محمد رضوان کی ٹیم بجا طور پہ اپنا سر بلند رکھ سکتی ہے کہ دشوار ترین حالات میں بھی اس نو آموز الیون نے آسٹریلوی ڈریسنگ روم کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔
کہانیاں سبھی لگ بھگ ایک سی ہوتی ہیں، یہ کہانی کہنے کا انداز ہوتا ہے جو اسے کوئی انفرادیت بخشتا ہے۔ میلبرن کے حتمی نتیجے میں بھی یہ پاکستان کے آسٹریلوی دوروں کی سی روایتی کہانی ہی تھی مگر جس انداز سے پاکستان نے یہ کہانی کہی، وہ اس کے شائقین کے لیے باعثِ فخر تھا۔
آسٹریلوی کنڈیشنز میں بلے بازی کبھی بھی آسان نہیں ہوا کرتی اور ایشیائی بلے بازوں کے لیے تو یہ دقت دوہری ہو جاتی ہے کہ عمر بھر کی سیکھ کو یوں اچانک ترک کر کے نیا سبق سیکھنا پڑتا ہے۔
پاکستانی بلے بازوں کے لیے بھی یہ کنڈیشنز دشوار تر تھیں کہ ہفتہ بھر پہلے ہی اس کے پانچ بلے باز راولپنڈی کی گرد اڑاتی پچ پر سپن سے نمٹنے کے طریقے سجھا رہے تھے اور آسٹریلوی سر زمین پہ اترنے کے چوتھے ہی روز اس پیس اٹیک کا سامنا کرنا پڑا جو اپنی ہوم کنڈیشنز میں دنیا کا بہترین بولنگ یونٹ ہے۔
یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ پاکستانی ٹاپ آرڈر زیادہ مثبت اپروچ دکھا سکتا تھا، کامران غلام اس گیند کے سامنے سینہ تاننے کی بجائے اسے جوش انگلس کے ہاتھوں میں جانے دیتے اور سلمان آغا شارٹ پچ پہ بہتر شاٹ سلیکشن دکھاتے تو پاکستان مزید 30 سے 40 رنز اپنے مجموعے میں جوڑ سکتا تھا۔
یہ بھی کہنے کی گنجائش ہے کہ پہلے 20 اوورز میں پاکستانی بولرز اپنے ڈسپلن میں مستقل مزاجی دکھاتے تو انگلس اور سمتھ کی وہ تگڑی ساجھے داری نہ جم پاتی جو میچ کے حتمی نتیجے میں فیصلہ کن ٹھہری۔
مگر پاکستان کے لیے امید افزا وہ پہلو رہے جہاں میچ میں پیچھے لڑھکنے کے بعد انھوں نے اچانک پلٹ کر پے در پے جوابی وار کیے اور آسٹریلوی تھنک ٹینک کو سر کھجانے پہ مجبور کیے رکھا۔
اوپنرز کے جلد نقصان کے بعد محمد رضوان نے بالکل بجا راہ چنی جو اس دشوار پچ پہ پاکستانی بیٹنگ کے لیے پورے 50 اوورز کھیل پانے کی سبیل ہو سکتی تھی۔ یہ دانش بھی اس میں کار فرما تھی کہ جوں جوں گیند پرانی ہو گی، بلے بازی میں کچھ آسانی پیدا ہو گی۔
اگرچہ بابر اعظم نے عمدہ آغاز کیا اور سکور بورڈ کو متحرک رکھا مگر یہ رضوان کی اس صبر آزما اننگز کی بدولت ہو پایا کہ پاکستانی لوئر آرڈر کے کریز پر آتے تک گیند کی کاٹ کچھ نرم پڑ چکی تھی اور نسیم شاہ نے اپنے بلے بازی کے خوب جوہر دکھلائے۔
جس رفتار سے نسیم شاہ نے وہ رنز جوڑے، وہی پاکستان کو میچ میں واپس لانے کا موجب بنی۔ وگرنہ خدشہ تھا کہ تین ہی گھنٹے میں یہ پورا میچ تمام ہو جاتا۔ نسیم کے ان رنز نے نہ صرف وقت سے پیچھے لڑھکتی اپنی ٹیم کو اعتماد فراہم کیا بلکہ اپنے بولرز کو بھی کچھ عوضانہ دیا کہ جس کے خلاف وہ آسٹریلوی بلے بازوں کو آزما سکتے۔
اگرچہ دو ابتدائی کامیابیوں کے بعد پاکستانی بولنگ اپنے ڈسپلن سے کچھ منحرف ہوئی، مگر بہت جلد پیسرز اپنے اصل پہ لوٹے اور میلبرن کی سبز، مددگار پچ کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے آسٹریلوی مڈل آرڈر کے بخیے ادھیڑ ڈالے۔
حارث رؤف کی بولنگ کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ بھلے وہ اپنی رفتار کے ہاتھوں مہنگے ہونے پہ مجبور ہیں مگر جونھی وہ ردھم میں آتے ہیں، کسی بلے باز سے ان کا کوئی جواب نہیں بن پاتا۔
شاہین آفریدی کی دوسری وکٹ اور حارث رؤف کی تیسری وکٹ کے درمیان فقط پانچ گیندوں کا فاصلہ تھا مگر ان پانچ گیندوں کے سفر نے آسٹریلوی سکور بورڈ کو کوئی رن دیے بغیر تین اہم ترین وکٹوں سے محروم کر دیا۔
حارث رؤف کے اس برق رفتار سپیل نے یکے بعد دیگرے مارنس لبوشین اور گلین میکسویل جیسی مستند وکٹیں حاصل کر کے شائقین میں بھی ایک نئی روح پھونک دی۔ پاکستان اچانک پیچھے سے پلٹ کر میچ میں واپس آ گیا۔
محمد رضوان کی قائدانہ صلاحیتیں اپنے بہترین اظہار پہ آئیں اور ان کی فیلڈنگ و بولنگ سے متعلق پلانز نے اس سیدھی سادی چلتی بورنگ کہانی کو ایک 'نفسیاتی تھرلر' میں بدل دیا جہاں حارث رؤف کے ایک ہی سپیل نے آسٹریلیا کو 'پاکستان' کر دیا۔
بدقسمتی سے اس کہانی کا اخلاقی نتیجہ پاکستان کے حق میں نہ آ پایا کہ جس نقدی کے عوض دس آسٹریلوی وکٹیں حاصل ہو پاتیں، پاکستانی بلے باز اسے جٹانے میں ناکام رہے تھے مگر محمد رضوان کی ٹیم بجا طور پہ اپنا سر بلند رکھ سکتی ہے کہ دشوار ترین حالات میں بھی اس نو آموز الیون نے آسٹریلوی ڈریسنگ روم کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔
میچ کے دوران سوشل میڈیا پر بھی کرکٹ فینز کے درمیان پاکستانی ٹیم کی کارکردگی اور اس کا اتار چڑھاؤ زیر بحث رہا۔
امین الحق نامی صارف نے لکھا کہ جیت ہو یا ہار پاکستان نے اس بار بہت اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا ہے۔
اس دوران آسٹریلیا کے پیٹ کمنز کے کھیل کو بھی لوگوں نے بہت سراہا۔
ایک صارف نے لکھا کہ ’پیٹ کمنز نے آج پاکستان کے خلاف بہت اہم اننگز کھیلی ہے۔ پیٹ کمنگز نے 2023 کے ورلڈ کپ میں افغانستان کے خلاف جس طرح کھیلا تھا آج اس کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔‘
ایک اور صارف نے لکھا کہ ’پاکستانی بلے بازوں کو پیٹ کمنز سے سیکھنا چاہیے۔‘