وزیر اعلیٰ بلوچستان نے بی بی سی کو دیے ایک انٹرویو میں صوبے میں بڑھتی دہشت گردی کا ذمہ دار بلوچستان لبریشن آرمی اور گذشتہ چند سالوں میں ’ان گروہوں کو خوش کرنے کی حکومتی اور فوج کی پالیسی‘ کو ٹھہرایا ہے، تاہم وہ کہتے ہیں کہ اب ’اس تنظیم سے بات چیت نہیں کی جائے گی‘۔
’ہماری فورسز اس وقت گرے ایریا میں کام کر رہی ہیں یعنی دوست اور دشمن کی پہچان ناممکن ہوتی جا رہی ہے۔‘
یہ کہنا تھا بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کا جن کے صوبے میں شدت پسندی کی کارروائیوں میں تیزی دیکھی گئی ہے اور گذشتہ چند ماہ کے دوران کالعدم شدت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی نے متعدد حملوں میں پاکستانی فوج کو نشانہ بنایا ہے۔
ان حملوں میں تازہ ترین حملہ رواں ہفتے کوئٹہ کے ریلوے سٹیشن پر ہونے والا خودکش حملہ تھا جس میں سکیورٹی اہلکاروں کے علاوہ عام شہری بھی مارے گئے۔ اس حملے کی ذمہ داری بھی بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی اور اسے اپنی ’بڑی انٹیلی جنس کامیابی‘ قرار دیا۔
خودکش حملے میں 30 سے زیادہ افراد کی ہلاکت کے بعد بلوچستان میں تین روزہ سوگ منایا جا رہا ہے لیکن حالات کی کشیدگی کی جھلک کوئٹہ کے شہریوں کی بات چیت میں واضح ہے اور وہ اس خوف کا اظہار کر رہے ہیں جو صوبے میں علیحدگی پسند تنظیموں کے حملوں اور پھر ان کے خلاف ریاستی کارروائیوں کی وجہ سے بڑھتا جا رہا ہے۔
بی بی سی اردو سے خصوصی بات چیت میں وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے کہا کہ کوئٹہ سٹیشن حملے کی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے اورآئندہ چند روز میں تحقیقات مکمل کر کے خودکش حملہ آور کے ’سہولت کاروں، ان کے ہینڈلرز اور رابطہ کاروں‘ کو گرفتار کر لیا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے اس انٹرویو میں صوبے میں بڑھتی دہشت گردی کا ذمہ دار بلوچستان لبریشن آرمی اور گذشتہ چند سالوں میں ’ان گروہوں کو خوش کرنے کی حکومتی اور فوجی پالیسی‘ کو ٹھہرایا. تاہم وہ کہتے ہیں کہ اب ’اس تنظیم سے بات چیت نہیں کی جائے گی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مشکل صورتحال کا سامنا ہے جس کی وجہ ’دشمن کا واضح نہ ہونا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک خفیہ معلومات کی بنیاد پر لڑی جانے والی جنگ ہے اور کسی کو شک نہیں کہ را (انڈین خفیہ ادارہ) اس کی فنڈنگ کر رہی ہے۔ بلوچستان کی اپنی کمیاں ہیں جس کی وجہ سے وہ ان کا مرکز بن گیا ہے۔ اب اس جنگ کو انٹیلی جنس سے ہی قابو کرنا ہے۔‘
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ حکومت اب اس سلسلے میں موجودہ حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی اور مستقبل کی حکمتِ عملی کے بارے میں کام کر رہی ہے۔ ’ہم واپس بلیک بورڈ کی جانب جا رہے ہیں تاکہ یہ طے کر سکیں کہ سٹریٹجی بنائیں اور دیکھیں کون سی سٹریٹجی کام نہیں کر رہی جو پے در پے واقعات ہو رہے ہیں۔‘
انھوں نے انٹرویو کے دوران یہ بھی کہا کہ چند سال پہلے بلوچستان کے اس وقت کے کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل سرفراز علی نے بلوچ علیحدگی پسندوں کو واپس قومی دھارے میں لانے کی کوشش کی جو ان کے خیال میں غیر مناسب حکمتِ عملی تھی جس کا صوبے کو اب نقصان ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دیکھنا ہو گا کہ ’وہ کون سی غلطی ہے جو ہم نے ٹی ٹی پی کے لیے بھی کی کہ ہم نے انھیں چھوڑا اور واپس لائے اور یہی غلطی ہم نے بلوچ علیحدگی پسندوں کے ساتھ بھی کی کہ انھیں چھوڑ دیا اور اب دیکھیں وہ کیا کر رہے ہیں۔‘
خیال رہے کہ سابق کور کمانڈر بلوچستان لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی دورانِ ملازمت بلوچستان کے ہی ضلع لسبیلہ می ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاک ہوئے تھے اور فوج کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ان کی ہلاکت ہیلی کاپٹر میں تکنیکی خرابی اور خراب موسم کے باعث ہوئی تھی۔
اس سوال پر کہ بلوچستان میں جاری سکیورٹی فورسز کے آپریشنز اور بی ایل اے جیسی شدت پسند تنظیموں کے حملوں کا یہ سلسلہ ختم کرنے کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کیوں نہیں کیا جاتا، وزیراعلیٰ نے کہا کہ ’جو لڑ رہے ہیں وہ یہ نہیں کہتے کہ ہماری کوئی شکایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم بلوچ شناخت (کی بنیاد) پر پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں۔ اور پورا پاکستان اس تذبذب میں ہے کہ یہ حقوق کی کوئی جنگ ہے یا مرکز کے ساتھ کوئی اختلاف ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ نہ وہ لڑنے والا بلوچ اس دلیل پر یقین کرتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی سچائی ہے۔‘
سرفراز بگٹی کے مطابق اس تذبذب کے نتیجے میں اب پاکستانی قوم یہ سمجھتی ہے کہ ’مذہب کے نام پر دہشتگردی، دہشتگردی ہے۔ مگر قوم پرستی کے نام پر دہشتگری (کا مطلب) ناراض بلوچ ہیں‘۔
بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن کیے جا رہے ہیں۔ ’اس وقت بلوچستان کے کسی بھی علاقے میں فوجی آپریشن نہیں کیے جا رہے۔ پیرا ملٹری فورسز جن میں ایف سی بلوچستان، لیویز ، سی ٹی ڈی اور پولیس شامل ہیں۔ خطرے کو دیکھتے ہوئے خفیہ معلومات کی بنیاد پر کارروائیاں ضرور کرتی ہیں لیکن اگر فوج استعمال ہوتی بھی ہے تو کیا ہے؟‘
خیال رہے کہ بلوچستان میں طویل عرصے سے شدت پسندی کے خاتمے کے لیے مختلف علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس دوران ایسی اطلاعات بھی آتی رہی ہیں کہ ان کارروائیوں میں پاکستانی فوج کے دستے بھی شامل ہوئے ہیں جبکہ دوسری جانب بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں کہتی ہیں کہ بلوچستان میں بڑے پیمانے پر فوج کی موجودگی انہی آپریشنز کے لیے ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ خطرے کی بنیاد پر کوئی بھی فورس استعمال کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ’ہمیں اچھی انٹیلیجنس کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہم حکمتِ عملی بنا رہے ہیں‘۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان میں کئی سالوں سے جاری یہ ’حکمتِ عملی‘ حکومت اور سکیورٹی فورسز کے لیے کارگر ثابت نہیں ہو رہی۔ بلوچستان میں بدامنی اور مسلح علیحدگی پسند تنظیموں کے حملوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ان حملوں کی زد میں اب سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور چینی شہریوں کے علاوہ عام شہری بھی آنے لگے ہیں جبکہ ان حملوں کا دائرہ کار اب بلوچستان سے نکل کر پاکستان کے دیگر حصوں میں بھی پھیلتا نظر آتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ علیحدگی کی حامی شدت پسند تنظیمیں زیادہ منظّم اور بلوچ شہریوں خصوصاً نوجوانوں کی بڑی تعداد ان کے ایجنڈے سے متاثر نظر آتی ہے جبکہ صوبے میں سکیورٹی فورسز اور سیاسی حکومتوں پر عدم اعتماد بڑھتا جا رہا ہے۔
اس حکومتی اور فوجی حکمتِ عملی کی ناکامی سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعلی بلوچستان نے کہا کہ اس حکمتِ عملی کا فائدہ ہوا لیکن یہ صوبے کی ’بدقسمتی رہی کہ ہماری حکمتِ عملی میں مستقل مزاجی نہیں تھی۔ جب جب ہمارا طریقہِ کار جارحانہ ہوئی بلوچستان میں امن قائم ہوا۔‘
سرفراز بگٹی نے کہا کہ وہ اس بیانیے سے متفق نہیں کہ فوج نے بلوچستان کے بارے میں سخت اور غیر لچکدار حکمتِ عملی اپنائی ہوئی ہے۔ ’میں متفق نہیں کہ فوج نے یہاں ہارڈ لائن لی ہوئی ہے۔ اگر فوج نے اتنی ہارڈ لائن لی ہوتی جتنی خیبر پختونخواہ میں لی ہے تو آج یہاں یہ پرتشدد کاروائیاں نہ ہو رہی ہوتیں۔‘
خیال رہے قوم پرست اور کچھ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں پاکستانی صوبے میں خفیہ اداروں پر لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کا الزام عائد کرتی ہیں۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے حکومت کی جانب سے قائم کردہ کمیشن کے مطابق اس برس جنوری تک بلوچستان میں لاپتہ افراد کے دو ہزار 752 کیسز تھے۔
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیراعلی بلوچستان سرفراز بگٹی کو پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھا جاتا ہے اور صوبے کی صورتحال پر نظر رکھنے والے کچھ مبصرین سمجھتے ہیں کہ ان کی یہ ’قربت‘ بلوچ عوام میں ان کی ساکھ کو متاثر کرتی ہے۔ دوسری جانب یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی یہی قربت انھیں فریقین کے درمیان مذاکرات اور بات چیت کا ذریعہ بھی بنا سکتی ہے۔
ہم نے یہی سوال وزیراعلیٰ سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے اپنے اچھے تعلقات کو مثبت نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یہ کہ ان کی حکومت کے دوران فوج یا سکیورٹی فورسز کی جانب سے ان پر کبھی کوئی دباو نہیں ڈالا گیا۔
بات چیت کے دوران جہاں سرفراز بگٹی بلوچ لبریشن آرمی اور دیگر شدت پسند تنظیموں سے مذاکرات کے امکان کو مسترد کرتے دکھائی دیے وہیں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ غیر مسلح اور سیاسی تنظیموں جیسے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور ان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ سے کسی بھی فورم پر بات چیت کو تیار ہیں۔
تاہم انھوں نے کہا کہ معصوم لوگوں کے قتل، لوگوں کو بسوں سے اتار کر مارنے، پنجابی آباد کاروں کو نشانہ بنانے اور ریلوے سٹیشنز اور سکولوں پر حملوں جیسی پرتشدد کاروائیوں کی مذمت ہونی چاہیے۔
پاکستان میں بلوچستان کی حکومت، وفاق اور فوج کی جانب سے بار بار یہکہا جاتا ہے کہ صوبے میں خراب حالات کی ذمہ دار علیحدگی پسند تنظیموں کو انڈیا کی سرپرستی اور افغانستان کی مدد حاصل ہے۔ تاہم ان حملوں میں غیر ملکی ایجنسیوں کے عمل دخل سے متعلق ٹھوس ثبوت و شواہد پیش نہیں کیے جاتے۔
اس بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعلی بلوچستان نے کہا کہ ’واقعاتی شواہد بھی موجود ہی اور ٹھوس ثبوت بھی ہیں۔ یوسف رضا گیلانی اور عمران خان بطور وزیراعظم بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر ڈوزیئرز دے چکے ہیں۔ ہم جب یہ بات کہہ رہے ہیں تو یہ محض الزام نہیں، ہم مکمل ذمہ داری کے ساتھ کہہ رہے ہیں۔‘
بلوچستان میں حال ہی میں دیگر صوبوں خصوصاً پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدوروں اور ملازمین پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے سرفراز بگٹی نے کہا کہ حال ہی میں ’ولنیرایبل ایریا‘ کا ایک قانون منظور کروایا گیا ہے ’جس کے بعد ہم حکومت، پولیس، لیویز اور ایف سی کو ذمہ داری دے رہے ہیں تاکہ مکمل ریکارڈ رکھا جائےاور ان کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔‘
بلوچستان میں سی پیک سے جڑے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں کو بار بار نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان کی حفاظت سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیراعلی نے کہا کہ اس وقت صوبے میں پانچ سو کے قریب چینی شہری کام کر رہے ہیں جن کے تحفظ کے لیے تین ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکار تعینات ہیں۔ ’ان کی حفاظت کے لیے ہر ماہ سکیورٹی پلان کا جائزہ لیا جاتا ہے جبکہ ضوابط کار کی مکمل پابندی بھی کی جاتی ہے۔ ان کے لیے بلٹ پروف اور بم پروف گاڑیاں دی گئی ہیں۔‘
سرفراز بگٹی کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھیں چینی شہریوں کے تحفّظ کے معاملے میں چینی حکومت کی جانب سے کسی دباؤ کا علم نہیں تاہم ’بات چیت ہو گی تو وہ ہمارے حق میں ہو گی۔ اس کے لیے ہمیں ایک سیاسی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے جس کے لیے سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘