جب 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ پہلی مرتبہ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تو ابتدائی دنوں میں میلانیا وائٹ ہاؤس سے غائب ہی رہیں اور نیو یارک میں اپنے کم عمر بیٹے کے ساتھ رہائش پذیر رہیں۔
امریکی صدارتی انتخاب میں اپنے شوہر کی فتح کے اگلے روز میلانیا ٹرمپ سوشل میڈیا پر آئیں تاکہ قوم سے خطاب کر سکیں۔
ٹرمپ کی جیت کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’امریکیوں کی اکثریت نے ہم پر بھروسہ کر کے ہمیں ایک اہم ذمہ داری سونپی ہے۔‘
میلانیا کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم اس ملک کے دل یعنی آزادی کی حفاظت کریں گے۔‘ انھوں نے امریکیوں سے درخواست کی کہ وہ نظریات سے بالاتر ہو کر ملک کے بارے میں سوچیں۔
ان کے اس مختصر پیغام سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ میلانیا ماضی کے برعکس اس بار امریکی خاتونِ اول کے کردار میں زیادہ متحرک نظر آئیں گی۔
جب 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ پہلی مرتبہ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تو ابتدائی دنوں میں میلانیا وائٹ ہاؤس سے غائب ہی رہیں اور نیو یارک میں اپنے کم عمر بیٹے کے ساتھ رہائش پذیر رہیں۔
وہ ماضی کی خواتینِ اول کے مقابلے میں الگ اور ان کی بنائی گئی روایات سے بھی الگ تھلگ نظر آتی تھیں۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ میلانیا خاتون اوّل کے کردار میں نہ صرف متحرک نظر آئیں گی بلکہ شاید اپنی ذمہ داریوں کو بھی کسی علیحدہ نظریے سے دیکھیں گی۔
سنہ 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد 54 سالہ سابق سلوینین نژاد امریکی ماڈل نے وائٹ ہاؤس کی سیاسی زندگی سے دور نیو یارک میں ٹرمپ ٹاور میں زیادہ تر وقت گزارا تھا۔
کچھ لوگ انھیں ایک ’معمہ‘ بھی قرار دیتے ہیں جو کہ سابق خواتین اوّل کے مقابلے میں کافی غیر عوامی زندگی گزارنے کو ترجیح دیتی ہیں اور وائٹ ہاؤس میں یا صدارتی مہم کے دوران کم ہی تقریریں کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
مشعل اوبامہ اور ہیلری کلنٹن پر کتاب لکھنے والی بوسٹن یونیورسٹی کی پروفیسر ٹیمی وِجل میلانیا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’وہ جدید دور کی خواتین اوّل میں تھوڑی منفرد ہیں۔‘
’وہ وہی چیزیں کرتی ہیں جو ان کا دل چاہتا ہے اور ویسا بالکل نہیں کرتیں جو کہ انھیں (بطور خاتون اوّل) کرنا چاہیے۔ لیکن اس کے باوجود بھی وہ توقعات پر پورا اُترتی ہیں۔‘
حالیہ برسوں میں میلانیا نگاہوں سے اوجھل رہی ہیں اور وہ بھی ایسے وقت میں جب ان کے شوہر کو متعدد قانونی چیلنجز کا سامنا تھا اور وہ صدارتی مہم بھی چلا رہے تھے۔
ان کی غیر موجودگی نہ صرف نوٹ کی گئی بلکہ متعدد میڈیا اداروں نے اس پر مضامین بھی چھاپے: ’میلانیا کہاں ہیں؟‘
لیکن بہرحال میلانیا اہم موقعوں پر نظر آتی رہی ہیں، مثال کے طور پر جب 2022 کے آخر میں ڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ صدارتی دوڑ کا حصہ بننے کا اعلان کیا تو ان کی اہلیہ ان کے ساتھ موجود تھیں۔
رواں برس جولائی میں سُرخ لباس زیب تن کیے وہ رپبلکن نیشنل کنونشن میں بھی شریک ہوئی تھیں، تاہم ماضی کی روایات سے انحراف کرتے ہوئے انھوں نے اس موقع پر کوئی تقریر نہیں کی۔
لیکن جب وہ بولتی ہیں تو اپنے الفاظ کا انتخاب انتہائی احتیاط سے کرتی ہیں اور پیچھے اپنے نقطہ نظر کے بارے میں اشارے چھوڑ جاتی ہیں۔
صدارتی الیکشن سے کچھ ہفتوں پہلے انھوں نے میڈیسن سکوائر گارڈن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی ریلی کے دوران مختصر تقریر کی اور کہا کہ نیو یارک جیسا ایک ’عظیم شہر‘ بڑھتے ہوئے جرائم کے سبب پستی میں گِر رہا ہے۔
وہ اس وقت بھی منظرِ عام پر آئیں جب ان کے شوہر پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ انھوں نے اس موقع پر لوگوں سے اتحاد کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی اور حملہ آور کو ’درندہ‘ قرار دیا۔
اس کے بعد فاکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں میلانیا نے الزام عائد کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے سیاسی مخالفین اور میڈیا نے ایک ’ایسا زہریلا ماحول پیدا کر دیا‘ جو کہ ان کے شوہر پر حملے کی وجہ بنا۔
اپنی حالیہ کتاب میں میلانیا نے اپنے ماڈلنگ کیریئر کے بارے میں لکھا، اپنے شوہر کے لیے اپنی پسندیدگی اور آپس کے اختلافات کا بھی ذکر کیا، لیکن انھوں نے ان تمام نجی معاملات کی تفصیلات کا ذکر نہیں کیا۔
تاہم وہ متنازع موضوعات پر اپنے شوہر کے مؤقف کی حمایت کرتی ہوئی نظر آئی ہیں، جیسے کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے سنہ 2020 میں الیکشن چُرائے جانے کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔
ان کی سابق پریس سیکریٹری سٹیفنی گریشم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ میلانیا ٹرمپ نے کیپیٹل ہِل حملے کے بعد تشدد کی مذمت پر مبنی بیان دینے سے انکار کر دیا تھا اور اسی سبب سٹیفنی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔
کچھ تبصرہ نگار یہ بھی سوال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ میلانیا بطور خاتون اوّل اپنے کردار کو پسند بھی کرتی ہیں یا نہیں۔
ان پر کتاب لکھنے والی سابق سی این این کی رپورٹر کیٹ بینیٹ کہتی ہیں کہ میلانیا کو خاتون اوّل کا کردار پسند ہے لیکن ابتدائی طور پر وہ ضرور ہچکچاہٹ کا شکار تھیں۔
بینیٹ نے 2021 میں پیپلز میگزین کو بتایا تھا کہ ’وہ خاتونِ اوّل سے جُڑی چیزوں اور وائٹ ہاؤس میں رہنے کو پسند کرتی ہیں۔ میں خیال میں وہ اس سے بہت لُطف اندوز ہوتی ہیں۔‘
اپنی کتاب میں میلانیا نے لکھا تھا کہ وہ ’بطور خاتونِ اوّل کردار کو انتہائی ذمہ داری سے نبھاتی ہیں۔‘
سنہ 1999 میں انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر ان کے اس وقت کے بوائے فرین ڈونلڈ ٹرمپ کبھی صدر بنے تو وہ (میلانیا) روایات کا پاس رکھنے والی سابق خواتین اوّل جیکلین کینیڈی اور بیٹی فورڈ کو بطور رول ماڈل فالو کریں گی۔
جیکی کینیڈی کو ایک فیشن آئیکون سمجھا جاتا تھا جو کہ وائٹ ہاؤس کی روایات میں دلچسپی رکھتی تھیں، جبکہ بیٹی فورڈ اسقاطِ حمل اور خواتین کے حقوق کی علمبردار تھیں۔
واشنگٹن میں منتقلی کے بعد میلانیا نے بطور خاتونِ اوّل اپنی ذمہ داریاں اُٹھائی تھیں اور وہ غیرملکی مہمانوں کی آمد کے موقع پر دیے جانے والے ظہرانوں اور عشائیوں کی میزبانی کرتی تھیں۔
انھوں نے وائٹ ہاؤس کی تزین و آرائش پر بھی توجہ دی تھی اور وہاں رینویشن کروائی تھی اور کرسمس کے موقع پر ڈیکوریشن میں بھی ان کی خاصی دلچسپی نظر آتی تھی۔
ان کے ملبوسات بھی میڈیا میں تنازعات اور خبروں میں رہتے تھے۔ سنہ 2018 میں انھوں نے پناہ گزین بچوں کے ایک مرکز کا دورہ کیا تھا اور اس وقت ان کی جیکٹ پر لکھا تھا: ’آئی ڈونٹ کیئر، ڈو یو؟‘ یعنی ’مجھے پرواہ نہیں ہے، کیا آپ کو ہے؟‘
میلانیا پر اس وقت کڑی تنقید ہوئی تھی جب ان کی سابق دوست اور سینیئر مشیر نے ان کی ایک خفیہ ویڈیو بنائی تھی۔ اس ویڈیو میں وہ غصے کا اظہار کرتی ہوئی سُنائی دی تھیں کیونکہ پناہ گزین بچوں اور ان کے خاندانوں کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کے سبب لوگ ان پر بھی تنقید کر رہے تھے۔
بعد میں انھوں نے انکشاف کیا کہ اس پالیسی کے حوالے سے انھیں اندھیرے میں رکھا گیا تھا اور انھوں نے اپنے شوہر کو آگاہ کردیا کہ وہ اس پالیسی کی حمایت نہیں کرتیں۔
پروفیسر ٹیمی وِجل کہتی ہیں کہ بطور خاتون اوّل اپنے پہل دور میں میلانیا سیاسی طور پر ناتجربہ کار تھیں اور ان کا سٹاف بھی ناتجربہ کار اور کبھی غیروفادار ثابت ہوا۔
پروفیسر ٹیمی وجل کے مطابق لیکن اس کے باوجود بھی میلانیا خاموشی سے اپنے کاموں میں مصروف رہیں اور خصوصاً بچوں کے حقوق کے لیے آن لائن ہراسانی کے خلاف اپنی ’بی بیسٹ‘ مہم کے دوران آواز اُٹھاتی رہیں۔
وہ منشیات سے متاثرہ بچوں کے لیے بھی کام کرتی ہیں اور اس کے لیے انھوں نے اپنی ایک فاؤنڈیشن بھی قائم کر رکھی ہے۔
بہت سارے لوگوں کو توقع ہے کہ میلانیا دوبارہ واشنگٹن منتقل ہونے کے بعد بھی اپنا کام جاری رکھیں گی۔ تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ وہاں مستقل رہائش اختیار کریں گی یا نہیں۔
پروفیسر ٹیمی وجل کہتی ہیں کہ گذشتہ برسوں میں خاتون اوّل کا کردار بہت تیزی سے تبدیل ہوا ہے اور میلانیا ٹرمپ ’خود اس بات کا انتخاب کریں گی کہ وہ عوامی طور پر کتنی متحرک نظر آنا چاہتی ہیں۔‘
’میرے خیال میں وہ ایسا (متحرک رہنا) اب اراداتاً کریں گی۔‘