عاقب جاوید نے پی سی بی کو وہ عین سامنے پڑی بات سمجھا ڈالی جو اس سے پہلے کئی سلیکٹرز اور چئیرمین محدب عدسوں سے بھی دیکھ نہ پائے تھے۔
جب سے ٹیسٹ کرکٹ کے افق پر ’بیز بال‘ کا سورج طلوع ہوا ہے، اس کی تمازت سبھی کرکٹنگ اقوام کے لیے ناگوار رہی ہے اور اکثر حریف ٹیمیں سٹوکس کے حملوں کے جواب میں سر کھجاتی دکھائی دی ہیں۔
شاہد آفریدی کی بیٹنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے انیل کمبلے نے کہا تھا کہ وہ ایسے بلے باز ہیں جنھیں نہ اپنی عزت کا خیال ہے اور نہ ہی کسی بولر کی عزت کا مگر بیز بال کا بنیادی سوال یہ ہے کہ کسی بلے باز کو مخالف بولر کی عزت کا خیال کرنا ہی کیوں چاہیے۔
اگرچہ دونوں کے ہنر، صلاحیت اور نتائج میں کوئی موازنہ بجا نہیں مگر شاہد آفریدی ہی کی طرح حریف بولرز کے حوالے سے برینڈن میکلم کا بھی معاملہ کچھ ایسا ہی تھا کہ بطور بلے باز وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔
جبکہ میکلم کی یہی اپروچ ان کی قیادت میں کیوی ٹیم کو ورلڈ کپ فائنل تک لے گئی مگر عین وہیں اسی اپروچ کی ستم ظریفی آشکار بھی ہو گئی کہ اپنی قوم کو پہلی آئی سی سی ٹرافی دلوانے کا خواب اسی جارحیت کی نذر ہو گیا۔
جب انگلش کرکٹ بورڈ نے انھیں اپنی ٹیسٹ ٹیم کی کوچنگ کا چارج تھمایا تو آتے ہی سارا زور انھوں نے ٹیسٹ کرکٹ کی رفتار بڑھانے پر دیا۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ کی مروجہ رفتار سے اکتاہٹ پر مبنی فیصلہ تھا جو بلے بازی کے لیے سازگار پچز پر بہت کارآمد ثابت ہوا۔
بین سٹوکس کی قیادت میں بھی وہ باریک بینی ہے کہ بلے بازی کے لیے سازگار پچز پر بھی وہ ایسی تخلیقی فیلڈنگ پوزیشنز لے آتے ہیں کہان کے بولرز پچ کے محتاج ہی نہیں رہتے اور حریف بلے باز محبوس ہو کر پویلین لوٹنے پہ مجبور ہو رہتے ہیں۔
بیز بال کی یہ اپروچ ڈیڑھ صدی پہ پھیلی ٹیسٹ کرکٹ تاریخ کے سرخیل اذہان کی عقل پر بھی کسی سوالیہ نشان کی مانند اٹھی کہ اگر ٹیسٹ کرکٹ اس انداز میں کھیلنا ممکن تھا تو عہد درعہد وکٹر ٹرمپر، سر ڈبلیو جی گریس اور ڈان بریڈ مین وغیرہم خواہ مخواہ اتنی سستی سے گویا ’جھک‘ کیوں مارتے رہے۔
انگلش بلے بازوں کے ہاتھوں میں یہ اپروچ جنگل میں کسی کے ہاتھ دیا سلائی آ جانے کے مترادف تھا اور ہر میچ میں یہ حریف کیمپ کا یوں منہ چڑاتی تھی کہ گویا جہاں سبھی سورج کی روشنی میں کوکنگ کر رہے تھے، وہاں صرف سٹوکس کی ٹیم ہی یہ راز ڈھونڈ پائی کہ یہ کام الیکٹرک اوون کے ذریعے بھی ممکن تھا۔
یا یوں کہہ لیجیے کہ جیسے فائیو جی انٹرنیٹ کے دور میں سبھی ٹیمیں پی سی او کے ذریعے دنیا سے رابطہ رکھ رہی تھیں اور سمارٹ فون صرف بین سٹوکس کی جیب میں تھا۔
پی سی بی کی ساری عقل و دانش بھی انگلیاں دانتوں میں دبائے دیکھ رہی تھی اور یہی سوچ رہی تھی کہ اس یلغار کا کوئی توڑ کرنا ممکن ہی نہیں۔ مگر تب اچانک عاقب جاوید کا ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوا جہاں وہ سپن پچز پر تین سپنرز کھلانے کی بات کر رہے تھے۔
گو، یہ ایک حادثاتی ردِعمل تھا مگر اسی عاقب جاوید کو سلیکشن کمیٹی کی لگام تھمانے کا فیصلہ اس قدر مفید ٹھہرا کہ راتوں رات مبصرین کی زبانیں اور خیالات بدل گئے۔ ورنہ ڈیڑھ ہفتہ پہلے صحافتی حلقوں اور سابق کرکٹرز کے تبصروں کی اکثریت اسی پر متفق تھی کہ پاکستان میں نتیجہ خیز پچز بنانا ناممکن تھا اور یہ کرکٹ ڈھانچہ ٹیلنٹ سے یکسر کھوکھلا ہو چکا تھا۔
عاقب جاوید نے پی سی بی کو وہ عین سامنے پڑی بات سمجھا ڈالی جو اس سے پہلے کئی سلیکٹرز اور چئیرمین محدب عدسوں سے بھی دیکھ نہ پائے تھے۔ انھوں نے وہ سادہ سچائی پاکستان کرکٹ کو دکھائی جس نے پہلے میچ میں ڈیڑھ صدی کی تاریخ کا شرمناک ترین ریکارڈ حاصل کرنے والی ٹیم کو یہ مشکل سیریز جیتنے کا فارمولہ دے دیا۔
انھوں نے نہ صرف ملتان میں سپن پچ بنوا کر دکھائی بلکہ ہمیشہ پیسرز کے لیے موافق رہنے والے راولپنڈی میں بھی وہ پچ بنوائی جہاں ساجد خان اور نعمان علی کا جادو ’بیز بال‘ کے چڑھتے سورج کو لگام ڈال پایا۔
انگلش بلے باز اگر چاہتے تو اسی پچ پر تحمل کا مظاہرہ کرتے، کچھ وقت گزارتے اور نئی گیند کی دمک ختم ہونے کے بعد اپنے جوہر دکھا جاتے۔مگر انھوں نے اپنی خُو نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور عاقب بال نے بیز بال کا توڑ کر دیا۔