سعود شکیل نے انگلش ارمانوں پر پانی پھیر دیا

سعود شکیل کی ذمہ دارانہ اننگز کی بدولت جہاں پاکستان انگلینڈ پر پہلی اننگز میں 77 رنز کی اہم برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہوا وہیں دوسرے دن کھیل کے اختتام پر انگلینڈ کی دوسری اننگز میں تین وکٹیں لے کر میچ پر اپنی گرفت بھی مضبوط کر سکا ہے۔
getty
Getty Images

آف سٹمپ سے باہر پڑتی اس گیند کی فلائٹ بلے باز کو الجھانے کے لیے کافی تھی۔ عامر جمال مخمصے میں پڑ گئے اور عین آخری لمحے پر ان کے ہاتھ حرکت میں آئے مگر ان کے سنبھلتے تک ریحان احمد کی وہ گگلی بلے کا اندرونی کنارہ چھوتے ہوئے سٹمپس منتشر کر چکی تھی۔

اس وکٹ کے ساتھ ہی پاکستانی اننگز بھی اس گڑھے میں جا گری جہاں ایک روز پہلے انگلش اننگز گری تھی اور اسے نکالنے کو جیمی سمتھ کی اننگز جیسا جادو ناگزیر ہو گیا تھا۔

پاکستانی اننگز 90 رنز کے خسارے میں تھی اور باقی ماندہ تین وکٹوں کے عوض نہ صرف اسے یہ انگلش برتری ختم کرنا تھی بلکہ اپنی آخری اننگز کی متوقع کم مائیگی کے لیے بھی کچھ جمع کرنا تھا۔

سٹوکس کا خیال تھا کہ وہ بہت جلد پاکستانی اننگز کی بساط لپیٹ ڈالیں گے۔

سعود شکیل اگرچہ ڈٹے ہوئے تھے مگر سٹوکس کی حکمتِ عملی ان کی وکٹ بٹورنے سے زیادہ رنز روکنے پہ مرکوز ہو گئی اور یہیں سٹوکس سے غلطی ہو گئی۔

بلے کے اردگرد جارحانہ فیلڈنگ کا جھرمٹ سجانے کی بجائے سٹوکس نے فیلڈ پھیلانے کی یہ چال ایک لحاظ سے درست بھی تھی کہ دھیمے باؤنس کی اس پچ پہ وکٹوں سے بھی زیادہ اہم کرنسی وہ رنز تھے جن کا حصول یہاں سخت دشوار تھا۔

جو بیز بال اپروچ چار سے کم رن ریٹ کو کبھی خاطر میں نہیں لائی، اس کی اپنی اننگز بھی بمشکل رینگ کر اس مجموعے تک پہنچی تھی جو اگر برتر نہ سہی، مسابقتی ضرور تھا۔ اور جو مدافعت یہاں پاکستانی مڈل آرڈر سے متوقع تھی، وہ ریحان احمد کے پے در پے وار لے اڑے تھے۔

مگر سٹوکس یہ سمجھنے میں چُوک گئے کہ سعود شکیل ان بلے بازوں میں سے نہیں ہیں جو بوریت کے ہاتھوں اپنی وکٹ پھینک دیں گے۔ سو، جہاں بین سٹوکس نے ان کے سبھی بڑے سکورنگ شاٹ بلاک کرنے کی تدبیر اپنائی، وہیں سعود نے عاجزی سے وکٹوں کے بیچ دوڑے چلے جانے کی راہ نکالی۔

پاکستان، سعود شکیل
Getty Images

عہدِ حاضر کی ٹیسٹ کرکٹ میں وکٹوں کے بیچ دوڑنے کا اس قدر رواج باقی نہیں رہا جس پہ یہاں سعود عمل پیرا نظر آئے۔ یہ خاصی حیران کن بات تھی کہ ان کی سینچری میں کوئی دو تہائی رنز باؤنڈریز کے بغیر تھے۔

انگلینڈ کا یہ گمان ہی رہ گیا کہ دفاع کرنے کو جو رنز میسر تھے، وہاں وکٹ کی چال بازیاں خود ہی سعود شکیل کے دفاعی حصار میں کوئی شگاف ڈال دیں گی۔ لیکن فرنٹ فٹ ڈیفنس کی ٹھوس تکنیک کے سامنے انگلش سپنرز کی کوئی لینتھ کارگر نہ ہو پائی۔

یہ اننگز سعود شکیل کے لیے اشد ضروری تھی کہ وہی اس طرح کی پچ پہ سپن بولنگ سے نمٹ سکتے تھے۔ جو خلجان ان سے پہلے بلے بازوں کی شاٹ سلیکشن میں نظر آیا، وہ پاکستانی اننگز کو یکسر سعود کے ہی آسرے پہ چھوڑ گیا تھا۔

دو روزہ کرکٹ کے بعد اب یہ تو بخوبی واضح ہو چکا ہے کہ اگلے دو روز یہ پچ کیا کیا گل کھلانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایسی پچز پہ اننگز در اننگز بیٹنگ کا دشوار تر ہوتے جانا یقینی ہوتا ہے اور پاکستانی بلے بازوں کے لیے بہتر یہی تھا کہ وہ اپنے اسی موقع سے اتنی برتری سمیٹ لیتے جو آخری اننگز کا ہدف مختصر کر سکے۔

بین سٹوکس کی فیصلہ سازی اور سعود شکیل کے عزم نے پاکستانی لوئر آرڈر کو بھی جمنے کا خوب موقع فراہم کیا۔ پرانی ہوتی گیند کے ٹرن میں کمی آتی گئی اور نعمان علی کے بعد ساجد خان نے بھی اس کوتاہی کا بھرپور مداوا کیا جو دیگر پاکستانی بلے بازوں سے سرزد ہوئی۔

جہاں نعمان علی کے ہمراہ ساجھے داری میں سعود نے انگلش برتری مٹائی، وہیں ساجد خان کی دھواں دھار بلے بازی نے انگلش سپنرز کے قدم بالکل اکھاڑ دئیے اور چائے کے بعد پلک جھپکتے میں ہی پاکستان نے وہ ساری برتری واپس پا لی جو پہلے روز جیمی سمتھ نے چرائی تھی۔

اب انگلش ٹیم کے لئے میچ میں واپس آنا دشوار تر ہوتا جا رہا ہے کہ اگر پاکستان کی برتری مٹانے سے پہلے ہی انگلش اننگز جو روٹ اور بین سٹوکس کو گنوا بیٹھی تو پھر تیسری دوپہر کی دھول اڑاتی پچ پہ انگلش ارمان بھی ہوا ہو سکتے ہیں۔

سعود شکیل کی اس شاندار کارکردگی پر سوشل میڈیا پر پاکستانی کرکٹ شائقین ان کی تعریفیں کرتے ہوئے نہیں تھک رہے کیونکہ ان کی اس ذمہ دارانہ اننگز کی بدولت جہاں پاکستان انگلینڈ پر 77 رنز کی اہم برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہوا وہیں دوسرے دن کھیل کے اختتام پر انگلینڈ کی دوسری اننگز میں تین وکٹیں لے کر میچ پر اپنی گرفت بھی مضبوط کر سکا۔

ایک صارف نے انگلش بیٹرز کا ’سپِن ماسٹر‘ سعود شکیل سے موازنہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’لوگ کہیں گے کہ اگر پِچ پر بال سپن ہو رہی ہے تو آپ ہیری بروک، جو روٹ اور دیگر کھلاڑیوں کو جج نہ کریں۔‘

بی بی سی ٹیسٹ میچ سپیشل کے کمنٹیٹر عاطف نواز بھی سعود شکیل کی بیٹنگ سے انتہائی متاثر نظر آئے۔ انھوں نے ان کی اس اننگز کو ’مثالی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ سعود شکیل نے نا صرف ’میچورٹی‘ بلکہ ’صبر‘ کا مظاہرہ بھی کیا۔

کرکٹ پر گہری نظر رکھنے والے ساجد صادق نے لکھا کہ ’سعود شکیل ایک بار بھر دکھا دیا کہ وہ پاکستان کے لیے کتنے اہم کھلاڑی ہیں۔‘

’انتہائی شرم کی بات ہے کہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں تواتر سے پرفارم کرنے کے باوجود انھیں 27 برس کی عمر میں ٹیسٹ ڈیبیو کروایا گیا۔‘

ایک صارف سلیم خالق نے لکھا ’زبردست اننگز سعود شکیل۔ اگر ایسے ہی تسلسل سے عمدہ کھیل پیش کرتے رہے تو بیٹنگ میں پاکستان کے مسائل کم ہو سکتے ہیں۔‘

’لیکن سعود شکیل نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ اگر آپ کے پاس سپن بولنگ کو کھیلنے کی صلاحیتیں ہیں تو آپ ایسی پچز پر بھی اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ شاید یہ ان کی زندگی کی سب سے بہترین سنچری ہے۔‘

سعود شکیل سابق کرکٹر برائن لارا کے مقابلے میں بہت مختلف بیٹر ہیں لیکن سوشل میڈیا صافین کو پاکستانی بیٹر کی سنچری پر پتا نہیں کیوں ویسٹ انڈین لیجنڈ یاد آگئے۔

ایک صارف نے لکھا ’ہم نے برائن لارا کو نہیں دیکھا لیکن شُکر ہم سعود شکیل کے زمانے میں جی رہے ہیں۔‘

یہ اس ٹیسٹ سیریز کا آخری اور فیصلہ کُن ٹیسٹ ہے۔ اس سے قبل دونوں ٹیسٹ میچ ملتان میں کھیلے گئے تھے، پہلے میں انگلینڈ جبکہ دوسرے میں پاکستان کی ٹیم کامیاب رہی تھی۔

پاکستان کی ویمنز کرکٹ ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے لکھا کہ ’سعود شکیل کو یہ سینچری یاد رہے گِی۔ سیریز کے فیصلہ کُن میچ میں انھوں نے ٹیم کو بحران سے نکالا اور ایک سپِننگ وکٹ پر سپنرز کے خلاف زبردست برداشت اور صلاحیتیں دکھائیں۔‘

پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے پہلی اننگز میں 344 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی ہے۔ سعود شکیل 134 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔

اس کے علاوہ پاکستان کی جانب سے پہلی اننگز میں عبداللہ شفیق نے 14، صائم ایوب نے 19، شان مسعود نے 26، محمد رضوان نے 25، سلمان آغا نے ایک، عامر جمال نے 14، نعمان علی نے 45 رنز اور ساجد خان نے 48بنائے تھے۔

اس سے قبل انگلینڈ نے پہلی اننگز میں 267 رنز بنائے تھے اور ان کی پوری ٹیم پہلی ہی دن آؤٹ ہو کر پویلین لوٹ گئی تھی۔

انگلش وکٹ کیپر جیمی سمتھ 89 رنز بنا کر اپنی ٹیم کی طرف سے ٹاپ سکورر رہے۔

پاکستان کی جانب سے ساجد خان نے 128 رنز دے کر چھ جبکہ نعمان علی نے 88 رنز دے کر تین وکٹیں حاصل کی تھیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.