بیٹنگ کے لیے دنیا بھر کی دشوار ترین کنڈیشنز کے حامل آسٹریلوی وینیوز میں سے سڈنی اور ایڈیلیڈ ہی ایسے دو گراؤنڈ ہیں جہاں بلے بازوں کو کچھ سکون مل پاتا ہے مگر اسی بیٹنگ دوست پچ پر پاکستانی بولرز نے یوں کمر باندھی کہ آسٹریلوی بلے باز پرتھ کی پچ پر کھیلتے دکھائی دیے۔
یہ روایتی آسٹریلوی ڈریسنگ روم نہیں تھا جہاں عموماً ہنستے مسکراتے چہرے میچ سے محظوظ ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ نامانوس سا منظر تھا جہاں چہرے اترے ہوئے تھے، پیشانیاں سلوٹوں سے بھری ہوئی اور مسکراہٹیں یکسر ندارد۔
مارک واہ کو ہرگز یہ امید نہ تھی کہ ایڈیلیڈ کے گراؤنڈ پر آسٹریلوی ٹیم یوں پاکستان کے ہاتھوں رسوا ہو جائے گی۔ بہرحال پاکستان وہی ٹیم ہے جسے آسٹریلیا میں کوئی ون ڈے میچ جیتے سات برس ہو چکے تھے۔
بیٹنگ کے لیے دنیا بھر کی دشوار ترین کنڈیشنز کے حامل آسٹریلوی وینیوز میں سے سڈنی اور ایڈیلیڈ ہی ایسے دو گراؤنڈ ہیں جہاں بلے بازوں کو کچھ سکون مل پاتا ہے مگر اسی بیٹنگ دوست پچ پر پاکستانی بولرز نے یوں کمر باندھی کہ آسٹریلوی بلے باز پرتھ کی پچ پر کھیلتے سے دکھائی دیے۔
جیک فریزر مکگرک یہاں صرف اپنی ٹیم کے اچھے مجموعے میں حصہ ڈالنے کو نہیں کھیل رہے تھے، ان کا مقابلہ دوسرے کنارے پر کھڑے میٹ شارٹ سے بھی تھا جو ان ہی کی طرح ڈیوڈ وارنر کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے خالی پڑی نشست پہ اپنا نام جمانا چاہتے ہیں۔
جس طرح سے مکگرک شروع میں ہی پاکستانی پیسرز پر لپکے، وہ آسٹریلوی شائقین کے لیے جوش کا باعث تھا مگر اپنے دوسرے اوور میں شاہین نے جوں ہی لینتھ ذرا آگے کی اور اپنے آزمودہ مڈل سٹمپ چینل سے گیند کو اندر لائے، مکگرک کی ساری آس ادھوری پڑ گئی۔
یہ پچ 270 کے لگ بھگ مجموعے کے لیے سازگار تھی اور ٹاپ آرڈر میں تجربے سے محرومی کے باوجود اس بیٹنگ لائن کو سٹیو سمتھ، جاش انگلس، مارنس لبوشین اور گلین میکسویل جیسے مستند ناموں کی مدد حاصل تھی۔
اگر یہ آسٹریلوی بلے باز دو تین پارنٹنرشپس جما جاتے تو دوسری اننگز میں ایک بڑے ہدف کا تعاقب پاکستان کے لیے ایسا چیلنج ثابت ہو سکتا تھا جو عموماً عین منزل کے قریب آن کر یوں تھکا مارتا ہے کہ جیتی بازی ہاتھ سے پھسل جاتی ہے۔
مگر یہاں شاہین کی ابتدائی یلغار کے بعد جب آسٹریلوی اننگز انگلس اور سمتھ کی ساجھے داری سے جان پکڑنے لگی، تب حارث رؤف اپنے ’زون‘ میں آ گئے۔
سپورٹس سائیکالوجی میں جب بہترین ایتھلیٹس کی حیران کن پرفارمنسز کو تجزیے کی آنچ پہ دھرا جاتا ہے تو سٹائل اور تکنیک کی بحث سے کہیں پرے وہ ایک خاص ذہنی کیفیت سامنے آتی ہے جسے ’فلو‘ یا ’زون‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ہہ وہ کیفیت ہوتی ہے جہاں کسی ایتھلیٹ سے بنیادی انسانی غلطی سرزد ہونے کا امکان بھی لگ بھگ صفر رہ جاتا ہے کہ ذہنی و جسمانی طور پہ وہ ایسے ردھم میں آ جاتا ہے کہ انسانی عقل کو بھی دنگ کر چھوڑے۔
یہی وہ کیفیت ہے جو ٹی 20 ورلڈ کپ 2022 میں حارث رؤف کا سامنا کرتے وراٹ کوہلی پر طاری تھی، یہی وہ ’زون‘ ہے جس میں میکسویل نے ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر افغانستان کے منہ سے جیت چھین لی تھی۔ یہی ’فلو‘ اے بی ڈی ویلئرز پر طاری تھا جب انھوں نے ون ڈے کرکٹ کی تیز ترین سنچری اپنے نام کی تھی۔
یہاں جب حارث رؤف پر وہ کیفیت طاری ہوئی تو آسٹریلوی بیٹنگ ابتدائی جھٹکے کے بعد سنبھل چکی تھی اور ایک بھروسہ مند شراکت داری آسٹریلوی اننگز کو اس پچ کے مسابقتی مجموعے تک لے جانے میں مصروف تھی۔
مگر تب حارث رؤف کی وہ گیند پچھلی لینتھ سے اٹھی اور انگلس تک ایسے زاویے سے پہنچی کہ نہ تو وہ کوئی فیصلہ کرنے کی حیثیت میں رہے اور نہ ہی حارث رؤف کی رفتار نے انھیں اتنا وقت فراہم کیا۔
انگلس کی اس وکٹ نے آسٹریلوی اننگز کے انہدام کا راستہ کھولا جہاں سے میچ میں واپسی ناممکن ٹھہری۔
جس گیند پر مارنس لبوشین کا نام لکھا تھا، وہ تو گویا ٹیسٹ میچ بولنگ کی ماسٹر کلاس سی تھی جہاں اٹیکنگ لائن کے سامنے عین آخری لمحے پہ وہ دفاع کرنے پر مجبور ہوئے اور سیدھے بلے سے آبرو بچانے کی آخری کوشش بھی رضوان کے ہاتھوں میں تمام ہو گئی۔
میکسویل اس پچ پر خطرناک ثابت ہو سکتے تھے اور پاکستانی بولنگ اٹیک میں پانچویں بولر کی کمی کا فائدہ اٹھا سکتے تھے مگر حارث رؤف نے یہاں اپنی پیس کا جلوہ دکھانے کی بجائے دانشمندی سے ان کا ذہن پڑھا اور مڈ وکٹ کے اوپر چھکا لگانے والی لینتھ فراہم کی۔
مگر جس طرح اس گیند پر حارث رؤف نے کریز کا استعمال کیا اور گیند کو میکسویل کی طرف ’اینگل‘ کیا، وہاں بلے کا اندرونی کنارہ محض ایک خاموش تماشائی سا دکھائی دیا اور گیند نے سٹمپس کو منتشر کر دیا۔
جس ردھم سے حارث رؤف قہر برسا رہے تھے، اگر اننگز میں 20 وکٹیں بھی میسر ہوتیں تو وہ سبھی لے جاتے۔ ان کا ’فلو‘ آسٹریلوی اننگز کو ایسے بہا لے گیا کہ میچ تمام ہونے پر صرف مارک واہ ہی نہیں، سبھی آسٹریلوی حیران تھے کہ ایسی رسوائی بھلا کیسے ان کا مقدر ہو گئی جو کبھی وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔