اگرچہ پچھلے چند ماہ بابر اعظم کے لیے ہرگز خوشگوار نہیں رہے مگر جن صلاحیتوں کے حامل وہ ہیں، انھیں اپنی اصل فارم پہ لوٹنے کو ایسا بڑا سٹیج ہی جچتا ہے کہ جہاں وہ بلے بازی کے لیے ناسازگار حالات میں کمر ایستادہ کھڑے ہو جائیں اور اپنی قوم کے لیے خوشی کا سامان کریں۔ پڑھیے سمیع چوہدری کی تحریر۔
بابر اعظم قیادت سے مستعفی ہوئے، دوبارہ کپتان بنے، گیری کرسٹن کوچ مقرر ہوئے، بابر اعظم دوبارہ مستعفی ہوئے اور پھر گیری کرسٹن بھی مستعفی ہو گئے۔ جبکہ اس سارے دورانیے میں پاکستان نے ایک بھی ون ڈے انٹرنیشنل میچ نہیں کھیلا۔
جہاں یہ کھلبلاتی ٹائم لائن پاکستان کرکٹ کے پیچیدہ و پوشیدہ امراض کی عکاس ہے، وہیں یہ ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ کی وقعت پہ بھی روشنی ڈالتی ہے کہ ٹی ٹوئنٹی اور ٹیسٹ سی دو انتہاؤں کے بیچ گِھرا یہ فارمیٹ اپنے وجود کے لیے کسی نہ کسی آئی سی سی ایونٹ کا منتظر رہتا ہے۔
اب جبکہ چیمپیئنز ٹرافی میں دو تین ہی ماہ رہ گئے ہیں تو سبھی ٹیموں نے پھر سے اس فارمیٹ کو دریافت کیا ہے جو ہر دوسرے سال کسی نہ کسی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے غلغلے میں دب جایا کرتا ہے۔
دونوں ٹیموں کے درمیان کھیلے گئے پچھلے درجن بھر میچز میں صرف دو مواقع پہ پاکستان فاتح رہا اور یہ دو مواقع وہی تھے جب آئی پی ایل کے ہنگام سمتھ، وارنر، ہیزل ووڈ، کمنز اور سٹارک جیسے آزمودہ کار مہروں سے محروم آسٹریلوی ٹیم پاکستان کے دورے پہ آئی تھی۔
مگر محمد رضوان ان اعداد و شمار سے متاثر ہونے پہ آمادہ نہیں کہ ان کے خیال میں بہت سی چیزیں پہلی بار بھی ہو ہی جایا کرتی ہیں اور یہ کہ ان کی نظر میں آسٹریلیا کو واحد فائدہ اپنے ہوم کراؤڈ کا ہو گا جبکہ ان کی ٹیم یہاں صرف نارمل کرکٹ کھیلے گی اور کسی پہ کچھ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرے گی۔
محمد رضوان کی یہ بے خوف اپروچ ہی ان تُند مزاج کنڈیشنز میں پاکستان کے لیے امید افزا حالات پیدا کر سکتی ہے کہ مدِ مقابل آسٹریلوی ٹیم اگرچہ بولنگ میں کمنز اور سٹارک جیسے وسائل سے خوشحال ہے تو وہیں ٹاپ آرڈر میں مچل مارش اور ٹریوس ہیڈ کی غیر موجودگی پاکستانی پیسرز کا کام آسان کر سکتی ہے۔
دونوں آسٹریلوی اوپنرز پہ ٹیم میں اپنی ہستی ثابت کرنے کا دباؤ ہو گا جبکہ رضوان کو شاہین آفریدی اور نسیم شاہ کے تجربے کے ساتھ ساتھ محمد حسنین کی تباہ کن پیس کا ہتھیار بھی دستیاب ہو گا جو انجری سے بحالی کے بعد بہترین فارم اور ردھم میں ہیں۔
ان جیسے پر جوش پیسرز کو اگر ’کم بیک‘ کے لیے آسٹریلوی کنڈیشنز میسر آ جائیں تو یہ نعمت سے کم نہیں۔
گو بیٹنگ میں آسٹریلوی اوپنرز ہی کی طرح صائم ایوب اور عبداللہ شفیق پہ بھی خاصہ دباؤ ہو گا اور مچل سٹارک کی برق رفتار سوئنگ سے نمٹنا بھی الگ چیلنج ہو گا، مگر مڈل آرڈر میں بابر اعظم، محمد رضوان اور کامران غلام کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسی مضبوط ڈھال میسر ہے جو مشکل بولنگ کے سامنے مقابلہ دکھانے کی سکت رکھتی ہے۔
اگرچہ پچھلے چند ماہ بابر اعظم کے لیے ہرگز خوشگوار نہیں رہے مگر جن صلاحیتوں کے حامل وہ ہیں، انھیں اپنی اصل فارم پہ لوٹنے کو ایسا بڑا سٹیج ہی جچتا ہے کہ جہاں وہ بلے بازی کے لیے ناسازگار حالات میں کمر ایستادہ کھڑے ہو جائیں اور اپنی قوم کے لیے خوشی کا سامان کریں۔
کیونکہ پچھلے چند ماہ کا شور شرابہ اگر ایک طرف رکھ چھوڑا جائے تو یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ بلے بازی کے ٹیلنٹ میں عموماً دشواریاں دیکھنے والے پاکستان کرکٹ کلچر میں بابر اعظم کیسے ہنرمند ہیں جنھیں ون ڈے کرکٹ میں پاکستان کی جانب سے سینچریوں کے ریکارڈ کے حامل لیجنڈ سعید انور کی برابری پانے کے لیے صرف ایک سینچری درکار ہے۔
کرکٹ کی فوک ذہانت یہی بتلاتی ہے کہ کلائیوں کے بل پہ بلے بازی کی مہارت دکھانے والے کھلاڑی طویل عرصے تک فارم سے دور نہیں رہا کرتے، اگر وہ اپنا ذہنی ارتکاز پانے میں کامیاب ہو جائیں۔
سو، اگر بابر اعظم بھی گئے برس کے آف فیلڈ واقعات کو اپنے ذہن سے ہٹانے میں کامیاب رہے تو بعید نہیں کہ میلبرن کا یہ سٹیج ہی بابر اعظم کی آمدِ ثانی کا اعلان بن جائے۔