جیسے ہی ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں قدم رکھیں گے، ان کی اکثر قانونی پریشانیاں ختم ہوجائیں گی۔
اگرچہ امریکی محکمۂ انصاف نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مقدمات ختم کرنے پر غور کر رہا ہے تاہم ایلون مسک نے واضح کیا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ جیک سمتھ کو ’سزا نہ دی جائے۔‘
جیک سمتھ امریکی محکمۂ انصاف میں بطور سپیشل کونسل کام کرتے ہیں۔ گذشتہ سال انھوں نے ٹرمپ کے خلاف خفیہ دستاویزات کی برآمدگی اور 2020 کے الیکشن کے بعد توڑ پھوڑ سے متعلق دو مقدمات بنائے تھے۔
مگر امریکی محکمۂ انصاف کی یہ عرصہ دراز سے پالیسی رہی ہے کہ ایک صدر کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی جاسکتی، لہذا جب ٹرمپ جنوری میں اقتدار سنبھالیں گے تو وفاقی سطح پر قائم کردہ ان کیسز پر مزید کارروائی نہیں ہوگی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ وہ اقتدار سنبھالنے پر جیک سمتھ کو ’دو سکینڈ میں برطرف کر دیں گے۔‘
بی بی سی کے امریکہ میں شراکت دار سی بی ایس نیوز کے مطابق دو ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ صدر کو قانونی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے اور اقتدار کی پُرامن منتقلی کے لیے بھی یہ ضروری ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق جنوری میں ٹرمپ کی تقریب حلف برداری سے قبل محکمۂ انصاف چاہے گا کہ اس کے ٹرمپ کے ساتھ بہتر تعلقات ہوں۔
جیک سمتھ کون ہیں جنھیں ٹرمپ ’دو سیکنڈ میں‘ ہٹانا چاہتے ہیں؟
نومبر 2022 کے دوران جیک سمتھ کو اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے سپیشل کونسل تعینات کیا تھا۔
اس کے بعد سمتھ نے ٹرمپ کے خلاف دو مقدمات بنائے تھے۔ پہلے میں ٹرمپ پر الزام ہے کہ انھوں نے 6 جنوری 2021 کو ایک مشتعل ہجوم کو بھڑکایا جس نے پھر کیپیٹل ہِل پر دھاوا بولا۔
دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ ٹرمپ نے مبینہ طور پر فلوریڈا میں اپنی رہائش گاہ پر خفیہ دستاویزات رکھی ہوئی تھیں جنھیں ایف بی آئی نے برآمد کیا اور ان کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔
خفیہ دستاویزات کا کیس اپیل کورٹ میں سست روی کا شکار ہے کیونکہ ایک امریکی جج نے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ محکمۂ انصاف نے جیک سمتھ کو درست انداز میں تعینات نہیں کیا۔ سمتھ نے فیصلے کے خلاف اپیل کی جو زیر التوا ہے۔
انتخابات میں مداخلت کے کیس پر کارروائی بھی اس وقت رُک گئی تھی جب امریکی سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ صدر کو اپنے کسی بھی سرکاری اقدام کے سلسلے میں قانونی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہوتی ہے۔
سمتھ کی ٹیم نے اگست میں اس کیس میں تبدیلی کی اور یہ الزام لگایا کہ ٹرمپ نے بطور سیاسی امیدوار یہ حالات پیدا کیے تھے۔ اس کیس میں فریقین اپنے دلائل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا الزامات جائز ہیں۔
ٹرمپ کی انتخابی مہم پر 10 کروڑ ڈالر سے زیادہ خرچ کرنے والے ارب پتی ایلون مسک کا کہنا ہے کہ ’جیک سمتھ نے انصاف کے نظام کا استحصال کیا اور ایسا نہیں ہوسکتا کہ انھیں سزا نہ دی جائے۔‘
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ بارہا کہا کہ وہ سمتھ کی طرف سے شروع کیے گئے قانونی محاذ کو روکیں گے اور صدر بائیڈن سمیت دوسرے ناقدین کے خلاف کارروائی کریں گے۔
انھوں نے بغیر شواہد دیے یہ بارہا کہا کہ ان کے خلاف سیاسی بنیادوں پر مقدمات قائم کیے گئے تھے۔ ٹرمپ نے یہاں تک کہا تھا کہ وہ جیک سمتھ کو نہ صرف عہدے سے ہٹائیں گے بلکہ انھیں ’ڈی پورٹ‘ کر دیں گے۔
ٹرمپ کے ایک مشیر نے اخبار واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ نومنتخب صدر نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی میں خصوصی دلچسپی لیں گے اور یہ ثابت کرنا چاہیں گے کہ وہ ’بے قصور‘ تھے۔ ان کے مطابق اس چیز کے امکان بہت کم ہیں کہ ٹرمپ کے زیرِ انتظام محکمۂ انصاف سمتھ کے دفتر سے وہی پراسیکیوٹر بھرتی کرے گا جنھوں نے نومنتخب صدر کے خلاف تحقیقات کی تھیں۔
ٹرمپ ایک مشیر مائیک ڈیوس کو امید ہے کہ جیک سمتھ کے خلاف مختلف جگہوں پر تحقیقات ہوں گی، جیسے محکمۂ انصاف کے اندر اور دونوں ایوانوں میں عدلیہ سے متعلق کمیٹیوں میں۔
ٹرمپ کے خلاف مقدمات کا کیا ہوگا؟
جیسے ہی ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں قدم رکھیں گے، ان کی اکثر قانونی پریشانیاں ختم ہوجائیں گی۔
ٹرمپ کو فی الحال چار مقدمات کا سامنا ہے:
1. نیو یارک میں ہش منی کیس
ٹرمپ پر الزام تھا کہ انھوں نے ایک پورن سٹار سٹورمی ڈینیئلز کو رشوت دی تھی۔
سٹورمی ڈینیئلز کا دعویٰ ہے کہ 2016 میں جب ٹرمپ صدر کے امیدوار تھے تو انھوں نے اپنے وکیل مائیکل کوہن کے ذریعے ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر اس شرط پر ادا کیے کہ وہ ٹرمپ سے تعلق کو ظاہر نہیں کریں گی۔
نیو یارک میں ایک عدالت میں اس دیوانی مقدمے میں جیوری نے انھیں تمام 34 الزامات میں قصوروار ٹھہرایا تھا۔
جج نے انھیں 26 نومبر کو سزا سنانی تھی تاہم قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ ٹرمپ کو پہلی بار اس نوعیت کے جرائم میں قصوروار پایا گیا اور وہ معمر ہیں لہذا اس بات کے کم امکان ہیں کہ انھیں جیل جانا پڑے۔
ٹرمپ کے وکیل اس کیس میں اپیل دائر کر سکتے ہیں اور وہ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ جیل جانے سے ان کی سرکاری خدمات میں خلل آئے گا، لہذا وہ اپیل پر کارروائی تک آزاد رہیں گے۔ اپیل کا عمل کئی برسوں تک چل سکتا ہے۔
2. کیپیٹل ہل پر حملے کا کیس
2020 کے الیکشن میں شکست کے بعد ٹرمپ پر الزام لگا تھا کہ انھوں نے مشتعل ہجوم کو کیپیٹل ہِل پر دھاوا بولنے کے لیے اکسایا۔ ٹرمپ کا موقف ہے کہ وہ بے قصور ہیں۔
سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ بطور صدر ٹرمپ کو استثنیٰ حاصل تھی تاہم سمتھ کی ٹیم نے کیس میں تبدیلی کی اور موقف اپنایا کہ وہ انھوں نے یہ سب بطور امیدوار کیا تھا۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ موجودہ حالات میں یہ کیس دب جائے گا۔
سابق وفاقی پراسیکیوٹر نعیمہ رحمانی کے مطابق ٹرمپ کو درپیش اس طرح کے قانونی چیلنجز ختم ہو سکتے ہیں۔ ’موجودہ صدر کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی لہذا ڈی سی کی ضلعی عدالت میں قائم الیکشن فراڈ کیس مسترد ہوسکتا ہے۔‘
رحمانی کا کہنا ہے کہ اگر سمتھ نے انکار کیا تو ٹرمپ انھیں ہٹا دیں گے، جس کا وہ پہلے ہی وعدہ کر چکے ہیں۔
3. خفیہ دستاویزات کا کیس
ٹرمپ پر الزام ہے کہ انھوں نے فلوریڈا میں اپنی رہائش گاہ پر خفیہ دستاویزات رکھی ہوئی تھیں اور انھیں برآمد کیے جانے پر رکاوٹ ڈالی گئی۔
جج نے جولائی میں الزامات مسترد کیے تھے اور کہا تھا کہ سمتھ کی تعیناتی غیر قانونی تھی۔
سمتھ نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے قبل اب اس کیس کو بھی ختم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
رحمانی کا کہنا ہے کہ خفیہ دستاویزات کے مقدمے کا بھی وہی انجام ہو گا جو الیکشن فراڈ کیس کا ہوا۔
4. جارجیا الیکشن کیس
جارجیا میں بھی 2020 کے الیکشن کے نتائج کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر ٹرمپ کے خلاف مقدمہ قائم ہوا تھا۔
اس کیس کو متعدد رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے ڈسٹرکٹ اٹارنی فانی ویلس کو نااہل قرار دیے جانے کی کوششیں ہوئیں اور وہ بھی اس دلیل کے ساتھ کہ ان کے اپنی بھرتی کی گئی وکیل کے ساتھ تعلقات تھے۔
اپیلز کورٹ میں یہ معاملہ زیر التوا ہے کہ آیا ویلس کو اس کیس پر کام کرنے دیا جاسکتا ہے۔
ٹرمپ کے صدر بننے پر اس کیس میں مزید تاخیر ہوسکتی ہے اور اسے مسترد بھی کیا جاسکتا ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق جب تک ٹرمپ صدر رہیں گے، اس پر کارروائی رُک سکتی ہے۔ ٹرمپ کے وکیل سٹیو سیڈو کے مطابق جب تک ٹرمپ اپنی مدت پوری نہیں کرتے اس پر کارروائی نہیں ہوسکتی۔
کیا ٹرمپ بطور صدر خود کو معاف کر سکتے ہیں؟
تکنیکی اعتبار سے جی ہاں! ماضی میں کبھی کسی امریکی صدر نے خود کو استثنیٰ نہیں دی تو یہ پہلی بار ہو گا تاہم صدارتی معافی صرف وفاقی کیسز پر لاگو ہوتی ہے۔
ٹرمپ کو نیویارک کی جیوری نے 34 الزامات میں قصوروار ٹھہرایا تھا لہذا اس کیس پر معافی لاگو نہیں ہو گی۔