نوعمری کے تعلقات اور استحصال: ’میری بیٹی اپنے قاتل کے رویّے میں بدسلوکی کو پہچان نہیں پائی‘

میکفیل کی عمر 17 برس تھی جب انھوں نے جنوری 2023 میں ہولی کو چاقو کے وار کر کے قتل کر دیا۔ ہولی کی والدہ میکالا چاہتی ہے کہ دیگر نوجوان بھی ان تنبیہی علامات کو پہچان لیں اور یہ کہ نوجوانوں کے درمیان گھریلو تشدد کو قانونی طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔
بچے
Getty Images

چودہ سالہ ہولی نیوٹن کو ان کے بوائے فرینڈ نے استحصال سے بھرا رشتہ ختم کرنے پر قتل کر دیا۔ قاتل اب جیل میں ہے تاہم ہولی کے خاندان اور پولیس کا کہنا ہے کہ ان کی کہانی باقی نوجوانوں کے لیے ایک سبق ہے۔

ہولی کی والدہ میکالا ٹرسلر کا کہنا ہے کہ ہولی کو اپنی موقت سے ایک دن پہلے تک یہ اندازہ ہی نہیں ہوا کے وہ گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ اسے اندازہ بھی تھا کہ وہ اس کے ساتھ کیا کر رہا ہے، حتیٰ کہ اس پر اختیار جمانا بھی استحصال کی ایک قسم ہے۔‘

میکالا کا کہنا ہے کہ لوگن میکفیلہولی کے پہلے اور واحد بوائے فرینڈ تھے۔ وہ دونوں آرمی کیڈٹ میں ملے اور 18 ماہ تک روایتی نوجوانوں کی طرح رشتہ میں رہے۔

وہ ویک اینڈ ان کے خاندان کے ساتھ گزراتا تھا۔ میکالا کے پاس ان دونوں کی اس گھر میں گانے گانے اور ڈانس کرنے کی ویڈیوز ہیں۔

لیکن جب ہولی نے رشتہ ختم کا فیصلہ کیا تو میکفیل نے اسے ’جذباتی طور پر بلیک میل‘ کرنا شروع کر دیا اور کہا کہ وہ خود کو نقصان پہنچا لے گا اور گھریلو تشدد کی تمام علامات ظاہر کیں۔

وہ کہتی ہیں ’وہ ہولی کے لیے جنونی تھا۔ اگر وہ اس کی تھی تھی تو کسی کی نہیں ہو سکتی تھی۔‘

میکفیل کی عمر 17 برس تھی جب انھوں نے جنوری 2023 میں ہولی کو چاقو کے وار کر کے قتل کر دیا۔

یہ بہت خوفناک حملہ تھا اور میکفیل نے ایک منٹ میں خننجر کے 36 وار کیے۔

انھوں نے قتل کے مقدمے کے دوران اعتراف کیا کہ یہ رشتہ شاید بدسلوکی اورکڑواہٹ سے بھرا تھا۔

میکالا کا کہنا ہے کہ میکفیل در اصل ہولی کو کنٹرول کرنا چاہتا تھا اور جاننا چاہتا تھا کہ ’وہ سارا وقت کہاں رہتی ہے۔‘

ہولی کو جب مسائل نطر آنے لگے تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

میکالا چاہتی ہے کہ دیگر نوجوان بھی ان تنبیہی علامات کو پہچان لیں اور یہ کہ نوجوانوں کے درمیان گھریلو تشدد کو قانونی طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نوجوان بہت کم عمر ی میں تعلقات استوار کر رہے ہیں۔ ‘

’کسی کو کچھ نہیں بتایا‘

عینی (ان کا اصلی نام نہیں)جب 15 سال کی تھیں تو ان کا رشتہ بھی بدسلوکی سے پُر تھا۔وہ بتاتی ہیں کہ ’وہ مجھے وہ سب پہننے نہیں دیتا تھا جو میں پہننا چاہتی تھی۔ میں نے ایک بار جا کر اپنے بال کٹوائے اور وہ اس سے خوش نہیں تھا۔ اس نے مجھے میرے سر پر ایک بیگ رکھنے کے لیے کہا۔‘

عینی جو اب اپنی عمر کے20 ویں سال میں ہیں کہتی ہیں کہ ’وہ مجھے میں خامیاں نکالتا رہتا میرے وزن کے بارے میں، میری جِلدکا کیونکہ میں ایگزیما میں مبتلا ہوئی تھی اور اسے یہ پسند نہیں تھا اور اس نے اس کا مذاق اڑایا۔‘

’میں زیادہ میک اپ کرتی، کم میک اپ کرتی، میرے بالوں کا رنگ یا کچھ بھی۔‘

’وہ مجھے بدلنے کے طریقے تلاش کرتا رہتا۔ ‘

زبانی بدسلوکی بھی پرتشدد ہو گئی جب عینی کے پارٹنر نے حاملہ ہونے پر اس کا بازو توڑ دیا۔

ان کے بوائے فرینڈ نے اس بدسلوکی کو عینی کے خاندان سے چھپایا جن کے ساتھ دونوں رہتے تھے اور عینی کویہ سمجھنے میں کافی وقت لگا کہ اصل میں کیا ہو رہا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ غلط تھا۔ میں نے سوچا کہ ہر کوئی ایسا ہی تھا کیونکہ وہ میرا پہلا حقیقی رشتہ تھا۔ میں کبھی کسی اور کے ساتھ نہیں رہی تھی اس لیے مجھے علم نہیں تھا اور میں نے کسی کو نہیں بتایا۔‘

وہ اب اس کے ساتھ نہیں ہیں اور نارتھ ٹائن سائیڈ میں ایکارنز پروجیکٹ کی وجہ سے انھیںمدد ملی ہےجو گھریلو تشدد کا سامنا کرنے والے نوجوانوں کی مدد کرتا ہے۔

میکالا کی طرح ان کا بھی خیال ہے کہ گھریلو تشدد سے متعلق قانون، جو فی الحال صرف 16 سال اور اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کو بدسلوکی کا شکار قرار دیتا ہے، کا پھر سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

ایکارنز سے تعلق رکھنے والے کرس کوتھ کہتے ہیں کہ ’قانونی تعریف کے اندر اسے گھریلو تشدد کے طور پر تسلیم نہ کر کے ہم اس مسئلے کی سنگینی اور سنگینی کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔‘

’نوجوانوں کے تعلقات ان کے لیے اہم ہیں وہ بالغوں کے تعلقات کی طرح ہی شدید ہیں لیکن بعض اوقات انھیں احساس نہیں ہوتا کہ ان کے تعلقات کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔‘

کرس نے متنبہ کیا ہے کہ خطرہ ہے کہ نوجوانوں کے تعلقات میں بدسلوکی کو بالغ تعلقات کی طرح سنگین نہیں سمجھا جاتا ہے ’جبکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ سچ نہیں ہے۔‘

ہولی کی والدہ
BBC
میکالا چاہتی ہے کہ دیگر نوجوان بھی ان تنبیہی علامات کو پہچان لیں اور یہ کہ نوجوانوں کے درمیان گھریلو تشدد کو قانونی طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے

’صحت مند تعلقات کو فروغ دیں‘

ڈپٹی سارجنٹ ڈیرن ڈیوس کا کہنا ہے کہ میکفیلکی جانب سے ہولی کو بھیجے گئے پیغامات میں جبری رویّہ بہت واضح ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’وہ بریک اپ کے بارے میں بات کرتے تو وہ اسے کہتا کہ اگر وہ اس سے بات نہیں کرے گی تو وہ خود کو کس طرح نقصان پہنچائے گا۔‘

ڈیوس کہتے ہیں کہ یہ مجرموں کا ایک عام حربہ ہے کہ وہ ہمدردی حاصل کر کے لوگوں کو واپس بلاتے ہیں۔

’ایک 15 سالہ لڑکی کے لیے یہ سننا آسان نہیں ہوسکتا تھا اور ہولی کو سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیا ہے۔‘

سارجنٹ ڈیوس نے مزید کہا کہ موبائل فون اور سوشل میڈیا کا پھیلاؤ نوعمر وں کے تعلقات کو’زیادہ شدید‘ بنا سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میرے لیے اس معاملےمیں جو بات اہم ہے وہ ان دونوں کے اس عمر میں تعلقات تھے۔ آپ کو احساس ہوتا ہے کہ بچوں کا کتناتعلق ہے اور یہ تعلقات بالغوں کی نسبت کہیں زیادہ شدید ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو رشتوں کی پیچیدہ دنیا سے گزرنے میں مدد کرے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’صرف ان سے بات کریں اور صحت مند تعلقات اور حدود کو فروغ دیں، انھیں دکھائیں کہ کیا صحت مند ہے اور کیا نہیں ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.