اب یہ شائقین کا فیورٹ فارمیٹ ہے اور ورلڈ کپ سے پاکستان کرکٹ کے جو شائقین روٹھے تھے، انھیں واپس منا لانے کا موقع ہے۔ جس مومینٹم سے رضوان کی ٹیم آ رہی ہے اور جیسا سکواڈ آسٹریلیا نے طے کیا ہے، یہاں بھی تاریخ بدلنا کچھ مشکل نہ ہو گا۔
ون ڈے سیریز میں، جس تحکمانہ انداز سے پاکستان نے آسٹریلیا کو شکست دی، اس نے نہ صرف سابق آسٹریلوی کرکٹرز کے اپنی ٹیم پر تنقید کے در کھول دیے بلکہ آسٹریلوی کرکٹ اسٹیبلشمنٹ بھی اپنے ہی سابقہ سٹارز کے ہاتھوں تنقید کی زد میں آئی۔
سابق کپتان مائیکل کلارک کی نمایاں ترین آواز اپنے بورڈ کے رویے پر شاکی رہی کہ جس نے انڈیا کے خلاف ’بارڈر گواسکر ٹرافی‘ کے پانچ ٹیسٹ میچوں کی خاطر پاکستان کے خلاف وائٹ بال سیریز کو یکسر نظر انداز کیے رکھا۔
یہ خاصی دلچسپ صورت حال ہے کہ جس عہد میں عموماً ٹی ٹوئنٹی کو ٹیسٹ کرکٹ کی مارکیٹ کھانے پر لتاڑا جاتا ہے، وہاں مایہ ناز آسٹریلوی مبصرین وائٹ بال سیریز کو ٹیسٹ میچز کی نذر کیے جانے پر نالاں ہیں۔
گو خود آئی سی سی بھی ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ کے مستقبل کے بارے میں تفکرات اٹھاتی رہتی ہے مگر حالیہ ون ڈے سیریز میں بھی تماشائیوں کی نامکمل دلچسپی اور بیشتر خالی سٹینڈز اس امر کے غماز ہیں کہ بے تحاشہ کرکٹ کے اس دور میں شائقین کے لیے بھی اتنے زیادہ فارمیٹس کا بوجھ اٹھانا آسان نہیں۔
مگر کل محمد رضوان کی ٹیم گابا میں جو فارمیٹ کھیلنے اترے گی، اس کا مستقبل درخشاں ہے کہ یہی فارمیٹ تو ہے جسے شاید آخرِ کار باقی دونوں فارمیٹس کو پورا نگل جانا ہے۔ لیکن یہاں بھی سٹیڈیمز میں کتنی نشستیں بھر پائیں گی، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
جو سکواڈ آسٹریلیا نے پاکستان کے خلاف اتارنے کا فیصلہ کیا ہے، اسے اکّا دکّا بڑے ناموں کے سوا کسی سپر سٹار کی خدمات میسر نہیں۔ آسٹریلوی کرکٹ کی اس اگلی ٹی ٹوئنٹی جنریشن کو نہ صرف اپنے شائقین سٹیڈیمز تک کھینچ لانا ہیں بلکہ رضوان کی مضبوط الیون کو بھی دباؤ میں رکھنے کا چیلنج درپیش ہے۔
ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں پاکستان کا آخری ٹورنامنٹ وہی ورلڈ کپ تھا جہاں امریکہ سے شکست نے پاکستان کی قسمت پہ مہر لگا دی تھی اور جو آخری دو میچز پاکستان جیت بھی پایا، وہاں بھی فتح کا انداز کچھ فاتحانہ نہیں تھا۔
گو، اس نئے سکواڈ میں پاکستان کو محمد حسنین دستیاب نہ ہوں گے مگر حارث رؤف، شاہین آفریدی اور نسیم شاہ کی صورت میں رضوان کو وہ تینوں وسائل میسر ہیں جو ون ڈے سیریز میں ان کی برتری کے نمایاں ستون رہے۔
اگرچہ صائم ایوب کافی عرصہ پاکستان کے مستقبل ٹی ٹوئنٹی پلان کا حصہ تھے مگر اب انھیں اس فارمیٹ سے علیحدہ کر کے ٹیسٹ کرکٹ کے لئے مختص کر دیا گیا ہے۔ ایسے میں پاکستان کو طے یہ کرنا ہے کہ وہ محمد رضوان کے ساتھ دوسرا اوپنر کسے رکھیں گے اور بابر اعظم کس نمبر پر کھیلیں گے۔
اگرچہ ون ڈے سیریز میں پاکستان کے لیے چار پیسرز ہی کافی رہے مگر یہاں پاکستان کو پانچ مکمل بولرز کی ضرورت ہو گی کہ آسٹریلوی بیٹنگ بھلے ناتجربہ کار ہی سہی، پورے بیس اوورز پھر بھی کھیل ہی جائے گی۔
گذشتہ ماہ جب انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ کے لیے پاکستان نے بابر اعظم کو آرام دیا تھا تو ’مبصرین‘ نے خبردار کیا تھا کہ ایسے فیصلوں سے پاکستان کرکٹ کے خریدار کم پڑ جائیں گے اور سپانسرز بھی ’دوڑ‘ جائیں گے۔
مگر اس خدشے کے اظہار کے بعد، تاحال پاکستان نے جتنی بھی کرکٹ کھیلی ہے، وہ خریدار بڑھانے اور سپانسرز کھینچ لانے والی رہی ہے۔ بدقسمتی سے جن دونوں فارمیٹس میں وہ فتوحات پا رہے تھے، انھیں اتنی زیادہ مشتاق نگاہیں میسر نہیں ہوتیں جس قدر ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کو رہتی ہیں۔
اب یہ شائقین کا فیورٹ فارمیٹ ہے اور ورلڈ کپ سے پاکستان کرکٹ کے جو شائقین روٹھے تھے، انھیں واپس منا لانے کا موقع ہے۔ جس مومینٹم سے رضوان کی ٹیم آ رہی ہے اور جیسا سکواڈ آسٹریلیا نے طے کیا ہے، یہاں بھی تاریخ بدلنا کچھ مشکل نہ ہو گا۔