جب ایک 13 سالہ طالبہ کا پیغمبرِ اسلام کی توہین کا جھوٹا الزام فرانسیسی ٹیچر کے قتل کا باعث بنا

اکتوبر 2020 میں فرانس کے ایک سکول کے ٹیچر سیموئل پیٹی کو ایک چیچن مسلمان پناہ گزین نے پیغمبرِ اسلام کی توہین کرنے کے الزام میں قتل کر دیا تھا۔ پیرس میں اس قتل کے حوالے سے ایک مقدمہ چل رہا ہے جس میں آٹھ لوگوں پر یہ الزام ہے کہ انھوں نے چار برس قبل سیموئل پیٹی کے قاتل کی حوصلہ افزائی کی۔

اکتوبر 2020 میں فرانس کے ایک سکول کے ٹیچر سیموئل پیٹی کو ایک چیچن مسلمان پناہ گزین نے پیغمبرِ اسلام کی توہین کرنے کے الزام میں قتل کر دیا تھا۔

پیرس میں اس قتل کے حوالے سے ایک مقدمہ چل رہا ہے جس میں آٹھ لوگوں پر یہ الزام ہے کہ انھوں نے چار برس قبل سیموئل پیٹی کے قاتل کی حوصلہ افزائی کی۔

اس مقدمے کی سماعت کے دوران سیموئل پیٹی کے سکول کی سابق ہیڈ ٹیچر آڈری ایف نے قتل کے اس واقعے سے متعلق حیران کُن حقائق بتائے ہیں۔

آڈری نے پیرس کی عدالت کو بتایا کہ یہ سارا معاملہ ایک 13 سالہ طالبہ کے جھوٹ سے شروع ہوا تھا جنھوں نے اپنے والدین سے جھوٹ بولا۔

اکتوبر 2020 میں سیموئل پیٹی نے اپنی کلاس میں آزادی اظہارِ رائے پر ایک لیکچر دیا تھا جس کے بعد اس 13 سالہ طالب علم کے والد ایک مقامی مسلمان سماجی کارکن کے ہمراہ سکول کے ہیڈ ٹیچر کے پاس پہنچ گئے۔

لیکن آڈری کے مطابق یہ 13 سالہ لڑکی سیموئل پیٹی کے لیکچر کے دوران کلاس میں موجود ہی نہیں تھی۔

آڈری کہتی ہیں کہ ’میں انھیں (سیموئل پیٹی) کو نہیں بچا پائی۔ یہ ایک بہت بڑا نقصان تھا۔‘

فرانس
Getty Images
سیموئل پیٹی نے اپنی کلاس میں آزادی اظہارِ رائے پر لیکچر دیا تھا جس کے بعد یہ معاملہ شروع ہوا

آزادی اظہارِ رائے پر لیکچر اور 13 سالہ طالبہ کے جھوٹ سے شروع ہونے والا معاملہ سیموئل پیٹی کے قتل کا باعث بنا اور 18 سالہ عبداللہ انظارور نے سکول ٹیچر کو ان ہی کے سکول کے باہر قتل کردیا۔

حملہ آور بھی اس موقع پر پولیس کی گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا۔

سیموئل پیٹی کے لیکچر سے قبل 13 سالہ طالبہ مستقل غیر حاضری اور بُرے رویے کے سبب سکول سے دو دن کے لیے معطل کی گئی تھیں۔ عدالت میں اس لڑکی کی شناخت کے لیے انگریزی کے حُرف ’زیڈ‘ کا استعمال کیا گیا ہے۔

لیکن اس طالبہ نے سکول سے اپنی معطلی کی وجہ گھر میں کچھ اور ہی بتائی۔

اس لڑکی نے اپنے والدین سے جھوٹ بولا کہ اس نے کلاس میں سیموئل پیٹی سے بحث کی تھی کیونکہ انھوں نے مسلمان طالب علموں کو کلاس سے نکل جانے کو کہا تھا تاکہ وہ پیغمبرِ اسلام کے خاکے دِکھا سکیں۔

یاد رہے کہ اسلام میں پیغمبر اسلام کا کسی بھی نوعیت کا خاکہ بنانا بڑے پیمانے پر ممنوع سمجھا جاتا ہے اور بہت سے مسلمانوں کے نزدیک اشتعال انگیزی پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔

اس معاملے پر ایک اور لڑکی کی والدہ نے بھی سکول فون کیا لیکن آڈری اور سیموئل پیٹی دونوں نے انھیں مطمئن کر دیا تھا۔

حقیقت میں کلاس میں فرانسیسی میگزین میں چھپنے والے تین خاکوں پر گفتگو ہوئی تھی اور سیموئل پیٹی نے کلاس میں کہا تھا کہ اگر کوئی اس پر بُرا محسوس کرتا ہے تو وہ کلاس سے جا بھی سکتا ہے۔

اس کے اگلے روز آڈری کو بتایا گیا کہ معطل کی جانے والی طالبہ کے والد سکول کے باہر عبدالحکیم سیفروئی نامی شخص کے ساتھ موجود ہیں جنھوں نے غلط دعوی کیا کہ وہ فرانسیسی اماموں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

ان دونوں افراد نے پیٹی کے لیے ’ٹھگ‘ کا لفظ استعمال کرتے انھیں ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا۔

آڈری کے مطابق انافراد سے بات چیت میں انھوں نے کوشش کی کہ طالبہ کی سکول سے بے دخلی پر بار ہو لیکن عبدالحکیم نے بات کو دوسری طرف موڑ دیا اور ایک ’ٹھگ‘ کی جانب سے آزادی اظہار رائے کے استعمال کی اجازت دینے سے انکار کیا۔

47 سالہ سیموئل پیٹی کے قتل پر فرانس میں صدمے کی سی کیفیت تھی اور ان کا قتل چارلی ایبڈو کے دفتر پر مسلمان مسلح افراد کے حملے کے پانچ سال بعد ہوا تھا۔

خیال رہے چارلی ایبڈو کی جانب سے ہی پیغمبرِ اسلام کے خاکے چھاپے گئے تھے اور اور 2012 میں اس میگزین کے پیرس میں واقع دفتر پر حملے میں 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

براہیم چنینا اور عبدالحکیم سیفروئی پر الزام ہے کہ انھوں نے سیموئل پیٹی کو آن لائن ویڈیوز میں ’گستاخ‘ قرار دیا اور ساتھ ہی ساتھ ’جرائم پیشہ دہشتگرد‘ گروہ کا حصہ اور ’قتل کے دہشت انگیز‘ واقعے میں ملوث ہونے کے الزامات بھی عائد ہیں۔

یہ دونوں افراد ان آٹھ لوگوں میں شامل ہیں جن پر پیرس کی ایک عدالت میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ یہ تمام افراد اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

مقدمے میں نامزد کیے گئے دو افراد پر الزام ہے کہ انھوں نے نوجوان قاتل کو مدد فراہم کی جبکہ دیگر افراد پر الزام ہے انھوں نے سوشل میڈیا پر سیموئل پیٹی کو بدنام کیا۔

آڈری اب فرانس چھوڑ چکی ہیں اور چین میں ایک بین الاقوامی سکول میں پڑھا رہی ہیں۔ انھوں نے عدالت کو بتایا کہ 13 سالہ لڑکی کے والد کی سکول آمد کے اگلے روز ہی انھیں لگا تھا کہ یہ صورتحال اب بریشان کن ہو گئی ہے اور ’سکول میں کچھ تو گڑبڑ ہے۔‘

اس موقع پر سوشل میڈیا پر دو ویڈیوز منظرِ عام پر آئیں۔ ایک ویڈیو براہیم چنینا کی طرف سے آئی جس میں ان کی بیٹی وہی جھوٹ دُہرا رہی تھی اور دوسری عبدالحکیم سیفروئی کی جانب سے۔

آڈری کہتی ہیں کہ ’اس وقت تک میں بہت پریشان ہو گئی تھی، صرف سیموئل پیٹی کے لیے نہیں پورے سکول کے لیے۔‘

سکول کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے اصرار پر وہ سیموئل پیٹی کے ساتھ پولیس کے پاس بھی گئیں اور ایک شکایت بھی درج کروائی۔

سیموئیل پیٹی کو مشورہ دیا گیا کہ وہ سکول کی تعطیلات ہونے تک اپنے گھر تک ہی محدود رہیں۔ لیکن سیموئل پیٹی نے یہ بات ماننے سے انکار کر دیا اور آڈری نے بھی اصرار نہیں کیا۔

سکول کو دھمکی آمیز ای میلز بھیجی گئیں اور نامعلوم افراد نے فون کالز بھی کیں۔ ان دھمکیوں کے پیشِ نظر سکول کے باہر کئی دنوں پولیس کی ایک گاڑی کھڑی رہی۔

16 اکتوبر کو سکول کے ہاف ٹرم کے آخری روز ایک 18 سالہ چیچن پناہ گزین نے سیموئل پیٹی کو قتل کر دیا۔

براہیم چنینا کی بیٹی کو جھوٹے اور توہین آمیز الزام لگانے پر پہلے ہی سزا سُنائی جا چکی ہے جبکہ دیگر پانچ کم عمر لوگوں کو بھی تشدد پر اُکسانے پر قصوروار پایا گیا ہے۔

جب عدالت میں پوچھا گیا کہ کیا براہیم چنینا اور عبدالحکیم سیفروئی صورتحال کو پُرامن بنا سکتے تھے تو آڈری نے کہا کہ اگر انھوں نے آن لائن ویڈیوز نہ پوسٹ کی ہوتیں تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔

اپنے ساتھی کا تحفظ نہ کر پانے پر ملال کا اظہار کرتے ہوئے سکول کی سابق ہیڈ ٹیچر نے عدالت میں کہا کہ: ’میں خود کو کہتی ہوں کہ اگر یہاں انصاف ہو پائے تو شاید میں بھی زندگی میں آگے بڑھ پاؤں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.