پی آئی اے کے لیے صرف 10 ارب روپے کی بولی: کیا ’باکمال لوگوں‘ کی ایئرلائن کی نجکاری میں حکومت بری طرح پھنس گئی؟

بی بی سی نے ماہرین، نجکاری کمیشن کے حکام، بلیو ورلڈ سٹی اور پی آئی اے کے حکام سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ قومی ایئر لائن کی نجکاری کے لیے 85 ارب کی رقم کیسے مختص کی گئی؟ بلیو ورلڈ سٹی نے اس کے مقابلے میں صرف 10 ارب روپے کی پیشکش کیوں کی اور کیا اب پی آئی اے کی نجکاری مزید مشکلات کا شکار ہو جائے گی؟
پی آئی اے
Getty Images

’باکمال لوگ۔۔۔لاجواب سروس‘ پاکستان کے معروف شاعر فیض احمد فیض نے یہ جملہ پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کے لیے لکھا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا بھر سے نہ صرف مسافر اس فضائی سروس کے ذریعے سفر کرنے کو فخر سمجھتے تھے بلکہ بہت سی خلیجی ریاستوں کی فضائی کمپنیوں کے عملے کی تربیت سازی بھی اس قومی ادارے کے سپرد تھی۔

مگر پھر وقت کی اڑان تیز اور پی آئی اے کی سروس سست اور معیار گرتا چلا گیا۔ اگرچہ اس کی بہت سی سیاسی و معاشی وجوہات رہی مگر ان پر بات کسی اور وقت کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ ’باکمال لوگ۔۔۔ لاجواب سروس‘ کا یہ جملہ قومی ائیر لائن کی گرتی سروس پر ایک طنز بن کر رہ گیا اور اس طنز نے بہت سے مواقع پر حقیقت کی شکل بھی اختیار کی۔

ایسا ہی کچھ رواں ہفتے جمعرات کو بھی ہوا جب زبوں حالی اور اربوں روپے خسارے کے نیچے دبی ہوئے اس قومی ادارے کی نجکاری کے لیے بولی لگائی گئی۔

آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت پاکستان کو اپنے خسارے میں چلنے والے چند قومی اداروں کی نجکاری کرنا ہے اور اسی سلسلے میں قومی ائیرلائن کی نجکاری کے سلسلے میں جمعرات کو اسلام آباد میں بولی لگائی گئی۔

پاکستان کے نجکاری کمیشن کی جانب سے بولی سے قبل اس کی کم از کم متوقع قیمت 85 ارب روپے رکھی گئی تھی تاہم پاکستان کی قومی ایئر لائنز پی آئی اے کی نجکاری کے سلسلے میں ایک نجی کمپنی کی طرف سے اسے محض 10 ارب روپے میں خریدنے کی پیشکش کی گئی ہے۔

تاہم اس کمپنی کی جانب سے اس بولی کا جائزہ آنے والے کچھ دنوں میں پاکستان کی وفاقی کابینہ لے گی۔ یعنی یہ فیصلہ ابھی بھی ہونا باقی ہے کہ آیا اس بولی کو منظور کیا جائے گا یا مسترد۔

رواں ہفتے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے ساٹھ فیصد حصص کی فروخت کے لیے ریئل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ کمپنی ’بلیو ورلڈ سٹی‘ نے 85 ارب روپے کی کم از کم متوقع قیمت کے مقابلے میں صرف 10 ارب روپے کی بولی جمع کرائی، جو ریفرنس پرائس کا تقریباً 12 فیصد حصہ بنتا ہے۔

پی آئی اے گذشتہ کئی برسوں سے خسارے کا شکار ہے اور اس کا شمار حکومتی سرپرستی میں چلنے والے ان اداروں میں ہوتا ہے جو قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچاتے ہیں۔

گذشتہ ادوار میں انتظامی تبدیلیوں کے ذریعے بہتری لانے کی تمام تر کوششوں کے بعد پی آئی اے کی نجکاری کی کئی کوششیں بھی ناکام ہوئی ہیں۔

اب پی آئی اے کی فروخت کے لیے بولی تو جمع کر دی گئی ہے تاہم آفر کی جانے والی رقم انتہائی کم ہونے کی وجہ سے کہا جا رہا ہے کہ غالباً پاکستان کی وفاقی کابینہ نجکاری کمیشن کے بورڈ کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے اسے مسترد کر دے گی۔

جمعرات کو ریفرنس پرائس سے کم بولی لگائے جانے کے بعد کابینہ کمیٹی برائے نجکاری (سی سی او پی) نے پی سی بورڈ کی جانب سے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے 60 فیصد حصص کی تقسیم کے لیے تجویز کردہ ریفرنس قیمت کی توثیق کی جو بولی کی دستاویز کی شرائط و ضوابط کے ساتھ مشروط ہے۔

بی بی سی نے ماہرین، نجکاری کمیشن کے حکام، بلیو ورلڈ سٹی اور پی آئی اے کے حکام سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ قومی ایئر لائن کی نجکاری کے لیے 85 ارب کی رقم کیسے مختص کی گئی؟ بلیو ورلڈ سٹی نے اس کے مقابلے میں صرف 10 ارب روپے کی پیشکش کیوں کی اور کیا اب پی آئی اے کی نجکاری مزید مشکلات کا شکار ہو جائے گی؟

PIA
Getty Images

85 ارب بولی کی ریفرنس پرائس کا فیصلہ کس بنیاد پر کیا گیا؟

نجکاری کمیشن کے ایک سینیئر عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نے کرنے کی شرط پر بتایا کہ 85 ارب روپے کی رقم نجکاری کمیشن کے مالیاتی امور کے ماہر تمام تر حساب کتاب لگا کر نجکاری کمیشن کے بورڈ کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھر نجکاری کمیشن کا بورڈ اسے کابینہ میں پیش کرتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’85 ارب روپے کی ریفرنس پرائس بھی اسی عمل کے تحت طے کی گئی۔‘

اس بارے میں پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان کا اس متعلق کہنا ہے کہ قومی ایئر لائن کے پاس اس وقت 33 طیارے ہیں جن میں 17 اے 320 ، 12 بوئنگ 777 اور چاراے ٹی آر شامل ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’حکومت کی مقرر کردہ بولی کی قیمت پی آئی اے کی مجموعی بک ویلیو یعنی کتابی قیمت پر مبنی ہے جبکہ اثاثوں کی اصل قیمت کتابی قیمت سے زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بک ویلیو کا حساب سالانہ کمی کے بعد لگایا جاتا ہے اور بعض اوقات مارکیٹ میں قیمت کے اضافے کی وجہ سے اصل قیمت کتابی قیمت سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس وقت پی آئی اے کے مجموعی اثاثوں کی بک ویلیو (کتابی قیمت) تقریباً 165 ارب روپے اور 60 فیصد شیئرز کی مالیت تقریباً 91 ارب روپے بنتی ہے۔ حکومت نے خریداروں کو راغب کرنے کے لیے کم از کم بولی 85 ارب روپے مقرر کی۔‘

اس ضمن میں بی بی سی نے پاکستان کے وفاقی وزیر نجکاری علیم خان، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ اور وفاقی نجکاری کمیشن کے سیکرٹری عثمان اختر باجوہ سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

چھ بولی دہندگان میں سے پانچ کیوں اس عمل سے باہر رہے؟

کیا پاکستانی حکومت واقعی میں پی آئی اے کی نجکاری کرنے میں سنجیدہ ہے، جمعرات کو بولی لگانے کی تقریب کو دیکھ کر تو ایسا محسوس ہوا جیسے نجکاری کمیشن نے نیشنل فلیگ کیریئر کی نجکاری کو سنجیدہ نہیں لیا۔

پی آئی اے کی فروخت کے لیے نجکاری کمیشن نے ابتدائی طور پر چھ بولی دہندگان کو اہل قرار دیا تھا تاہم ان چھ میں سے صرف ایک کمپنی نے اپنی بولی جمع کروائی جبکہ پانچ اس عمل سے دور رہے۔

یاد رہے کہ حکومت نے ایئر بلیو لمیٹڈ، عارف حبیب کارپوریشن لمیٹڈ، ایئر عربیہ کی فلائی جناح، وائی بی ہولڈنگز پرائیویٹ، پاک ایتھنول پرائیویٹ اور بلیو ورلڈ سٹی کو قومی ایئرلائنز میں اکثریتی حصص کے لیے شارٹ لسٹ کیا تھا۔

واضح رہے کہ مئی 2024 کے دوران وفاقی وزیر برائے نجکاری عبدالعلیم خان نے کہا تھا کہ ’830 ارب روپے خسارے والے ادارے پی آئی اے کی نجکاری ملک و قوم کے مفاد میں ہے۔‘

خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق صحافیوں سے گفتگو کے دوران انھوں نے کہا تھا کہ ’(ہم) پی آئی اے کے تمام واجبات ادا کر کے اسے بغیر کسی بوجھ کے پرائیویٹائز کر رہے ہیں جو سود مند ثابت ہوگا کیونکہ تمام پاکستانی ایئر لائنز کا مجموعی حجم ملا کر بھی پی آئی اے کے مقابلے میں کم ہے۔‘

وفاقی وزیر نجکاری علیم خان نے یہ بھی کہا تھا کہ ’پی آئی اے کی سعودی عرب کے لیے حج اور عمرے کی پروازیں انتہائی منافع بخش روٹ ہے۔ اسی طرح یورپ، امریکہ اور کینیڈا کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک کے لیے پی آئی اے کی بلا واسطہ فلائٹس مسافروں کے لیے بہترین آپشن ہو گا۔‘

پھر ایسا کیا ہوا کہ اتنی بڑی فضائی کمپنی کی خریداری کے لیے صرف ایک کمپنی ہی سامنے آئی۔

پی آئی اے کی فروخت کے لیے بولی میں شامل نہ ہونے والے تین گروپس کے عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ انھیں مستقبل میں حکومت کے اس معاہدے پر پورا اترنے کی صلاحیت کے بارے میں خدشات ہیں۔

حکومتی شرائط کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سابق گورنر سندھ اور سابق وزیر نجکاری محمد زبیر نے کہا کہ کسی بھی ادارے کی نجکاری کے معاملے میں سب سے بڑا مسئلہ ملازمین کا سامنے آتا تھا۔

’پی آئی اے کے ملازمین کی تعداد تقریباً سات ہزار ہے۔ مثال کے طور پر خریدنے والی کمپنی یہ کہے کہ اسے سات ہزار نہیں بلکہ چار ہزار ملازمین کو رکھنا ہے تو سوال ہے کہ وہ ان چار ہزار کا انتحاب کیسے کریں گے۔ اگر آپ یہ شرط رکھیں دیں گے کہ آپ نے سات کے سات ہزار رکھنے ہیں تو کون سارے ملازمین کو رکھے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے علاوہ ٹیکس کی مد میں واجبات کا بھی مسئلہ تھا۔ اس حوالے سے مختلف پارٹیز حکومت سے یقین دہانی چاہتی تھیں کہ اگر مستقبل میں کوئی ٹیکس واجبات سامنے آئیں گے تو وہ اس کی ذمہ داری لیں گے۔‘

جہاں دیگر بولی دہندگان حکومتی معاہدے اور شرائط و ضوابط کے پیش نظر بولی لگانے کے عمل سے باہر رہے وہیں یہ سوال بھی موجود ہے کہ جس فضائی کمپنی کی مجموعیبک ویلیو کے متعلق 165 ارب روپے کے دعوے کیے جا رہے ہیں اس کی بولی صرف 10 ارب روپے کیوں لگائی گئی؟

اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ہم نے پی آئی اے کے لیے بولی جمع کروانے والی ریئل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ کمپنی بلیو ورلڈ سٹی سے رابطہ کیا۔

PIA
Getty Images

بلیو ورلڈ سٹی نے صرف 10 ارب روپے کی پیشکش کیوں کی؟

بلیو ورلڈ سٹی کے سربراہ سعد نذیر کے مطابق ان کی کمپنی نے اس سلسلے میں آئرلینڈ کی ایک کنسلٹنگ کمپنی ’سائرس ایوی ایشن‘ کی خدمات حاصل کی ہیں۔

سعد نذیر نے بی بی سی کو بتایا کہ پی آئی اے کے 60 فیصد حصص خریدنے کی بولی میں دس ارب روپے اس لیے لگائے گئے کیونکہ ’کنسلٹنگ کمپنی نے ہمیں کہا کہ اس کی بولی ایک ڈالر لگنی چاہیے کیونکہ اس کمپنی پر 203 ارب روپے کا قرضہ ہے اور اس سے پہلے اس پر آٹھ سو ارب کا قرضہ تھا۔ جس کے بعد حکومت نے ایک ہولڈ کو کمپنی بنا کر 600 ارب کا قرضہ وہاں منتقل کر دیا۔‘

سعد نذیر نے واضح کیا کہ ’ایک ایسی کمپنی جس کے اثاثے، پی آئی اے اور نجکاری کمیشن کے مطابق 150 ارب روپے کے ہیں، تو ہم نے جب اس کا جائزہ لیا تو ہمیں پتا چلا کہ حقیقت میں ان اثاثوں کی قیمت صرف 10 سے گیارہ ارب روپے بنتی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ پی آئی اے کی خام خیالی ہے کہ ان کے پاس فضائی روٹس ہیں، یورپی ممالک کے مہنگے روٹس ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ روٹس بند ہو چکے ہیں اور ان کی بحالی کا کوئی امکان نہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’جو بھی پرائیویٹ کمپنی آئے گی اسے پی آئی اے میں بڑی سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔ ان کے 20 جہاز اس وقت ورکنگ حالت میں ہونے چاہیے تھے لیکن ان کے سب طیارے مارچ 2025 میں گراؤنڈ ہونے والے ہیں۔ ان کو بھی بحال کرنے کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہو گی۔‘

وہ کہتے ہیں ’جس چیز کی مالیت ایک ڈالر ہے، اس کی دس ارب کی بولی ہم نے صرف ان کی اور اپنی عزت رکھنے کے لیے کی۔ یہاں فیصلے حقیقت پر کم بلکہ عوامی تاثر پر زیادہ کیے جاتے ہیں۔ تو اس تاثر کو اپنے اور ان کے لیے عزت افزا بنانے کے لیے ہم نے معقول رقم آفر کی ورنہ حقیقیت میں اس کی قیمت 278 روپے یعنی ایک ڈالر ہی ہے۔‘

انھوں نے اپنے موقف سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’اور اس بات کی دلیل یہ ہے مفتاح اسماعیل نے پارلیمنٹ میں یہ بات کی تھی کہ کوئی ایک روپے میں بھی پی آئی اے خرید لے تو ہمیں ہاتھ جوڑ کر انھیں پی آئی اے سونپ دینی چاہیے۔‘

اگر پی آئی اے اتنی خراب ہے تو آپ اسے کیوں خرید رہے ہیں؟

اس سوال کے جواب میں بلیو ورلڈ سٹی کے سربراہ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ پاکستان کی معاشی حالت کو بہتر کرنے کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔

’ہر انسان کاروبار کی عینک سے ہی دنیا کو نہیں دیکھتا۔ ہم پاکستان کی معاشی بحالی کے لیے میدان میں آئے ہیں۔ ہم ہر شعبے میں پاکستان کو کھڑا کرنے کی کوشش کریں گے۔‘ ‘

انھوں نے دبئی کی مثال دیتے ہوئے اپنے عزائم کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دوسری وجہ یہ کہ ہم ایک ’سیاحتی شہر‘ بنا رہے ہیں، آپ دبئی پر بنی دستاویزی فلمیں دیکھیں تو ان میں بتایا جاتا ہے کہ دبئی کا بزنس ماڈل ایوی ایشن، سی پورٹس، سیاحت اور رئیل اسٹیٹ کے سر پر کھڑا ہوا ہے۔‘

سعد نذیر نے کہا کہ ’سی پورٹ تو پاکستان کے پاس ہے لیکن اس کی ایئرلائن اور ایئرپورٹس زبوں حالی کا شکار ہیں جبکہ سیاحت اور ریئل اسٹیٹ کو ایسے نہیں دیکھا جاتا، جیسے خلیجی ممالک نے اس کا استعمال کر کے اپنے ملکوں کو معاشی ہب بنایا۔ ہم پاکستان کے لیے یہ سب کرنا چاہتے ہیں۔‘

اس حوالے سے سابق وزیر نجکاری محمد زبیر کہتے ہیں کہ ’اس بولی کے لیے کوئی بھی بین الاقوامی سرمایہ کار سامنے نہیں آیا تو پھر حکومت کو بولی کی ریفرنس پرائس 85 ارب کی بڑی رقم مقرر نہیں کرنی چاہیے تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ بلیو ورلڈ سٹی نے اتنی کم بولی اس لیے لگائی کیونکہ ان کے علاوہ کوئی خریدار سامنے ہی نہیں آیا۔

سابق وزیر نجکاری محمد زبیر کا کہنا ہے کہ ’حکومت اب برے طریقے سے پھنس گئی ہے۔ اوپر سے آئی ایم ایف کی تلوار لٹک رہی ہے۔ بلیو ورلڈ سٹی کو پتا تھا کہ حکومت نے اسے بیچنا ہی ہے تو انھوں نے اس لیے اس کی بہت کم قیمت لگائی۔‘

PIA
Getty Images

’پی آئی اے کا نام تو بدنام ہے لیکن پھر بھی یہ برانڈ ہے‘

ایک ریئل سٹیٹ کمپنی کو بولی کے لیے کیوں اہل قرار دیا گیا؟ کیا ایک رئیل اسٹیٹ کمپنی بنا تجربے کے کوئی ایئر لائن چلا سکتی ہے؟

اس سوال کے جواب دیتے ہوئے ماضی میں پی آئی اے کے شعبہ مارکیٹنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سربراہ رہنے والے ارشاد غنی نے بی بی سی کو بتایا کہ پی آئی اے کے لیے بولی لگا کر کوئی صرف نام کے علاوہ کیا حاصل کرے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پی آئی اے کا نام تو بدنام ہے لیکن پھر بھی یہ برانڈ ہے۔‘

جبکہ پی آئی اے کے ترجمان اور تعلقات عامہ کے جنرل مینیجر عبداللہ حفیظ کہتے ہیں کہ بلیو ورلڈ سٹی نے پی آئی اے کی بولی بہت کم لگائی۔

ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کے پاس اس وقت 33 طیارے موجود ہیں جبکہ اس کے مشرق وسطیٰ سمیت چین، ترکی، ملائیشیا اور کینیڈا تک کے روٹس ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’صرف پی آئی اے کے ہیتھرو روٹس کی مالیت بولی کی قیمت سے تین گنا زیادہ ہے، کمپنی کی منسلک جائیدادیں اور 33 کے طیاروں کا بیڑہ اس کے علاوہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اتنی بڑی فضائی کمپنی کے لیے 10 ارب روپے کی بولی لگانا ایک مذاق اور اسے ایک ڈالر کی مالیت کا کہنا، طنز کے سوا کچھ نہیں۔‘

عبداللہ حفیظ کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کے ملازمین کی تعداد 7100 جبکہ یومیہ اجرت پر کام کرنیوالوں کی تعداد 2400 سے زیادہ ہے۔

کیا اب پی آئی اے کی نجکاری مزید مشکل ہو جائے گی؟

محمد زبیر کے مطابق اگر حکومت پاکستان بلیو ورلڈ سٹی کی پیشکش کو رد کر دیتی ہے تو اس سے صرف پی آئی اے نہیں بلکہ نجکاری کا پورا عمل ہی متاثر ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ ’سات برس کے بعد نجکاری کی طرف یہ پہلا بڑا قدم تھا جس کے ذریعے پاکستان نے صرف اپنے ملک میں ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک کو بھی یہ پیغام دینا تھا کہ ہم نجکاری کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔ ہم نے آئی ایم ایف سے بھی کہا تھا کہ ہم نجکاری کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔‘

ان کا پی آئی اے کی نجکاری کے متعلق مزید کہنا تھا کہ ’پبلک سیکٹر اداروں کی وجہ سے پاکستان کو ایک کھرب روپے تک کا نقصان ہوتا ہے اور پاکستان کی معاشی بدحالی میں یہ اہم عنصر ہے۔ اب پی آئی اے نہیں بلکہ بہت سے دیگر ادراوں کی نجکاری پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔‘

محمد زبیر کہتے ہیں کہ پی آئی اے سالانہ 100 ارب کا نقصان کر رہی ہے، پی آئی اے کی نجکاری کا پہلا مقصد یہ ہے کہ اس نقصان کی وجہ سے حکومت اور عوام پر جو بوجھ پڑ رہا ہے، اسے ختم کیا جائے۔

دوسرا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ آپریشن نہ صرف جاری رہیں بلکہ یہ بڑھیں بھی اور ایئر لائن کی سروس کا معیار بھی بہتر ہو۔

https://twitter.com/GovernmentKP/status/1852330858667233507

اب کابینہ اس بولی کو رد کرتی یا قبول کرتی ہے اس کا فیصلہ تو آنے والے چند دنوں میں ہو گاکیونکہ ضابطے کے مطابق نجکاری کمیشن اس بولی کو وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کرے گا۔

دوسری طرف نینشل کیرئیر کی اس کم قیمت کی بولی کے بعد پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) خریدنے میں دلچسپی کا اظہار کر دیا ہے۔

خیبر پختونخوا بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ کی جانب سے وفاقی وزیر نجکاری علیم خان کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ حکومت خیبر پختونخوا پی آئی اے کی نیلامی کے عمل میں حصہ لینا چاہتی ہے، پی آئی اے قومی ایئرلائن ہے، نہیں چاہتے کہ یہ بیرونی یا نجی ہاتھوں میں جائے۔

صوبائی حکومت کے بورڈ نے خط میں مزید لکھا ہے کہ نجی کمپنی کی 10 ارب روپے سے زیادہ سے نیلامی شروع کرنے کو تیار ہیں، وفاقی حکومت ہماری درخواست قبول کرے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.