یہ کہانی ایک ایسے آپریشن کی ہے جسے امریکی فوج کی تاریخ کی ’بڑی ناکامیوں میں سے ایک‘ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اِس میں سینکڑوں صومالی شہریوں کی ہلاکت کے ساتھ ساتھ 18 امریکی فوجیوں کی ہلاکت ہوئی جن میں سے کئی کی لاشوں کو موغادیشو کی گلیوں میں گھسیٹا گیا۔
یہ کہانی ایک ایسے آپریشن کی ہے جسے امریکی فوج کی تاریخ کی ’بڑی ناکامیوں میں سے ایک‘ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اِس میں سینکڑوں صومالی شہریوں کی ہلاکت کے ساتھ ساتھ 18 امریکی فوجیوں کی ہلاکت ہوئی جن میں سے کئی کی لاشوں کو موغادیشو کی گلیوں میں گھسیٹا گیا۔
دفاعی ماہرین کے مطابق اس آپریشن کی ناکامی ہی تھی جس نے امریکہ کو صومالیہ سے اپنی فوج کے مکمل انخلا پر بھی مجبور کیا تھا۔
تین اکتوبر 1993 کو ’موغادیشو کی جنگ‘ کے دوران صومالی جنگجوؤؤں نے دو امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر بھی مار گرائے تھے جس کے بعد مطلوب ’وار لارڈ‘ (مسلح گروہ کے سرغنہ) جنرل فرح عیدید کے ساتھیوں کو پکڑنے کے لیے شروع کیا گیا آپریشن، امریکی فوجیوں کو بچانے کے ایک ریسکیو آپریشن میں تبدیل ہوا جس میں اقوام متحدہ کی امن فوج میں شامل پاکستانی دستوں نے اپنے ٹینکوں سمیت حصہ لیا۔
اس کہانی کی شروعات کئی ماہ قبل یعنی جون 1993 میں ہوئی جب جنرل فرح عیدید کے حکم پر اقوام متحدہ کی امن فوج میں شامل پاکستانی دستے پر حملے میں 24 پاکستانی فوج ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔
اس کارروائی کے بعد اقوام متحدہ کی طرف سے جنرل عیدید کی ملیشیا کے خلاف کارروائی کے مطالبے کے نتیجے میں امریکی فوج جنرل عیدید کی کھوج میں مصروف ہو گئی۔
جولائی میں امریکی فورسز نے عیدید کے گھر چھاپہ مارا جس میں اُن کے قبیلے کے کئی رہنما ہلاک ہوئے اور نتیجتاً جنگجوؤں نے امریکی فورسز اور اقوام متحدہ کی امن فوج پر حملے تیز کر دیے۔
صورتحال اس قدر خراب ہو چکی تھی کہ امریکی صدر بِل کلنٹن نے عیدید کو پکڑنے کے لیے ٹاسک فورس رینجرز کو صومالیہ بھیجا۔
صومالیہ کے ’طاقتور وار لارڈ‘ تک پہنچنے کی کوشش
سنہ 1993 کے دوران صومالیہ میں انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے امریکی قیادت میں اقوام متحدہ کی امن فوج وہاں موجود تھی۔ اُس وقت صومالیہ خانہ جنگی اور قحط جیسے مسائل سے دوچار تھا۔
صومالی مصنف عبدالعزیز علی ابراہیم اُس وقت اقوام متحدہ کے ساتھ موغادیشو میں کام کر رہے تھے۔ وہ بی بی سی وٹنس ہسٹری کو بتاتے ہیں کہ ’کئی لوگ مر رہے تھے، اِسی لیے اقوام متحدہ اور امریکہ نے بھرپور قوت کے ساتھ مداخلت کا فیصلہ کیا۔‘
اُن کے مطابق جنرل فرح عیدید ’صومالیہ کے سب سے طاقتور وار لارڈ تھے جو ملک کے صدر بننا چاہتے تھے۔‘
امن فوج کے پاکستانی دستے میں شامل 24 اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد جنرل فرح عیدید ایک انتہائی مطلوب شخص بن چکے تھے اور صومالیہ میں جاری خانہ جنگی کو ختم کرنے کے لیے انھیں روکنا ناگزیر سمجھا جا رہا تھا۔
جنرل فرح عیدید اور ان کے کمانڈروں کی کھوج میں امریکی فورسز کے ہاتھوں کئی صومالی شہریوں کی ہلاکت مقامی سطح پر غصے کا باعث بن رہی تھی۔ بی بی سی کے نامہ نگار فرینک گارڈنر کے مطابق شروع میں امریکی فورسز کا صومالیہ میں خیر مقدم کیا گیا تھا مگر اب اُن کی کارروائیوں کے باعث اُن کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی تھی۔
تین اکتوبر کو امریکی فورسز نے موغادیشو کی بکارہ مارکیٹ میں واقع اولمپک ہوٹل میں جنرل عیدید کے کنٹرول والے علاقے میں آپریشن کا منصوبہ بنایا جس کے لیے ایک ایلیٹ ٹاسک فورس کو بھیجا گیا۔
ٹاسک فورس کے پاس خفیہ معلومات تھی کہ جنرل عیدید کے کمانڈر وہاں ایک اہم ملاقات کرنے کے لیے موجود ہوں گے۔ عبدالعزیز علی ابراہیم کے مطابق یہ ’دشمن کا علاقہ تھا، جہاں کیا گیا آپریشن بُری طرح ناکام ہوا۔‘
امریکی فورسز کی اس زمینی اور فضائی کارروائی میں سڑکوں پر بکتر بند گاڑیاں اور ٹرکوں کے ساتھ ساتھ فضا میں ہیلی کاپٹروں کا پہرہ تھا۔ تمام فوجی دستے اولمپک ہوٹل کی عمارت کی طرف گامزن تھے۔ بی بی سی کے سکیورٹی امور کے نامہ نگار فرینک گارڈنر کی رپورٹ کے مطابق اس آپریشن میں ہیلی کاپٹروں سمیت 19 ایئر کرافٹس (طیاروں)، 12 وہیکلز (گاڑیوں) اور 160 امریکی فوجیوں نے حصہ لیا تھا۔
ابتدا میں حکام کا خیال تھا کہ یہ آپریشن 90 منٹ میں ختم ہو جائے گا، تاہم اندازوں کے بالکل برعکس امریکی فورسز کی واپسی اگلے 17 گھنٹوں تک بھی ممکن نہ ہو سکی۔
دو بلیک ہاک ہیلی کاپٹر تباہ
اُس شام عبدالعزیز گاڑی چلا کر گھر جا رہے تھے۔ انھوں نے بی بی سی وٹنس ہسٹری کو بتایا کہ ’میں نے امریکیوں کو آتے دیکھا۔ اُن کے گزرتے ہی عیدید کی ملیشیا نے گلیوں میں رکاوٹیں لگانا شروع کر دیں۔ اب امریکی چاہ کر بھی گولی چلائے بغیر واپس نہیں جا سکتے تھے۔‘
’عیدید کے حامیوں کی یہ ملاقات میرے گھر سے قریب ہو رہی تھی۔ دن ساڑھے تین بجے امریکی دستے اس مقام تک پہنچ گئے جہاں ملاقات جاری تھی۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ عمارت کو نیچے سے محفوظ بنانے کے بعد امریکی دستے بلیک ہاک ہیلی کاپٹروں کے ذریعے چھت پر اُترنے لگے مگر اسی دوران عیدید کی ملیشیا نے فائرنگ شروع کر دی۔
مشن کے آغاز کے 50 منٹ بعد جنگجوؤں نے راکٹ لانچرز کی مدد سے پہلا بلیک ہاک مار گرایا اور اس کے لگ بھگ 20 منٹ بعد دوسرے بلیک ہاک کا بھی یہی انجام ہوا۔
عبدالعزیز کے مطابق ’مجھے یاد ہے جب پہلا ہیلی کاپٹر مار گرایا گیا تو یہ میرے گھر سے 700 گز سے بھی کم فاصلے پر ِگرا۔ امریکی دستے اس ہیلی کاپٹر کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے، اُسی وقت ملیشیا نے دوسرا بلیک ہاک ہیلی کاپٹر مار گرایا۔ صورتحال یکسر بدل گئی۔‘
مار گرائے گئے ایک بلیک ہاک ہیلی کاپٹر کے امریکی پائلٹ مائیکل ڈیورنٹ یاد کرتے ہیں کہ دونوں بلیک ہاکس پر آر پی جی سے گرینیڈ داغے گئے اور یہ گھومتے ہوئے نیچے گر کر تباہ ہو گئے۔
مائیکل ڈیورنٹ نے بی بی سی وٹنس ہسٹری کو بتایا تھا کہ ’ہم 70 فٹ کی بلندی پر تھے اور حملے کے 15 سیکنڈ بعد ہم نیچے جا گرے۔۔۔ جیسے ہی 10 سے 15 منٹ میں ڈیلٹا فورس کے دو کمانڈو ہمیں بچانے کے لیے آئے تو دشمن کو ہماری موجودگی کا علم ہو گیا۔‘
زمین پر موجود امریکی دستوں نے مار گرائے گئے ہیلی کاپٹروں تک پہنچنے کی کوشش کی مگر ہر طرف فائرنگ کی گونج تھی اور بظاہر امریکی فورسز کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا تھا۔
عبدالعزیز کہتے ہیں کہ ’صومالی ملیشیا کے ارکان ہر طرف فائرنگ کر رہے تھے، انھیں جہاں بھی امریکی نظر آتا تو وہ گولی چلا دیتے۔ امریکی جوابی فائرنگ کر رہے تھے۔ یہ صورتحال اگلی صبح تک جاری رہی۔ یعنی قریب 18 گھنٹے تک۔‘
ڈیلٹا کمانڈوز کی ہلاکت کے بعد دوسرے ہیلی کاپٹر کے ملبے کے قریب صرف مائیکل زندہ بچے تھے۔ مار گرائے گئے دوسرے ہیلی کاپٹر تک کوئی امریکہ دستہ نہیں پہنچ پا رہا تھا جہاں مائیکل ڈیورنٹ ٹوٹی ہوئی ٹانگ اور کمر پر زخموں کے ساتھ گرے پڑے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے یقین ہو چلا تھا کہ اس گولہ باری میں، میں اپنی جان گنوا دوں گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ملیشیا کے جنگجوؤں نے وہاں انھیں اچانک دیکھ لیا اور تشدد کرنے لگے۔ ’(لیکن) وہاں ایک جنگجو کو احساس ہوا کہ بطور قیدی میری اہمیت زیادہ ہو سکتی ہے چنانچہ اُس نے گولیاں چلا کر باقیوں کو روکا۔۔۔ اور مجھے قید کر لیا گیا۔‘
پاکستانی ٹینک ’سب سے پہلے پہنچے اور سب سے آخر میں نکلے‘
امریکی فوجیوں صومالی ملیشیا کے نرغے میں بُری طرح پھنس چکے تھے۔ انھیں بچانے کے لیے ایک ریسکیو آپریشن پلان ترتیب دیا گیا جس کے تحت پاکستانی، ملائیشین اور امریکی افواج پر مشتمل اقوام متحدہ کے دستوں کو رات گئے متاثرہ علاقے کی جانب روانہ کیا گیا۔
اتنے گھنٹے گزرنے کے باوجود وہاں دونوں گروہوں کے بیچ فائرنگ جاری تھی۔ اس وقت تک فضا میں موجود بقیہ امریکی ہیلی کاپٹر واپس بلا لیے گئے تھے۔
اقوام متحدہ کی درخواست پر اس ریسکیو آپریشن میں پاکستانی دستوں نے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں سمیت حصہ لیا تھا جبکہ امریکی فوجیوں کی واپسی کے لیے تین خالی بکتر بند گاڑیاں بھی لے جائی گئیں۔
پاکستانی فوج کے انسٹیٹیوٹ آف ملٹری ہسٹری کے میگزین ’بگل اینڈ ٹرمپٹ‘ کے لیے ایک تحریر میں ڈاکٹر انصار نقوی لکھتے ہیں کہ امریکی فوجیوں کو بچانے کے اس ریسکیو آپریشن میں پاکستانی اور ملائیشین دستوں نے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔
اُن کے مطابق ریسکیو ٹیم رات 11 بجے بندرگاہ سے روانہ ہوئی جس میں سب سے آگے پاکستانی دستے اور اُن کے بعد امریکی اور ملائیشین دستے لڑائی کے مقام کی طرف گامزن تھے۔
ڈاکٹر انصار نقوی کے مطابق پاکستانی فورسز کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ کوئیک رسپانس فورس کو بندرگاہ سے اولمپک ہوٹل تک لے جانا ہے، علاقے کا محاصرہ (کارڈن) کرنا ہے، فائر سپورٹ دینا ہے اور جب رینجرز کو ریسکیو کر لیا جائے تو ان کا محفوظ انخلا یقینی بنانا ہے،یعنی اس ریسکیو آپریشن میں پاکستانی فورسز کو سب سے پہلے اندر جانا تھا اور سب سے آخر میں باہر آنا تھا۔
ایک ٹینک آپریٹر رسالدار افتخار نے انصار نقوی کو دیے ایک انٹرویو میں اس آپریشن کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی ٹینک اس ریسکیو کی قیادت کر رہے تھے مگر ان میں نائٹ ویژن یعنی اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت نہیں تھی اور تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے انھیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
اس تاریکی کے باوجود ریسکیو ٹیم دونوں ہیلی کاپٹروں کے ملبے تک پہنچنے میں کامیاب رہی اور پلان کے مطابق شدید فائرنگ کے تبادلے کے دوران آہستہ آہستہ پھنسے ہوئے امریکی فوجیوں کو بازیاب کیا جانے لگا۔ جبکہ کوئیک رسپانس ٹیم کا ایک گروپ ملیشیا پر جوابی فائرنگ کر رہا تھا۔
انصار نقوی لکھتے ہیں کہ رات تین بجے کے قریب ٹینکوں کا ایندھن ختم ہونے لگا تھا کیونکہ یہ تین گھنٹوں سے چل رہے تھے اور انھیں باری باری ری فیولنگ یعنی ایندھن بھرنے کے لیے بھیجا گیا۔
ملائیشین دستے میں شامل دو بکتر بند گاڑیوں پر راکٹ لانچر سے حملے کیے گئے اور اس ریسکیو آپریشن کے دوران ایک ملائیشین اور ایک پاکستانی فوجی کی ہلاکت بھی ہوئی۔
مارک باؤڈن کی کتاب ’بلیک ہاک ڈاؤن‘ کے مطابق اس بڑی ریسکیو فورس میں امریکی فوجیوں سمیت امن فوج کے سینکڑوں اہلکاروں کے ساتھ ساتھ چار پاکستانی ٹینک اور 28 ملائیشین آرمرڈ وہیکلز شامل تھیں۔
بعدازاں پی بی ایس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اس بات کا ادراک اُس وقت صومالیہ میں امریکی فورسز کے کمانڈر جنرل تھامس منٹگمری نے بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ریسکیو ٹیم میں پاکستانی ٹینکوں میں نائٹ ویژن کی صلاحیت نہیں تھی مگر یہ صف اول میں تھے، تنگ راستوں سے گزرتے ہوئے اُن کی رفتار کم تھی اس کے باوجود آپریشن کامیاب رہا۔‘
جنرل منٹگمری کے مطابق موغادیشو میں صرف آٹھ ٹینک تھے جن میں سے صرف چار آپریشنل یعنی فعال تھے۔ ان کے مطابق یہ پرانے امریکی ٹینک ایک دور میں پاکستان کو دے دیے گئے تھے اور اب انھیں استعمال میں لانے کی درخواست کی گئی تھی۔
ایک انٹرویو میں جنرل منٹگمری نے کہا تھا کہ انھیں اس ریسکیو آپریشن میں شامل پاکستانی اور ملائیشین فوجیوں پر فخر ہے۔
مارک باؤڈن کی کتاب بلیک ہاک ڈاؤن کے مطابق موغادیشو کا فٹبال سٹیڈیم، جہاں پاکستانی ہیڈکوارٹر قائم تھا، کا گراؤنڈ ریسکیو کیے گئے زخمی فوجیوں سے بھر چکا تھا اور اُن کے جسموں پر سنگین چوٹیں تھیں جس کی وجہ سے کئی زخمیوں کے کپڑے پھاڑ کر زخموں کا علاج کیا جا رہا تھا۔
تاہم اس ریسکیو آپریشن کے بارے میں سنہ 2001 میں بننے والی معروف فلم ’بلیک ہاک ڈاؤن‘ میں پاکستانی شراکت داری کو نظر انداز کیے جانے کا الزام لگایا گیا تھا۔ جیسے سابق پاکستانی فوجی صدر جنرل مشرف نے اپنی کتاب ’اِن دی لائن آف فائر‘ میں لکھا کہ ’افسوس ہے کہ فلم بلیک ہاک ڈاؤن میں صومالیہ میں ملائیشیا اور پاکستان کے کردار کو نظر انداز کیا گیا۔ جب امریکی فوجی موغادیشو کے گنجان آباد علاقے میں پھنس گئے تو یہ پاکستانی فوج کی ساتویں فرنٹیئر فورس رجمنٹ تھی جس نے وہاں پہنچ کر انھیں ریسکیو کیا۔ بے شک امریکی فوجیوں نے بہادری دکھائی مگر ہم برابر کے مستحق تھے، اگر زیادہ نہیں تو۔ مگر فلم سازوں نے اس واقعے کو ایسے ظاہر کیا جیسے یہ صرف امریکیوں کے گرد ہی گھومتا ہے۔‘
’بلیک ہاک ڈاؤن‘ نے امریکی خارجہ پالیسی کو کیسے متاثر کیا؟
اُس رات عبدالعزیز نے ’صومالی شہریوں کی خون میں لت پت کئی لاشیں دیکھیں۔ میں ان کی مدد نہیں کر سکتا تھا، نہ ہی انھیں دفنا سکتا تھا۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔‘
موغادیشو کی اس لڑائی میں 18 امریکی فوجیوں کی ہلاکت ہوئی تھی جبکہ سو سے زیادہ صومالی شہری بھی مارے گئے۔
مرنے والے بعض امریکی فوجیوں کی لاشیں واپس نہیں لائی جا سکیں جنھیں جنرل عیدید کے حامیوں نے سڑکوں پر گھسیٹا۔ ان مناظر نے امریکہ میں کئی لوگوں کو اشتعال دلایا۔
عبدالعزیز بتاتے ہیں کہ ’وہ مردہ امریکی فوجیوں کو موغادیشیو کی گلیوں میں گھسیٹ رہے تھے اور وہ لوگ اس کا جشن منا رہے تھے، وہ عیدید کے حامی تھے، تمام صومالی نہیں۔‘ مائیکل ڈیورنٹ کو ٹی وی سکرینوں پر بطور یرغمالی دکھایا گیا۔
جنرل عیدید کی قید میں مائیکل ڈیورنٹ نے 11 دن گزارے۔ کچھ دنوں بعد امریکہ نے چھ ماہ کے اندر صومالیہ سے اپنے تمام فوجی دستوں کے انخلا کا اعلان کیا، اس اعلان کے کچھ ہی دنوں بعد ڈیورنٹ کو رہا کر دیا گیا۔
امریکی خارجہ پالیسی پر اس آپریشن کے اِس قدر نتائج ہوئے کہ اس کے بعد سے اس نے افریقہ میں کسی بھی بحران میں مداخلت کرنے میں ہچکچاہٹ دکھائی۔
اس آپریشن میں زندہ بچنے والے امریکی فوجی جیف سٹریکر نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’20ویں صدی کے اواخر میں بلیک ہاک ڈاؤن نے امریکہ اور اس کی خارجہ پالیسی کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ مجھے یقین ہے کہ صومالیہ سے امریکی انخلا وہ وجہ تھی کہ امریکہ نے روانڈا میں نسل کشی میں مداخلت نہیں کی۔‘
عبدالعزیز کے بقول عیدید کی ملیشیا کے لیے امریکی ہیلی کاپٹروں کو مار گرانا ایک بڑی کامیابی تھی لیکن ’ہمارے (صومالیہ کے) لیے یہ صرف تباہی تھی۔‘