ولادیمیر پوتن اور کم جونگ ان کے درمیان ابھرتے ہوئے اتحاد پر حالیہ ہفتوں میں خدشات عروج پر ہیں کیونکہ شمالی کوریا کی جانب سے یوکرین پر روس کے حملے کی حمایت کے لیے ہزاروں فوجیوں کو تعینات کرنے کی اطلاعات ہیں۔ اگر چینی رہنما شی جن پنگ اپنے مفادات کے مطابق پوتن-کم اتحاد کو تشکیل دینے سے قاصر ہیں لیکن اس اتحاد پر اگر مغربی غصہ اور بے چینی بڑھتی ہے تو چین درمیان میں پھنس سکتا ہے۔
یہ شمالی کوریا اور روس سے ملنے والی چینی سرحد پر ایک پرفضا 12 منزلہ عمارت ہے جہاں خزاں کے اس موسم میں چینی سیاح بہترین تصویر کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں نظر آ رہے ہیں۔
یہ چین کے شمال مشرقی کونے میں واقع فینگچوان ہے جو اس وجہ سے ایک منفرد جگہ ہے کہ وہاں تین ممالک کی سرحدیں ملتی ہیں اور دیوار پر نظر آنے والے نقشے پر تین ممالک کے قومی پرچم ایک دوسرے میں مدغم نظر آتے ہیں۔
اس 12 منزلہ عمارت پر اپنے ساتھیوں کے درمیان کھڑی ایک خاتون نے کہا: ’مجھے یہاں کھڑے ہونے پر بہت فخر محسوس ہو رہا ہے۔۔۔ میرے بائیں جانب روس اور دائیں جانب شمالی کوریا ہے۔۔۔ لوگوں کے درمیان کوئی سرحد نہیں ہے۔‘
دو ممالک کے درمیان موجود اس پتلے سے چین کے ٹکڑے کو دیکھنے والی خاتون کا یہ جملہ حد سے زیادہ پُراُمید نظر آتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ چین اپنے پڑوسیوں کے درمیان اسی حصے کی طرح پھنس گیا ہے۔
ولادیمیر پوتن اور کم جونگ ان کے درمیان ابھرتے ہوئے اتحاد پر حالیہ ہفتوں میں خدشات عروج پر ہیں کیونکہ شمالی کوریا کی جانب سے یوکرین پر روس کے حملے کی حمایت کے لیے ہزاروں فوجیوں کو تعینات کرنے کی اطلاعات ہیں۔
جبکہ اس سے قبل پیانگ یانگ نے جمعرات کو ایک ممنوع بین البراعظمی میزائل فائر کیا ہے جو اب تک ریکارڈ کیے گئے سب سے طویل فاصلے تک مار کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
یہ میزائل اس نے سیول کے خلاف ہفتوں تک بیان بازی کے بعد داغا ہے۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے ایک تجزیہ کار کرسٹوفر گرین کا کہنا ہے کہ ’چین شمالی کوریا پر ایک معقول، اعلیٰ سطح کے کنٹرول کے ساتھ تعلقات کا خواہاں ہے اور شمالی کوریا کے روس کے ساتھ تعلقات میں اس کے کنٹرول کو کمزور ہونے کا خطرہ ہے۔‘
اگر چینی رہنما شی جن پنگ اپنے مفادات کے مطابق پوتن-کم اتحاد کو تشکیل دینے سے قاصر ہیں لیکن اس اتحاد پر اگر مغربی غصہ اور بے چینی بڑھتی ہے تو چین درمیان میں پھنس سکتا ہے۔
ماسکو اور پیانگ یانگ اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ شمالی کوریا کے فوجی یوکرین کی طرف جارہے ہیں، جسے بڑے پیمانے پر اہم کشیدگی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ لیکن امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے جنوبی کوریا اور یوکرین کی انٹیلی جنس کے الزامات کے بعد اس کے شواہد دیکھے ہیں۔
اس کے متعلق ابتدائی رپورٹیں اکتوبر کے آغاز میں برکس سربراہی اجلاس میں اپنے روسی ہم منصب سے ملاقات سے عین قبل سامنے آئیں۔ یہ ایک ایسا اجلاس تھا جس کا مقصد مغرب کو ایک منحرف پیغام دینا تھا۔
اس سے یہ تیزی سے ظاہر ہو رہا ہے کہ چین کے اتحادی اس کے کنٹرول سے باہر نکل رہے ہیں۔ بیجنگ اس سہ رخی اتحاد میں سینئر پارٹنر ہے اور ایک ایسے نئے ورلڈ آرڈر کا مستحکم رہنما بننے کی کوشش کرتا رہا ہے جس کی قیادت امریکہ کے ہاتھوں میں نہ ہو۔ لیکن ایسا کرنا مشکل ہو گیا ہے اور بطورِ خاص اس صورت میں جبکہ ایک اتحادی نے یورپ میں جنگ شروع کی ہوئی ہے اور دوسرے پر اس حملے میں مدد کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔
کرسٹوفر گرین کا کہنا ہے کہ ’چین موجودہ حالات کے پس منظر سے ناخوش ہے، لیکن وہ اپنی عدم اطمینان پر نسبتاً خاموش رہنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
اس سرحدی شہر میں ہماری موجودگی پر ردِعمل کو دیکھتے ہوئے یہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ بیجنگ کے لیے ایک حسّاس موضوع ہے، جہاں ایسا لگتا ہے کہ سیاحوں کا خیرمقدم ہے لیکن کسی صحافی کا نہیں۔
ہم ہر وقت ان علاقوں میں تھے جہاں عوام ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ٹیم کو روکا گیا، بار بار پوچھ گچھ کی گئی، ہمارا پیچھا کیا گيا اور ہماری فوٹیج کو ڈلیٹ کر دیا گیا۔
ہوٹل نے ’میری حفاظت اور دوسروں کی حفاظت‘ کے پیش نطر میرا پاسپورٹ رکھنے کا مطالبہ کیا۔ پولیس نے ہمارے ہوٹل کے کمروں کا دورہ کیا، اور انھوں نے ہنچون کی بندرگاہ تک جانے والی سڑک کو بھی بند کر دیا کیونکہ اگر ہم وہاں جاتے تو ہمیں روس اور چین کے درمیان موجودہ تجارت کا قریب سے اندازہ ہوتا۔
’ہونٹ اور دانت‘
فانگچوان میں اس سیاحتی مقام پر یہ واضح ہے کہ زیادہ تر سیاح شمالی کوریا کو دیکھنے آئے ہیں۔
ایک لڑکی دوربین سے دیکھتی ہوئی کہتی ہیں کہ ’میں نے ایک شخص کو سائیکل چلاتے دیکھا‘۔ اس کا دوست دوربین سے اسے دیکھنے کے لیے دوڑتا ہے اور کہتا ہے ’اوہ! یہ ایک پراسرار ملک ہے۔‘
قریب ہی دریائے تیومن ہے جو تینوں ممالک کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرتا ہے۔ یہ بحیرہ جاپان میں چین کا دروازہ ہے، جہاں اس کے ٹوکیو کے ساتھ علاقائی تنازعات ہیں۔
1,400 کلومیٹر لمبی چینی سرحد پر اس قسم کے کچھ گنے چنے پلیٹ فارمز ہیں جہاں سے شمالی کوریا کا واضح نظارہ ملتا ہے۔ شمالی کوریا کے ساتھ جنوبی کوریا کی سرحد پر تقریباً ناقابل تسخیر رکاوٹ ہے، جو کہ بھاری بارودی سرنگوں والی مضبوط ڈی ملیٹرائزڈ زون ہے۔
اسی دوران کوئی مجھے دوربین دیتا ہے۔ جس سے کچھ عمر رسیدہ لوگوں کو سائیکلوں پر گاؤں میں گزرتے دیکھا جا سکتا ہے اور اس کے علاوہ زندگی کے کچھ اور نشانات بھی دکھائی دیتے ہیں۔ سب سے بڑی عمارتوں میں سے ایک سکول ہے جس پر جلی حروف میں لکھا ہے کہ ’چوسن کے بارے میں اچھی طرح سیکھیں‘۔ خیال رہے کہ چوسن شمالی کوریا کا دوسرا نام ہے۔
ایک ادھیڑ عمر آدمی کا کہنا ہے ’شمالی کوریا ہمیشہ سے ہمارا پڑوسی رہا ہے۔ یہ ہمارے لیے کوئی اجنبی نہیں ہے۔ یہ دیکھنے کے بعد کہ وہ کیسے رہتے ہیں مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ چین خوشحال اور مضبوط ہے۔‘
کم جونگ اُن کی حکومت یقینی طور پر اپنے سب سے بڑے محسن چین کے بغیر زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کرتی کیونکہ اس کی خوراک اور ایندھن سمیت 90 فیصد سے زیادہ غیر ملکی تجارت چین سے ہی ہے۔
لیکن ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ سنہ 1960 کی دہائی کے اوائل میں وہ چینی ہی تھے جو قحط سے بھاگ کر دریائے تومین کے پار گئے تھے۔ کچھ تو شمالی کوریا کے سکول بھی گئے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس وقت ان کا تعلیمی نظام بہتر تھا۔
سنہ 1991 میں سوویت یونین کے زوال کے بعد شمالی کوریا کی معیشت تباہ ہو گئی کیونکہ اس وقت تک روس اس کی امداد اور سستے تیل کا اہم ذریعہ تھا۔ اور پھر اس کے بعد شمالی کوریا نے خوراک کی شدید قلت اور آخرکار قحط کا دور دیکھا۔
جلد ہی شمالی کوریا کے پناہ گزینوں نے بھوک، غربت اور جبر سے بھاگنا شروع کردیا اور گولی مار دیے جانے کے خطرے سے بچنے کے لیے وہ اکثر یخ بستہ دریا سے گزرنا شروع کر دیا۔ اب ان میں سے 30,000 سے زیادہ جنوبی کوریا میں ہیں اور ایک نامعلوم تعداد اب بھی چین میں رہتی ہے۔
کرسٹوفر گرین کا کہنا ہے کہ ’سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے، شمالی کوریا کے پاس چین کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، جو اس کا واحد فائدہ مند دوست بچا ہے۔‘
لیکن وہ مزید کہتے ہیں کہ روس ایک بار پھر سے ’ایک متبادل پیش کر رہا ہے اور شمالی کوریا والے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
چین کے پہلے رہنما ماؤزے تنگ نے بیجنگ اور پیانگ یانگ کے درمیان تعلقات کو ’ہونٹوں اور دانتوں‘ کے درمیان والی قربت سے تشبیہ دی تھی اور کہا تھا کہ ’اگر ہونٹ ختم ہو جائیں تو دانت ٹھنڈے پڑ جائیں گے۔‘
’بدترین دوست‘
کئی دہائیوں سے شمالی کوریا کا مطالعہ کرنے والے ماہر عمرانیات ایڈن فوسٹر کارٹر کے مطابق اب بیجنگ اپنے کم شکرگزار دوست سے باخبر رہنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ کم اب کسی اور سے ’روابط بڑھا رہے ہیں۔‘
’شمالی کوریا مسلسل روس اور چین دونوں کا شروع سے دوست ہے۔ وہ ان سے زیادہ سے زیادہ پیسے لیتا ہے اور جو چاہے کرتا ہے۔‘
تجزیہ کاروں کے مطابق کِم نے پچھلے ایک سال میں مسلسل شی کے بجائے پوتن کی آؤ بھگت کی ہے۔ اگرچہ کِم نے سنہ 2019 کے بعد سے شی سے ملاقات نہیں کی ہے لیکن وہ گزشتہ ایک سال میں دو بار پوتن سے مل چکے ہیں۔ یوکرین پر روس کے حملے نے دونوں پابندیوں کے شکار رہنماؤں کو پہلے سے کہیں زیادہ قریب کر دیا ہے۔ پوتن اپنی جنگ کے لیے مزید تعاون چاہتے ہیں اور کم اتحاد اور توجہ کے ساتھ اپنی حکومت کو تقویت دینا چاہتے ہیں۔
دونوں مُمالک کے درمیان بڑھتے تعلقات کو چین صاف طور پر دیکھ رہا ہے۔
اسی دوران ٹرین کی سیٹی سے سیاحوں کی گپ شپ میں وقفہ آتا ہے، اور ایک سٹیم انجن مال بردار گاڑیوں کی ایک لمبی قطار کے ساتھ آہستہ آہستہ روس سے شمالی کوریا کا ریلوے پل پار کر جاتا ہے۔ یہ چین کی طرف ایک کوریائی نشان کے سامنے رک جاتا ہے جس پر لکھا ہے ’ایک نئی فتح کی طرف!‘
امریکہ کا اندازہ ہے کہ کِم نے یوکرین میں استعمال کے لیے ماسکو کو دس لاکھ سے زیادہ توپ خانے اور گریڈ راکٹ فروخت کیے ہیں، جس کی شمالی کوریا تردید کرتا ہے۔
لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دونوں ممالک نے جون میں ایک سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد تعاون کو بڑھایا تاکہ کسی بھی ملک کے خلاف ’جارحیت‘ کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کی جا سکے۔
فوسٹر کارٹر کا کہنا ہے کہ ’عوامی جمہوریہ چین کے تعلقات کی 75 ویں سالگرہ کے اہم تاریخی موقعے پر آپ کے پاس شی جن پنگ کے لیے بہت سخت اور رسمی زبان ہے۔‘
بیجنگ اتنا ہی پریشان ہے جتنا کہ مغرب
یہ جاننا مشکل ہے کیونکہ چین نے روس - شمالی کوریا کے اتحاد میں مداخلت کے کوئی آثار نہیں دکھائے ہیں۔
امریکہ نے بیجنگ کی بے چینی کو محسوس کیا ہے اور شاید اس بار بار دونوں حریفوں کے اہداف ایک جیسے ہو سکتے ہیں۔
گذشتہ ہفتے محکمہ خارجہ کے حکام نے چینی سفارت کاروں کے ساتھ روس میں شمالی کوریا کے فوجیوں کا معاملہ اٹھایا ہے۔
بیجنگ کے پاس آپشنز ہیں اور ماضی میں اس نے شمالی کوریا کو تیل اور کوئلے کی سپلائی میں کمی کی ہے اور پیانگ یانگ کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے امریکی پابندیوں کی تعمیل کی ہے۔
چین پہلے ہی امریکی الزامات کا مقابلہ کر رہا ہے کہ وہ روس کو ایسے اجزاء فروخت کر رہا ہے جو یوکرین پر حملے میں اس کی مدد کرتے ہیں۔ ماسکو کے ساتھ بیجنگ کی تجارت بھی پھل پھول رہی ہے اور اس کی وجہ سے وہ مغربی محصولات سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔
شی جن پنگ نے روس کو قریب رکھا ہے کیونکہ انھیں امریکہ کی قیادت میں عالمی نظام کو چیلنج کرنے کے لیے پوتن کی مدد کی ضرورت ہے۔ لیکن اس نے یورپ، برطانیہ اور یہاں تک کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کوششوں میں کوئی خلل نہیں آیا۔ چین تاریخی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ بھی بات چیت کر رہا ہے۔
لیکن سیؤل کے خلاف کِم کے بڑھتے ہوئے جارحانہ بیانات نے جنوبی کوریا میں ایک بار پھر بحث کو جنم دیا ہے کہ آیا اس کے پاس اپنا جوہری ہتھیار ہونا چاہیے۔ یوکرین کے میدان جنگ میں شمالی کوریا کے فوجی بیجنگ کے منصوبوں کو مزید بے نقاب کریں گے۔
اس کا اظہار پہلے ہی نظر آیا ہے جب جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے ’ٹھوس جوابی اقدامات‘ اور یوکرین اور نیٹو کے ساتھ سکیورٹی تعاون کو مضبوط بنانے کی بات کہی ہے۔
جوہری ہتھیاروں سے لیس جنوبی کوریا یا ’مشرقی ایشیائی نیٹو‘ ایسے خطے میں مثالی نہیں ہیں جہاں چین زیادہ تسلط چاہتا ہے۔
کِم کی جرات مندی امریکہ کی جانب سے اپنے اتحادیوں سیئول اور ٹوکیو کے لیے جنگی جہازوں یا ہتھیاروں کی شکل میں حمایت کی وجہ بن سکتی ہے۔
کرسٹوفر گرین کہتے ہیں ’بہت طویل عرصے سے چین کی شمال مشرقی ایشیا میں تین نہیں کی پالیسی رہی ہے اور ان میں سے ایک نہیں جوہری شمالی کوریا ہے۔ لیکن اس بارے میں اسے بظاہر ناکامی ہاتھ لگی ہے۔‘
اب بیجنگ کو خدشہ ہے کہ روس کے ساتھ اتحاد شمالی کوریا کو غیر مستحکم کر سکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا ’اس سے ولادیمیر پوتن کو اس طرح کا فائدہ پہنچ سکتا ہے کہ جس سے شی جن پنگ کو واقعی کوئی فائدہ نہیں ہو۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ بیجنگ اتنا ہی پریشان ہے جتنا کہ مغرب اس بات سے پریشان ہے کہ پوتن فوجیوں کے بدلے کم کو کون سی فوجی ٹیکنالوجی بیچ سکتے ہیں۔
فوسٹر کارٹر کہتے ہیں کہ ’یہ یقینی طور پر سیٹیلائٹس ہوں گے۔ اگرچہ پوتن برے ہیں لیکن پاگل نہیں۔ روس جانتا ہے جس طرح چین جانتا ہے کہ شمالی کوریا ایک ڈھیلی توپ ہے۔ جوہری ہتھیاروں کے لیے کم کو مزید ٹیکنالوجی دینا کسی کے لیے بھی اچھی بات نہیں ہے۔‘
ماہرین کا خیال ہے کہ شی جن پنگ کی جانب سے کچھ بھی سخت کرنے کا امکان نہیں ہے کیونکہ چین کو ایک مستحکم شمالی کوریا کی ضرورت ہے۔ اگر وہ امداد بند کرتا ہے تو اس کے لیے سرحد پر پناہ گزینوں کا بحران پیدا ہونے کا امکان ہے۔
لیکن کم کو بھی فیصلہ کرنا پڑ سکتا ہے۔
اگرچہ روس توپ کے گولوں اور فوجیوں کی قیمت ادا کر رہا ہے، فوسٹر کارٹر کہتے ہیں کہ یہ چین ہی ہے جس نے ’دراصل شمالی کوریا کو اس سارے عرصے میں، اکثر پیسنے والے دانتوں کے ذریعے چلتا رکھا ہے۔ میں صرف حیران ہوں کہ بیجنگ کس وقت پیونگ یانگ کو تبدیل کرے گا؟‘
کِم کا مہلک جوا ان کے اپنے ملک پر بھی گہرا اثر ڈال سکتا ہے کیونکہ ڈھائی کروڑ شمالی کوریائی باشندے جو بیرونی دنیا سے کٹے ہوئے ہیں اور اپنی بقا کے لیے پوری طرح سے حکومت پر منحصر ہیں۔
فینگچوان میں دریائے تومن کے اس پار سے شمالی کوریا کا ایک فوجی ہمیں دیکھ رہا ہے اور ہم اسے دیکھ رہے ہیں۔
چینی کی طرف لاٹھیوں پر نوڈلز اور سیزلڈ آکٹوپس فروخت کرنے والے سنیک سٹینڈ سے بھاپ اٹھتی ہے۔ اور شاید وہ فوجی ہنستے ہوئے سیاحوں کو جدید ترین کیمروں اور فونز سے تصویریں لیتے ہوئے سن سکتا ہے جو وہ خود نہیں رکھ سکتا کیونکہ اسسے یہ رکھناممنوع ہے۔
اور وہاں پھیلا اتھلا دریا ایک خلیج ہے جسے نہ سیاح اور نہ سپاہی عبور کر سکتے ہیں۔