بی بی سی اردو نے ہزاروں بار شیئر کی گئی ایک تصویر کا جائزہ لیا ہے جس میں بظاہر ماہ رنگ بلوچ کے پس منظر میں لاپتہ افراد کے چہروں کے بیچوں بیچ ایک ایسے شخص کا چہرہ بھی دیکھا جا سکتا ہے جسے کوئٹہ میں ریلوے سٹیشن پر خودکش حملے سے جوڑا جا رہا ہے۔
پاکستان کے ایک بڑے ریلوے سٹیشن پر 26 افراد کی ہلاکت کا باعث بننے والا زوردار دھماکہ اس وقت صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں سکیورٹی کی تشویشناک صورتحال کو بیان کرتا ہے۔
اگرچہ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم علیحدگی پسند گروہ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی ہے تاہم گذشتہ کچھ دنوں سے صوبے میں لاپتہ افراد کے مسئلے پر آواز اٹھانے والے حلقے، خاص طور پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ماہ رنگ بلوچ، پر تنقید کی ایک لہر سامنے آئی ہے۔
سنیچر کے اس واقعے کے بعد سے سوشل میڈیا پر ایسے کئی پیغامات توجہ حاصل کر رہے ہیں جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کوئٹہ ریلوے سٹیشن دھماکے کے پیچھے ایک ایسا خودکش بمبار تھا جو ماضی میں ’مسنگ پرسن‘ قرار دیا گیا تھا۔
بی بی سی اردو نے ہزاروں بار شیئر کی گئی ایک تصویر کا جائزہ لیا ہے جس میں بظاہر ماہ رنگ بلوچ کے پس منظر میں لاپتہ افراد کے چہروں کے بیچوں بیچ ایک ایسے شخص کا چہرہ بھی دیکھا جا سکتا ہے جسے کوئٹہ میں ریلوے سٹیشن پر خودکش حملے سے جوڑا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ ہم نے یہ بھی جاننے کی کوشش کی ہے کہ آیا یہ معاملہ محض فوٹوشاپ کا ہے یا ’رفیق‘ کے نام سے کوئی ایسا شخص واقعی میں موجود ہے جو بلوچستان سے لاپتہ ہوا تھا۔
اس بارے میں مزید جاننے کے لیے پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ کوئٹہ کے ریلوے سٹیشن پر ’خودکش حملہ‘ کس نے کیا تھا۔
اس دھماکے کے بعد سوشل میڈیا پر کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے حملہ آور محمد رفیق بزنجو کی ایک تصویر جاری کی تھی۔
کالعدم بی ایل اے کے اس پیغام کے مطابق محمد رفیق بزنجو تنظیم 2023 میں مجید بریگیڈ کا حصہ بنے تھے۔
مگر کیا یہ وہی رفیق بزنجو ہی ہیں جنھیں ماہ رنگ بلوچ کی ایک تصویر کے پیس منظر میں دیکھا جاسکتا ہے؟
جب سوشل میڈیا پر گردش کرتی اس تصویر کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ کئی ماہ پرانی ہے۔ یہ تصویر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے پریس کلب کے باہر دستمبر 2023 کے دوران ’ریزیلیئنس اینڈ رزسٹنس‘ نامی ایک سیمینار کی ہے جہاں ماہ رنگ بلوچ نے لاطینی امریکہ کے مشہور انقلابی رہنما چے گویرا سے منسوب کی جانے والی سرخ ٹوپی پہنی تھی۔
گوگل لینز اور ریورس امیج سرچ سے معلوم ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی حالیہ تصویر کو فوٹوشاپ کیا گیا ہے اور یوں ماہ رنگ کے پیچھے موجود ایک لاپتہ شخص کی تصویر ہٹا کر خودکش حملہ آور رفیق بزنجو کی تصویر چسپاں کی گئی ہے۔
یعنی یہ دعویٰ درست نہیں کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی رفیق بزنجو کو ’مسنگ پرسنز کے طور پر ظاہر کرتی رہی‘ ہیں۔
خودکش حملہ آور رفیق اور لاپتہ رفیق ایک ہی ہیں؟
کالعدم بی ایل اے کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق خودکُش حملہ آور محمد رفیق بزنجو کا تعلق بلوچستان کے کراچی سے متصل ضلع حب سے تھا۔
تاہم لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل رفیق اومان کا تعلق ایران سے متصل بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے بل نگور سے بتایا گیا ہے۔
محمد رفیق بزنجو کے والد کا نام مراد علی بزنجو بتایا گیا ہے۔ جبکہ رفیق اومان کے والد کا نام حاصل بلوچ ہے اور ان کا تعلق ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے قبیلے کھوسہ سے ہے۔
رفیق اومان ضلع کیچ میں بل نگور کے ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے اور ان کی گمشدگی باقاعدہ پولیس تھانہ تربت کے روزنامچے میں درج ہے۔
پولیس تھانہ تربت میں رفیق اومان کے والد حاصل بلوچ نے جو درخواست دی اس کے مطابق وہ ستمبر 2014 میں لاپتہ ہوئے تھے اور انھوں نے پولیس سے اپنے بیٹے کی بازیابی کی درخواست کی تھی۔
ستمبر 2014 میں پولیس تھانہ تربت میں رفیق اومان کے والد کی درخواست پر جو روزنامچہ درج کیا گیا اس میں ان کی عمر 40 سال درج ہے، یعنی اب لاپتہ رفتیق اومان کی عمر 50 سال کے لگ بھگ ہوگی۔
’لاپتہ رفیق اومان کبھی خودکُش حملہ نہیں کر سکتے‘
سمیعہ بلوچ رشتے میں رفیق اومان کی بھانجی اور بہو ہیں۔
فون پر رابطہ کرنے پر سمیعہ بلوچ نے بتایا کہ رفیق اومان کا تعلق درس و تدریس کے مقدس پیشے سے ہے۔ لاپتہ ہونے سے قبل وہ بل نگور کے واحد بوائیز ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔
انھوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ’کسی تحقیق کے بغیر‘ ان کے ماموں کی تصویر کو خودکُش حملہ آور سے جوڑا گیا۔
سمیعہ بلوچ کا کہنا تھا کہ ’میرے ماموں علم کی روشنی پھیلا رہے تھے اور وہ کبھی بھی خودکش حملہ جیسا اقدام نہیں کر سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا ستمبر 2014 میں جس روز ان کو لاپتہ کیا گیا، وہ اپنے سکول کے کسی کام کی غرض سے بل نگور سے ضلع کیچ کے ہیڈکوارٹر تربت گئے تھے لیکن وہاں سے ان کو لاپتہ کیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ جب وہ گھر واپس نہیں پہنچے تو ’ہم نے ان کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔۔۔ یہ معلوم ہوا کہ ان کو نامعلوم افراد نے کیچ گرامر سکول کے قریب سے اغوا کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ماموں 2014 سے تاحال لاپتہ ہیں‘ اور طویل عرصے سے ان کی گمشدگی کی وجہ سے نہ صرف ان کے بچے بلکہ ’ہمارا پورا خاندان ایک اذیت سے گزر رہا ہے۔‘
سمیعہ بلوچ نے بتایا ان کی گمشدگی کے بعد ان کی بازیابی کے لیے ہم ہردروازے پر گئے لیکنمایوسی کے سوا ہمیں کچھ بھی نہیں ملا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے ماموں ’بے قصور ہیں۔ اگر انھوں نے کوئی جرم کیا تو ان کو عدالتوں میں پیش کیا جائے۔
’اگر انھوں نے کوئی جرم نہیں کیا تو ان کو چھوڑ دیا جائے۔‘