انڈین کرکٹر اجے جدیجہ کس ریاست کے وارث بنے کہ راتوں رات مالا مال ہو گئے؟

گذشتہ دنوں ہندوؤں کے تہوار دسہرے کے موقعے پر اجے جڈیجہ کے چچا اور سابق شاہی ریاست نواں نگر (اب جام نگر) کے راجہ یا جام صاحب شتروشلیہ دگوجے سنگھ جڈیجہ نے انھیں اپنا جانشین اور وارث قرار دیا ہے۔
اجے جڈیجہ
Getty Images
اجے جدیجہ

سابق انڈین کرکٹر اجے جدیجہ کا اچانک خبروں میں آنا کرکٹ شائقین کے لیے کوئی غیر معمولی بات نہیں کیونکہ گذشتہ سال جب کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران افغانستان کی ٹیم کی کارکردگی ناقابل یقین حد تک شاندار رہی تھی تو اس کا سہرا کھلاڑیوں کے ساتھ ان کے مینٹور اور کوچ اجے جدیجہ کو بھی دیا جا رہا تھا۔

پھر گذشتہ دنوں بابراعظم کو انگلینڈ کے خلاف بقیہ ٹیسٹ میچوں سے فارغ کیے جانے پر جب پاکستانی کرکٹر فخر زمان نے بابر اعظم کا مقابلہ وراٹ کوہلی سے کیا تو اجے جدیجہ کا جواب انڈیا اور پاکستان کے درمیان پرانی حریفانہ چپقلش کی یاد دہانی کراتا نظر آیا۔

لیکن اس سے دو دن قبل اچانک جدیجہ کا مقابلہ انڈین کرکٹر وراٹ کوہلی سے یوں ہونے لگا کہ وہ دولت کے معاملے میں راتوں رات کوہلی سے آگے نکل گئے ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کی دولت کا تخمینہ پیش کیا جانے لگا۔

تو ایسا کیا ہوا کہ جدیجہ کوہلی سے بھی آگے نکل گئے؟

در اصل یہ معاملہ اجے جدیجہ کے ایک شاہی خاندان سے تعلق سے جڑا ہے۔ گذشتہ دنوں ہندوؤں کے تہوار دسہرے کے موقعے پر اجے جدیجہ کے چچا اور سابق شاہی ریاست نواں نگر (اب جام نگر) کے راجہ یا جام صاحب شتروشلیہ دگوجے سنگھ جدیجہ نے انھیں اپنا جانشین اور وارث قرار دیا ہے۔

بِزبَز کے مطابق انڈیا کے کرکٹر سچن تنڈولکر کی مجموعی دولت کا تخمینہ 1427 کروڑ روپے ہے جبکہ وراٹ کوہلی کی کل دولت کا تخمیہ 1090 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔ سوشل میڈیا کے مطابق اجے جدیجہ کے وارث بننے کے بعد ان کی دولت 1450 کروڑ ہو گئی ہے جو کہ ان سب سے زیادہ ٹھہری۔

جدیجہ کی دولت ان کی خاندان کی دولت کو ملا کر بتائی جا رہی جو انھیں وراثت میں ملنے والی ہے۔

چونکہ شتروشلیہ سنگھ کی اپنی کوئی اولاد نرینہ نہیں تھی اس لیے وہ ایک عرصے سے اس پر غور و خوض کر رہے تھے کہ ان کا جانشین کون ہو سکتا ہے اور پھر انھوں نے 11 اکتوبر سنہ 2024 کو دسہرے کے موقع پر اپنے جانشین کا اعلان کیا کہ ان کے بعد ان کے کزن کے بیٹا اجے جدیجہ ان کی جگہ اس شاہی ریاست کے جام صاحب ہوں گے۔

اجے جدیجہ انڈیا میں بڑے نامور کرکٹروں کے خاندان سے آتے ہیں۔ ان سے پہلے سر رنجیت سنگھ اور دلیپ سنگھ اس خاندان کے مشہور کرکٹرز رہے ہیں۔ یہاں تک کہ انڈیا میں کرکٹ کے دو اہم ترین ٹورنامنٹس ’رنجی ٹرافی‘ اور ’دلیپ ٹرافی‘ ان دونوں کرکٹروں کے نام سے ہی موسوم ہیں۔

ان کے علاوہ جدیجہ خاندان کے کچھ افراد برطانوی دور میں اور آزادی کے بعد بھی فوج میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔

گجرات حکومت کی ویب سائٹ کے مطابق جدیجہ خاندان اس وقت گجرات کے کچ کے راجہ بنے تھے جب انھیں گجرات کے بادشاہ بہادر شاہ نے ایک جنگ میں ان کے کردار کی وجہ سے 12 گاؤں عطا کیے تھے لیکن ’درباری سیاست‘ اور اندرونی کشمکش کی وجہ سے انھوں نے اپنا علاقہ چھوڑ دیا اور تقریباً 480 سال قبل سوراشٹر کے علاقے میں ایک نئی حکومت قائم کی۔

جام نگر محل
Getty Images
جام نگر محل

نواں نگر (اب جام نگر) کا قیام

عہد وسطی کے حکمراں جام راول نے شیرشاہ سوری کے عروج کے زمانے میں سنہ 1540 میں ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی، جو ’نواں نگر‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کے بعد اس وقت کے ’جام‘ حکمرانوں کے بعد یہ علاقہ جام نگر کے نام سے جانا گيا۔

گجراتی انسائیکلو پیڈیا کے مطابق جام راول نے اپنے والد جام لکھا کے قتل کے مجرموں میں سے ایک مانتا جام تماچی سے اپنی فوج کے لیے اناج مانگا تھا۔

جام تماچی نے اس کی جگہ انھیں خاک بھیجی جس کے بعد ان کے درمیان جنگ ہوئی اور جام راول نے سنہ 1535 میں کچ کے جنوب میں نوالکھی بندرگاہ کے قریب دہنسارا گاؤں میں اپنی حکومت قائم کی۔

جام نگر کے متعلق ریاست گجرات کی سرکاری ویب سائٹ پر درج ہے کہ جام راول نے اپنے والدجام لکھا کے قاتل ہمیر جی جدیجہ کو قتل کر دیا تو ان کے دو بیٹے کھینگر جی اور صاحب جی مغل بادشاہ ہمایوں کے پاس پناہ کے لیے پہنچے۔

ایک دن شیر کے شکار کے دوران ان دونوں بھائیوں نے ہمایوں کو بچایا جس سے خوش ہوکر بادشاہ ہمایوں نے مغل فوج ان کے ہمراہ کی تاکہ وہ اپنی کھوئی ہوئی ریاست حاصل کر سکیں۔ جب جام راول کو ان کی آمد کا پتا چلا تو انھوں نے کچ سے کوچ کیا اور سوارشٹر کے علاقے پہنچے۔

یہاں پہنچ کر جام راول اور اس کے بھائی ہردھول نے ایک کے بعد ایک علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ ہردھول جی نے چاوڈا کو شکست دی اور (موجودہ) جوڑیا اور دھرول کے علاقوں کو اپنے تابع کر لیا۔

جام راول نے 1540 میں رنگامتی ندی کے کنارے آباد ناگمتی اور ناگنیس کو جیٹھوں سے چھین لیا اور 'نواں نگر' قائم کیا۔

سوراشٹرا میں موربی کا جدیجہ خاندان کچ کے اصل خاندان کی ایک شاخ تھی۔ اس کے علاوہ مالیا-میانہ اور کوٹڈا سنگانی میں بھی جدیجہ قبیلے کی ریاستیں تھیں۔

ٹائمز آف انڈیا نے جیک کارٹیئر کے حوالے سے لکھا ہے کہ نواں نگر (اب جام نگر) کے جام صاحب اپنے وسیع اور نادر زیورات کے ذخیرے کے لیے مشہور تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جام صاحب رنجیت سنگھ جی کے پاس زمرد کا مجموعہ تھا جس کی نظیر دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی۔ اگرچہ مقدار میں ان سے زیادہ کہیں اور ہو سکتا ہے لیکن معیار میں ان کا ثانی نہیں۔

’نئے‘ شہر کی تاریخ

مغل بادشاہ اورنگزیب کے دور میں کچھ سال (1663-1709 عیسوی) کے دوران نواں نگر پر مغلوں کا قبضہ رہا۔ اس دوران اسے ’اسلام آباد‘ کے نام سے جانا گیا۔ بعد میں اس کی عمارتوں، رہائشی مکانات، باغات اور سہولیات کی وجہ سے اسے ’سوراشٹر کا پیرس‘ کہا گیا۔

انڈیا کی برطانوی راج سے آزادی کے بعد نواں نگر کے اس وقت کے حکمران جام دیگ وجے سنگھ جی نے نواں نگر اور سوراشٹرا کے علاقے کی شاہی ریاستوں کو انڈین یونین میں ضم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ گجرات کے قیام کے بعد نواں نگر کا نام ’جام نگر‘ پڑ گیا جبکہ سابقہ شاہی ریاست جام نگر کے موجودہ نام نہاد راجہ شتروشلیہ سنگھ سنہ 1966 سے اس عہدے پر فائز ہیں۔

رنجیت سنگھ جی کو انڈین کرکٹ کا بابا کہا جاتا ہے
Getty Images
رنجیت سنگھ جی کو ’بابائے انڈین کرکٹ‘ کہا جاتا ہے اور ان کے نام پر انڈیا کی سب سے بڑی ٹرافی رنجی ٹرافی ہوتی ہے

اجے جدیجہ کون ہیں؟

سابق شاہی ریاست کے راجہ شتروسلیہ جی نے دسہرہ کے دن ایک عوامی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اجے جدیجہ ریاست نواں نگر کا ’وارث‘ بننے پر راضی ہو گئے ہیں۔

انھوں نے ان کا موازنہ 14 سال کی جلاوطنی سے واپس آنے والے پانڈووں سے کیا اور کہا کہ اجے جدیجہ کا ’جام صاحب‘ بننا جام نگر کے لوگوں کے لیے ایک نعمت ثابت ہوگا۔

اجے جدیجہ کے والد دولت سنگھ جام نگر سے رکن اسمبلی رہ چکے ہیں۔

دولت سنگھ کے لوک سبھا پروفائل کے مطابق، انھوں نے 1971، 1980 اور 1984 میں کانگریس کے ٹکٹ پر لوک سبھا انتخابات جیتے اور ممبر پارلیمنٹ بنے۔ سنہ 1989 میں دولت سنگھ کو بی جے پی لیڈر کے خلاف شکست ہوئی تھی۔

دولت سنگھ 1977 سے 1980 تک گجرات قانون ساز اسمبلی میں ایم ایل اے رہے۔ دولت سنگھ خود ایک کرکٹر تھے اور سوراشٹرا کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔

کرکٹ ویب سائٹ کرک انفو پر فراہم کردہ معلومات کے مطابق اجے جدیجہ یکم فروری سنہ 1971 کو جام نگر میں پیدا ہوئے۔

سنہ 1983 میں انڈیا کے لیے پہلا کرکٹ ورلڈ کپ دلانے والے کپل دیو نے جدیجہ کو کرکٹ کے کچھ اصول سکھائے اور پھر انھوں نے بیٹنگ میں جارحیت، چست فیلڈنگ اور وکٹوں کے درمیان تیزی سے رنز حاصل کر کے بہت سے مداحوں کا دل جیتا۔

دائیں ہاتھ کی میڈیم فاسٹ باؤلنگ اور دائیں ہاتھ کے بلے باز اجے جدیجہ نے 28 فروری 1992 کو سری لنکا کے خلاف اپنا ون ڈے کھیلا اور پہلا ٹیسٹ میچ نومبر سنہ 1992 میں جنوبی افریقہ کے خلاف ڈربن میں کھیلا۔

اجے جدیجہ نے اپنا آخری ون ڈے (پاکستان) اور ٹیسٹ (جنوبی افریقہ) 2000 میں کھیلا۔ انڈین میڈیا کے مطابق دسمبر سنہ 2000 میں ان پر بکیز کے ساتھ تعلقات کا الزام لگایا گیا جو ان کے کریئر کے عروج پر رکاوٹ سبب بن گيا۔

اجے جڈیجہ
Getty Images
اجے جدیجہ جارحانہ بیٹنگ اور چست فیلڈنگ کے لیے جانے جاتے تھے

پابندی

بی سی سی آئی نے جدیجہ کے کرکٹ کھیلنے پر پانچ سال کی پابندی عائد کر دی جسے سابق کرکٹر نے دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ فیصلے کے بعد اجے جدیجہ نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں واپسی کی اور دہلی اور راجستھان کی کپتانی کی۔

اس عرصے کے دوران اجے جدیجہ نے اداکار سنی دیول کے مدمقابل فلم ’کھیل‘ سے اپنا فلمی ڈیبیو بھی کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے ’پل پل دل کے ساتھ‘ میں بھی کردار ادا کیا۔وہ ’جھلک دکھلا جا‘ اور کپل شرما کے ’لافٹر شو‘ کے پروگرامز میں نظر آئے۔

جدیجہ نے دہلی کرکٹ ٹیم کے کوچ کا کردار ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ سنہ 2023 میں وہ افغانستان کی بین الاقوامی کرکٹ ٹیم کے کوچ تھے۔ ان کی رہنمائی میں افغانستان کی ٹیم نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

جدیجہ نے اپنے کرکٹ کیریئر کے دوران 294 اے سیریز مچز میں 8304 رنز، 196 ون ڈے مین 5359 رنز اور 111 فرسٹ کلاس کرکٹ میچز میں 8100 رنز بنائے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے 15 ٹیسٹ میچوں کی 24 اننگز میں 576 رنز بنائے۔

انھوں نے سیاستداں جیاجیٹلی کی بیٹی سے شادی کی اور ان کے دو بچے ہیں۔ نومبر سنہ 2013 میں ناگپور میں آخری فرسٹ کلاس کرکٹ میچ کھیلے اور اب وہ ایک نئی اننگز کا آغاز کریں گے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.