یہاں سارا کھیل قسمت پر ٹکا ہے کہ اگر بلے باز اپنا فرنٹ فٹ، بیک فٹ، بیک لفٹ، سبھی کچھ مکمل متوازن درستگی پر لے آئے، تب بھی اسے قسمت کی طرف داری کی ضرورت رہے گی کہ نو دن پرانی پچ پر کون سی گیند پر کس کا نام لکھا ہو، کوئی نہیں جانتا۔ سمیع چوہدری کی تحریر۔۔۔

بین سٹوکس جب سے انگلش ٹیم کی قیادت پر مامور ہوئے ہیں، اکثر اوقات فیلڈ پر مطمئن دکھائی دیے ہیں۔ بطور کھلاڑی جو جارحیت اور جوش ان کی پہچان تھا، کپتانی کی متانت سے اسے ’بزرگانہ تحمل‘ سے بدل دیا لیکن جمعرات کی سہہ پہر، بین سٹوکس اپنے فیلڈرز پر چِلّاتے نظر آئے۔
ہر سکے کے دو رخ ہوتے ہیں۔ جارحانہ بیٹنگ کی اس ’بیز بال‘ اپروچ کے بھی دو رخ ہیں۔ اس کا پہلا رخ اگر ٹیسٹ کرکٹ میں انگلش ٹیم کی سر بلندی کا سنہرا آغاز ہے تو دوسرا رخ ملتان ٹیسٹ کی تیسری صبح سامنے آیا اور یہ دوسرا رخ انگلش شائقین کے لیے خوش کن نہ تھا۔
دورہ پاکستان پر تاحال کھیلی گئی اس سیریز کے پہلے سات روز جو انگلش شائقین ہنستے، مسکراتے اور حظ اٹھاتے دکھائی دیتے رہے، وہی شائقین جمعرات کی سہہ پہر فکرمند چہروں کے ساتھ، کبھی بے یقینی سے سر پکڑتے تو کبھی منہ چھپاتے نظر آئے۔
’بیز بال‘ کے وقار سے انکار ممکن نہیں مگر تیسری صبح تک انگلش کیمپ پر یہ واضح ہو چکا تھا کہ کم سکورز والے اس مقابلے میں ایک ایک رن کس قدر اہم ہونے کو تھا اور وہ قیمتی رنز پانے کو اس پچ کی کیسی مزاج شناسی درکار تھی۔
لیکن حالات کی موافقت میں ڈھلنے کے لیے جو ریاضت درکار تھی، وہ بیزبال کے خوگر انگلش بلے باز کہاں سے لا پاتے۔ یہاں سات روز پرانی پچ پر پاکستانی سپنرز کی یلغار پہلے ہی وکٹیں اڑانے کو کم نہ تھی کہ جیمی سمتھ اور برائیڈن کارس نے بھی بوریت کے مارے اپنی وکٹیں پھینک ڈالیں۔
بین سٹوکس کی یہ ’بیز بال‘ اپروچ کلاسک انگلش ٹیسٹ بیٹنگ اپروچ سے بغاوت کی علمبردار ہے اور اگرچہ یہ تیز رفتار پچز پر اپنی تاثیر ثابت کرتی آئی ہے لیکن سست رفتار سپن وکٹوں پر اس کی افادیت ابھی تک کوئی موثر دلیل نہیں لا پائی۔
یہاں بھی کلاسک ٹیسٹ کرکٹ اپروچ نے پیچھے سے لپک کر بیز بال کو ڈھیر کر دیا۔
ساجد خان اور نعمان علی کے پے در پے وار اس قدر کاری ثابت ہوئے کہ اس پراسرار پچ پر انگلش اننگز میچ سے کافی پیچھے رہ گئی۔ جو 75 رنز کی برتری یہاں پاکستان کو حاصل ہوئی، پہلے میچ کی اسی پچ کی رفتار کے اعتبار سے وہ 150 سے کم نہ تھی۔

میچ میں اس قدر پیچھے لڑھکتے رہ جانے کے بعد بین سٹوکس کے بولرز کی ذمہ داری تھی کہ وہ دوسری اننگز میں پاکستانی بیٹنگ کے کسی روایتی انہدام کا موجب بنتے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ انگلش بولنگ پاکستانی بلے بازوں کو اس انہدام کے عین قریب بھی لے آئی۔
مگر یہاں قسمت بھی شاید بیز بال سے اتنی مایوس ہو چکی تھی کہ اس دورے پر ابھی تک بہترین ڈسپلن کا مظاہرہ کرنے والی انگلش فیلڈنگ یکے بعد دیگرے دو مواقع گنوا بیٹھی اور سلمان آغا نے ہاتھ آئی مہلت کا خوب فائدہ اٹھایا۔
ساجد خان کی ساجھے داری میں سلمان آغا کی اننگز ایسی رفتار سے آگے بڑھی کہ اپنے تحمل اور صبر سے پہچانے جانے والے کپتان سٹوکس بھی اپنے اعصاب پر قابو نہ رکھ سکے۔ سلمان کی اننگز کا ایک ایک رن انگلش کیمپ کو قدم بہ قدم میچ سے باہر دھکیلتا گیا۔
جس طور سے اس پچ نے تاحال اپنے کواکب دکھائے ہیں، کسی بھی ’نارمل‘ ٹیم کے لیے یہاں چوتھی اننگز میں 200 کا ہدف ناقابلِ تسخیر ہوتا مگر مقابلہ چونکہ بیز بال سے تھا، سو پاکستان کو یہاں احتیاطاً 100 کے لگ بھگ اضافی رنز کی ضرورت تھی۔
سلمان آغا اور ساجد خان کی پارٹنرشپ نے پاکستان کو اس ہندسے کے قریب لا کھڑا کیا، جہاں سے انگلینڈ کا میچ میں واپس آ پانا اگر ناممکن نہیں تو سخت دشوار ضرور ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ جب بات مدافعتی حصار کی آئے تو سپن کے خلاف جو روٹ اور بین سٹوکس جیسے بلے باز اس انگلش ٹیم کی قوت ثابت ہو سکتے ہیں جو لمبی اننگز کھیل کر پاکستانی بولنگ کا مورال گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
لیکن مسئلہ یہاں صلاحیت، تکنیک یا ٹیمپرامنٹ کا ہے ہی نہیں۔ یہاں سارا کھیل قسمت پر ٹکا ہے کہ اگر بلے باز اپنا فرنٹ فٹ، بیک فٹ، بیک لفٹ، سبھی کچھ مکمل متوازن درستگی پر لے آئے، تب بھی اسے قسمت کی طرف داری کی ضرورت رہے گی کہ نو دن پرانی پچ پر کون سی گیند پر کس کا نام لکھا ہو، کوئی نہیں جانتا۔