سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ امریکہ میں اقتدار کی تبدیلی کا بنگلہ دیش کی سیاست پر کیا اثر پڑے گا؟ کیا بنگلہ دیش کو ٹرمپ کے دور میں وہی حمایت مل سکتی ہے جو پہلے مل رہی تھی؟
رپبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے 47ویں صدر بننے جا رہے ہیں۔ ٹرمپ کو اس جیت پر دنیا بھر سے مبارکبادیں موصول ہو رہی ہیں۔
دنیا بھر کے کئی ممالک کے مدنظر یہی بات ہے کہ وائٹ ہاؤس کے اگلے مکین کی پالیسیوں کا ان کے ممالک پر کیا اثر ہو گا۔
ٹرمپ کے دوبارہ امریکی صدر بننے سے کچھ ممالک میں بے چینی بڑھی جبکہ کچھ ممالک خوش بھی دکھائی دے رہے ہیں۔
پاکستان میں سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کے چند رہنماؤں کا بھی خیال ہے کہ ٹرمپ اپنے ’اچھے دوست‘ عمران خان کو رہائی دلوا دیں گے۔
پی ٹی آئی کے رُکن قومی اسمبلی لطیف کھوسہ سے جب گذشتہ دنوں پوچھا گیا کہ ’کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ آ گئے تو وہ عمران خان کی رہائی میں کردار ادا کر سکتے ہیں؟‘ تو ان کا کہنا تھا کہ ’100 فیصد، مجھے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ وہ پاکستان میں بھی یہی چاہیں گے کہ جمہور کی آواز سُنی جائے اور کیونکہ جمہور ہی سے وہ (ڈونلڈ ٹرمپ) اُمید رکھتے ہیں۔‘
اسی خطے کے ایک اور ملک بنگلہ دیش بھی اس حوالے سے چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ کیا ٹرمپ کی واپسی سے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ اپنا کھویا ہوا سیاسی میدان دوبارہ حاصل کر پائیں گی؟
واضح رہے کہ رواں برس اگست کے مہینے میں بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے کر ملک چھوڑنا پڑا تھا۔
ملک میں طلبا تحریک کے بعد بنگلہ دیش میں عبوری حکومت قائم ہوئی اور نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات محمد یونس کو اس حکومت کا چیف ایڈوائزر مقرر کیا گیا۔ ایک طرح سے وہ اس حکومت کے سربراہ ہیں۔
ایسے میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ امریکہ میں اقتدار کی تبدیلی کا بنگلہ دیش کی سیاست پر کیا اثر پڑے گا؟ کیا بنگلہ دیش کو ٹرمپ کے دور میں وہی حمایت مل سکتی ہے جو پہلے مل رہی تھی؟
شیخ حسینہ نے ٹرمپ کی جیت پر کیا کہا؟
امریکی صدارتی انتخاب میں ٹرمپ کی جیت کے بعد شیخ حسینہ نے عوامی لیگ کے آفیشل ایکس ہینڈل سے انھیں مبارکباد دی۔
اس پوسٹ میں شیخ حسینہ کی ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ تصویر بھی شیئر کی گئی اور کہا گیا کہ ’بنگلہ دیش عوامی لیگ کی صدر شیخ حسینہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کے 47ویں صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔‘
پوسٹ میں مزید کہا گیا کہ ’ٹرمپ کی زبردست انتخابی جیت ان کی قیادت اور امریکی عوام کے ان پر اعتماد کا ثبوت ہے۔‘ بیان میں کہا گیا کہ امید ہے کہ ٹرمپ کے دوسرے دورِ حکومت میں بنگلہ دیش اور امریکہ کے درمیان دوستانہ اور دو طرفہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔
انھوں نے دونوں ممالک کے دوطرفہ اور کثیر الجہتی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے دوبارہ مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس کے ساتھ انھوں نے نومنتخب صدر اور ان کے اہل خانہ کی اچھی صحت اور درازی عمر کی بھی دعا کی۔
کیا ٹرمپ کے آنے سے بنگلہ دیش کے لیے مسائل بڑھیں گے؟
سال 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن کو شکست دی تھی۔ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے اس وقت اس متعلق ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرمپ کی امریکی صدارتی انتخاب میں جیت سورج گرہن اور تاریک دنوں کی طرح ہے۔
انھوں نے کہا تھا کہ 2016 کے انتخابات غلط طرز کی سیاست کا شکار ہو گئے۔ ٹرمپ کو مشورہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ انھیں دیواروں کی بجائے پل بنانے اور زیادہ آزاد خیال انداز اپنانے کی ضرورت ہے۔
دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے پروفیسر سنجے بھردواج کا کہنا ہے کہ محمد یونس امریکہ میں ڈیموکریٹس کے قریب ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جب بنگلہ دیش میں اقتدار کی تبدیلی ہوئی اور محمد یونس کو عبوری حکومت کا چیف ایڈوائزر بنایا گیا، اس وقت وہ ڈیموکریٹس، بائیڈن انتظامیہ اور ہیلری کلنٹن کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے۔ انھیں اس کردار میں لانے میں امریکہ کا اہم کردار ہے۔‘
اس نئے کردار میں آنے کے بعد یونس کے دورہِ امریکہ کا بھی بہت چرچا ہوا۔ 25 ستمبر کو انھوں نے ’کلنٹن گلوبل انیشیٹو‘ پروگرام میں شرکت کی تھی۔ اس پروگرام میں سابق امریکی صدر بل کلنٹن بھی موجود تھے۔
بھردواج کہتے ہیں کہ ’جب سے امریکہ میں اقتدار کی تبدیلی آئی اور ڈیموکریٹس کی بجائے رپبلکن کو اقتدار ملنے جا رہا ہے تو ایسی صورتحال میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ ان پالیسیوں کو جاری رکھیں گے جو بائیڈن انتظامیہ کے دور میں رائج تھیں یا وہ ان میں کچھ تبدیلیاں کریں گے؟
بھردواج کہتے ہیں کہ ’پہلے امریکہ انڈیا کے نقطہ نظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے جنوبی ایشیا کو ایک اکائی کے طور پر دیکھتا تھا لیکن بائیڈن انتظامیہ نے بنگلہ دیش کو ایک آزاد اکائی کے طور پر دیکھا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ بنگلہ دیش میں حکومت بدل گئی۔‘
بھردواج کا کہنا ہے کہ ’بنگلہ دیش میں انسانی حقوق اور انتخابات کے حوالے سے پہلے بھی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں لیکن بائیڈن کے دور میں ان پر زیادہ سختی تھی اور شیخ حسینہ کے ساتھ بھی ان کے اچھے تعلقات نہیں تھے۔‘
بنگلہ دیش میں لوگ کیا سوچ رہے ہیں؟
بنگلہ دیش کے بنگالی زبان کے ایک روزنامہ ’پرتھم آلو‘ کے پولیٹیکل ایڈیٹر کدل کلول کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ حسینہ اور ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ بنگلہ دیش کے تعلقات کشیدہ نہیں تھے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود اس وقت بنگلہ دیش میں انتخابی عمل پر بہت سے لوگوں نے سوالات اٹھائے تھے لیکن ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے کی اپیل کے علاوہ سرکاری طور پر کچھ نہیں کہا گیا۔
کلول کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور بات چیت جاری رہی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ حال ہی میں محمد یونس امریکہ گئے تھے اور انھوں نے جو بائیڈن سے ملاقات کی تھی۔
اس تمام پیشرفت کو دیکھنے کے بعد ہر کوئی تجسس میں ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے این ٹی وی بنگلہ دیش کے سینیئر صحافی برشون کبیر کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ برصغیر کے بارے میں ایک مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں کیونکہ وہ نریندر مودی کے بہت قریب ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جب یہ معلوم ہوا کہ ٹرمپ اقتدار میں واپس آ رہے ہیں تو بنگلہ دیش کے لوگوں میں اس بارے میں ملے جلے جذبات تھے لیکن محمد یونس کی قیادت میں موجودہ حکومت کے امریکہ کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ یقینی ہے کہ یہاں بنگلہ دیش میں کوئی تشویشناک صورتحال نہیں لیکن ہاں ہر کوئی اگلے چند مہینوں کا بے صبری سے انتظار کرے گا کہ یہاں سے حالات کیسے آگے بڑھتے ہیں۔‘
کبیر کہتے ہیں کہ ’آخر کار امریکہ کی خارجہ پالیسی وہی رہتی ہے۔ اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ ٹرمپ کے صدر بننے سے انڈیا اور بنگلہ دیش کے تعلقات کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچے گا۔‘
بنگلہ دیش کے ہندوؤں سے متعلق ٹرمپ کا بیان
امریکہ کے نو منتخب صدر ٹرمپ نے اپنے دیوالی کے پیغام میں بنگلہ دیشی ہندوؤں اور وزیر اعظم نریندر مودی کے حوالے سے ایک بیان پوسٹ کیا تھا جس پر سوشل میڈیا پر بحث شروع ہو گئی تھی۔
انھوں نے لکھا تھا کہ ’میں بنگلہ دیش میں ہندوؤں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف وحشیانہ تشدد کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ انھیں مشتعل ہجوم کے حملوں کا سامنا ہے۔‘
ٹرمپ نے کہا کہ ’میرے دور میں ایسا کبھی نہیں ہوا، کملا اور جو بائیڈن نے امریکہ سمیت پوری دنیا میں ہندوؤں کو نظر انداز کیا۔ انھوں نے اسرائیل سے یوکرین تک ہماری اپنی جنوبی سرحد تک تباہی مچا دی لیکن ہم امریکہ کو دوبارہ مضبوط بنائیں گے اور طاقت کے ذریعے امن واپس لائیں گے۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’ہم امریکہ میں ہندوؤں کو بنیاد پرست بائیں بازو کے مخالف مذہب ایجنڈے کے خلاف بھی تحفظ فراہم کریں گے۔ ہم آپ کی آزادی کے لیے لڑیں گے۔ ہم انڈیا اور میرے اچھے دوست وزیر اعظم مودی کے ساتھ اپنی شراکت داری کو بھی مضبوط کریں گے۔‘
ٹرمپ امریکہ کے پہلے بڑے سیاستدان ہیں جنھوں نے پہلی بار بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے خلاف مظالم پر بات کی۔ اپنی ہندو جڑوں کے باوجود کملا ہیرس نے اس معاملے پر اپنی خاموشی برقرار رکھی۔
منوہر پاریکر انسٹیٹیوٹ فار ڈیفنس سٹڈیز اینڈ اینالیسس کی ریسرچ فیلو سمرتی کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ٹرمپ کی جانب سے دیوالی پر ہندوؤں کے حوالے سے دیے گئے بیان کو بنگلہ دیش کی عبوری حکومت پر تنقید کے طور پر لیا گیا اور کسی بھی صورت میں محمد یونس کے ٹرمپ کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں۔
تاہم بعض ماہرین نے اسے انتخابات سے بھی جوڑا اور دعویٰ کیا کہ ٹرمپ صدارتی الیکشن میں ہندو اور انڈین ووٹرز کو راغب کرنے کے لیے ایسے بیانات دے رہے تھے۔
سنجے بھردواج کہتے ہیں کہ ’سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ بنگلہ دیش کو کتنی سکیورٹی فراہم کر پائے گا کیونکہ بنگلہ دیش کی حکومت امریکہ کے بغیر نہیں چل سکتی۔‘
کیا شیخ حسینہ اقتدار میں واپسی کر سکتی ہیں؟
بنگلہ دیش اس وقت غیر مستحکم سیاسی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ شیخ حسینہ کے اقتدار چھوڑنے کے بعد وہاں صرف عبوری حکومت چل رہی ہے۔
سنجے بھردواج کہتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش میں جمہوریت ابھی تک بحال نہیں ہوئی اور فی الحال کوئی نہیں جانتا کہ نئی حکومت کب بنے گی۔‘
سوال یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں نئی حکومت کے لیے انتخابات کب ہوں گے؟
گذشتہ ماہ عبوری حکومت کے مشیر ڈاکٹر آصف نذر نے اپنے بیان میں انتخابات کے حوالے سے اشارہ دیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ آئندہ ایک سال کے اندر انتخابات ہو سکتے ہیں تاہم اس کے لیے انتخابات کی سمت میں بہتری اور سیاسی معاہدے ضروری ہیں۔
آصف نذر نے کہا تھا کہ اب ملک میں الیکشن کمیشن بنے گا اور ووٹر لسٹ تیار کی جائے گی اور اگر یہ کام مکمل ہو گیا تو اگلے سال تک انتخابات ہو سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ملک میں انتخابات کے اعلان کا اختیار عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس کے پاس ہے۔
سمرتی ایس پٹنائک کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں محمد یونس پر دباؤ بڑھے گا کیونکہ ٹرمپ انھیں بائیڈن کے مقابلے میں زیادہ وقت نہیں دیں گے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ٹرمپ محمد یونس سے کہیں گے کہ بنگلہ دیش میں جلد از جلد انتخابات کرائے اور دوسری بات یہ کہ اب عوامی لیگ کے انتخابات میں حصہ لینے کا امکان بڑھ گیا ہے۔‘
پٹنائک کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ کی پارٹی کو اپنا کھویا ہوا سیاسی میدان دوبارہ حاصل کرنے میں مدد ملے گی جبکہ سنجے بھردواج کہتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش میں عوامی لیگ واپس آئے گی، چاہے شیخ حسینہ کی قیادت میں ہو یا ان کے بغیر۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اگرچہ عوامی لیگ میں بہت سے لبرل ڈیموکریٹس شیخ حسینہ کو پسند نہیں کرتے لیکن عوامی لیگ کے لوگ پر امید ہیں کہ انھیں بنگلہ دیش میں سیاسی جگہ مل جائے گی۔‘