تمام چوٹیوں کو سر کیا ہے اور یہ پاکستان کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔‘

پاکستانی ریکارڈ یافتہ خاتون کوہ پیما نائیلہ کیانی نے بی بی سی سے سرباز خان کی کامیابی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سرباز نے وہ کارنامہ انجام دیا ہے جس کا پاکستانی کوہ پیمائی کو طویل عرصہ سے انتظار تھا۔‘

’شیشا پنگما ایک مشکل مہم تھی‘

سرباز خان نے شیشا پنگما چوٹی سر کرنے کے بعد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’شیشا پنگما کو میں نے گذشتہ سال نامور پاکستان خاتون کوہ پیما نائیلہ کیانی اور کچھ غیر ملکیوں کے ہمراہ سر کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر اس میں ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جس وقت ہم لوگ اس مہم پر تھے اور چوٹی سر کرنے کے بہت قریب تھے تو اس وقت ایک برفانی تودا گر گیا تھا۔ جس کی وجہ سے ہماری ٹیم میں شامل دو کوہ پیما جان کی بازی ہار گئے تھے۔ جب کہ میں اور نائیلہ کیانی محفوظ رہے تھے۔‘

سرباز خان نے مزید کہا کہ ’اس سال جب میں نے دوبارہ کوشش کی اور اس مقام سے گزرا جہاں پر گذشتہ سال حادثہ پیش آیا تو اس وقت ایک لمحے کے لیے میری آنکھوں کے سامنے وہ سارا منظر گھوم گیا اور گھبراہٹ ہوئی مگر میں فوراً اپنی مہم کی طرف متوجہ ہوا کہ مجھے اپنی قوم، ملک اور اپنے پیاروں کے لیے اس چوٹی کو سر کرنا ہے۔‘

سرباز نے اپنے اس سفر سے متعلق بات کو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’یہ بالکل بھی آسان نہیں تھی۔ میں نے کچھ دن پہلے ہی کےٹو پر خواتین کی مہم جوئی کی قیادت کی تھی جس میں پاکستانی خاتون سلطانہ نے کے ٹو سر کی تھی۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا ’اس مہم کے بعد میں تھکا ہوا تھا کچھ دن اپنے گھر والوں کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا۔ مگر مجھے اطلاع ملی کہ چین کی حکومت پرمٹ اور ویزا دے رہی ہے تو بس یہ خبر ملنے کے بعد میں اس مہم کے لیے نکل پڑا۔‘

سرباز خان کا کہنا تھا کہ ’مہم کے دوران موسم خراب تھا، میں اپنے نیپالی شرپاؤں کے ساتھ خود رسی باندھ رہا تھا کیونکہ یہ ایک ٹیم ورک ہوتا ہے۔ جس دوران یہ سب ہو رہا تھا اسی سب کے بیچ مُجھے حالات اور موسم کو سمجھنے کا بھی موقع ملا۔ مگر اس سب کے دوران بہت سے دلچسپ واقعات بھی ہوئے۔‘

’اکتوبر میرے لیے خوش بختی کی علامت رہا‘

سرباز خان کہتے ہیں کہ ’اکتوبر میری زندگی میں خوش بختی کی علامت بن گیا۔ میں نے اپنی پہلی چوٹی نانگا پربت بھی اکتوبر میں ہی سر کی تھی۔ اس مہم میں میری رہنمائی دنیا کے نامورنیپالی کوہ پیما مینگما جی نے کی تھی جنھوں نے کےٹو کو سردیوں میں پہلی مرتبہ سر کیا تھا۔ مینگما جی ہی نے مجھے کوہ پیمائی میں آگے آنے کا موقع فراہم کیا تھا۔‘

سرباز خان کا کہنا تھا کہ ’اب ایک مرتبہ پھر سے اکتوبر میں ہی میں کوہ پیمائی کی دنیا میں ایک بڑا اعزاز اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوا ہوں اور حسنِ اتفاق کہ اب بھی اس مہم میں میرے ساتھ مینگما جی تھے۔ یہ مہم مینگما جی کے لیے بڑی اہمیت کی حامل تھی کہ انھوں نے بھی آٹھ ہزار میٹر سے بلند چودہ کی چودہ چوٹیاں سر کر لی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سنہ 2015 میں میری شادی بھی اکتوبر میں ہوئی، میں اپنی شادی کی سالگرہشیشا پنگما کی چوٹی پر منائی اور پھر میں نے سب سے پہلے اپنی اہلیہ سے بات کی۔ ان کا اپنے ہر قدم پر ساتھ دینے پر شکریہ ادا کیا۔‘

سرباز خان کا کہنا تھا کہ ’ہماری مہم 30 ستمبر کو شروع ہوئی تھی۔ ہمارے ٹیم لیڈر مینگما جی نے مجھے بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ ہم چار، پانچ اکتوبر کو چوٹی سر کرلیں تو میں نے ان کو بے ساختہ کہا تھا کہ تو پھر ہم کامیاب ہوں گے کہ یہ تو میری خوش بختی کا مہینہ اور دن ہے۔‘

’اب مشن ہے رہ جانے والی چوٹیاں بغیر آکسیجن کے سر کروں‘

سر باز خان کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں پانچ ہزار، چھ ہزار، سات ہزار سے بلند دنیا کی سب سے زیادہ چوٹیاں ہیں۔ ان میں سے کئی ایسی ہیں جن کو ابھی تک سر نہیں کیا گیا اور ملکہ پربت اور دیگر کئی ایسی ہیں جن پر اگر کام کیا جائے تو پاکستان میں سیاحت کو فروغ مل سکتا ہے۔ اب میں اس پر کام کروں گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں جن چوٹیوں کو سر نہیں کیا گیا انھیں بھی بہت جلد سر کروں گا، اور میرے ایسا کرنے کی وجہ سے یورپ اور امریکہ حتی کے دُنیا کے دیگر مُمالک سے بھی لوگ ہمارے مُلک کی جانب راغب ہوں گے۔ ایک جدید تربیتی سنٹر قائم کرنے کی کوشش کروں گا جس میں نئے کوہ پیماؤں کو تربیت فراہم کی جائے۔‘

سرباز خان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے کئی ساتھی ان پہاڑوں کے عشق میں اپنی جان سے گئے۔ ان کے خاندانوں کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ میرا مشن ہے کہ پاکستان آنے والے غیر ملکی کوہ پیماؤں کو اپنی مدد کے لیے غیر ملکی کوہ پیما نہ لانے پڑیں اور ہمارے کوہ پیما ہی ان کو یہ خدمات مہیا کریں۔‘

سرباز خان کہتے ہیں کہ ’میں نے چودہ میں سے بارہ چوٹیاں بغیر آکسیجن کے سر کی ہیں۔ باقی رہ جانے والی دو چوٹیوں کو انتہائی ناموافق حالات کے باعث بغیر آکسیجن کے سر نہیں کرسکا تھا۔ ‘

اب میرا مشن ہے کہ سنہ 2025 میں وہ چوٹیاں دوبارہ بغیر آکسیجن کے سر کر کے چودہ کی چودہ چوٹیاں بغیر آکسیجن کے سر کرنے کا اعزاز اپنے نام کروں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.