کئی دہائیوں بعد پاکستان کا ایک مال بردار بحری جہاز پہلی بار بنگلہ دیش پہنچا ہے اور اس پیشرفت کو دونوں ملکوں کے بیچ تجارتی تعلقات کے لیے اہم سمجھا جا رہا ہے۔
کئی دہائیوں بعد پاکستان کا ایک مال بردار بحری جہاز پہلی بار بنگلہ دیش پہنچا ہے اور اس پیشرفت کو دونوں ملکوں کے بیچ تجارتی تعلقات کے لیے اہم سمجھا جا رہا ہے۔
کراچی سے 2300 ٹی اے یو کارگو بحری جہاز بدھ کو چٹاگانگ کی بندرگاہ پہنچا جس پر بنگلہ دیش میں پاکستان ہائی کمیشن کا کہنا تھا کہ یہ نئی راہداری سپلائی چین کے لیے موثر ثابت ہوگی، اس سے وقت بچے گا اور ’دونوں ملکوں کے لیے نئے کاروباری مواقع پیدا ہوں گے۔‘
سنہ 1971 کی جنگ اور قیامِ بنگلہ دیش کے بعد سے اس کے پاکستان سے تعلقات میں اُتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔
سرد مہری کی ایک لہر بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے دور میں دیکھی گئی تھی تاہم رواں سال ان کی حکومت گِرنے کے بعد اس وقت بنگلہ دیش کا کنٹرول عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے سنبھال رکھا ہے۔
ستمبر میں اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس اور پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان ملاقات کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ’بنگلہ دیش اور پاکستان نے مختلف سطحوں پر باہمی تعاون کو تقویت دینے کی ضرورت کا اعادہ کیا ہے۔‘
بنگلہ دیش میں پاکستانی سفارتخانے کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان براہ راست سمندری تجارتی رابطہ تقریباً 20 سال بعد بحال ہوا ہے۔
’اس کارگو سے ہمارا مال 10 دن میں پاکستان سے بنگلہ دیش پہنچ گیا‘
ڈھاکا میں سومیا فیشن ورلڈ کی چیف ایگزیکٹو سمیا سمو امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ ان کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان سے بھی رابطے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں وہ کپڑے کے ریشے، گارمنٹس اور دیگر اشیا ایکسپورٹ کرتی ہیں جبکہ پاکستان سے خواتین کے کپڑے، جیولری، مختلف قسم کی کاسمیٹکس کی اشیا بنگلہ دیش امپورٹ کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کئی مرتبہ پاکستان کے کاروباری دورے کیے ہیں اور پاکستان سے بھی کاروباری لوگ ڈھاکہ آتے رہتے ہیں۔ دونوں ممالک کی کچھ اشیا ایک دوسرے کے لیے ضروری ہیں اور ان کی پاکستان اور بنگلہ دیش میں کافی مانگ ہے۔ بنگلہ دیش میں پاکستانی فیش انڈسڑی کی مصنوعات کافی مقبول ہیں۔‘
سیما سمو کا کہنا تھا کہ ’دونوں ممالک کے درمیان براہ راست کارگو نہیں تھا۔ یہ دونوں ممالک کے درمیاں تجارت میں بہت بڑا مسئلہ تھا۔ جو اشیا منگوائی جائیں یا جو اشیا بھجوائی جائیں ان کی لاگت پر کافی فرق پڑتا تھا، قیمتیں زیادہ ہوجاتی تھیں جبکہ دوسرا بڑا مسئلہ وقت کا تھا۔
’بنگلہ دیش سے پاکستان بھجوانے میں 20 سے 25 دن لگ جاتے تھے اور اتنا ہی وقت پاکستان سے منگوانے میں لگ جاتا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بعض اوقات تو ایسے بھی ہوتا کہ مال وقت پر پہنچ ہی نہیں سکتا تھا جیسے کہ میرے ساتھ ایک عید کے موقع پر ایسے ہوا کہ پاکستان سے عید کے موقع پر منگوایا گیا مال نہیں پہنچ سکا تھا۔‘
سیما سمو کا کہنا تھا کہ ’اب اس کارگو سے ہمارا مال پاکستان سے دس دن میں پہنچا ہے جس پر سفری لاگت بھی کم ہوئی ہے۔ مال کی قیمت کم ہوئی اور لوگوں کو سستی اشیا دستیاب ہوں گی۔ اس کے علاوہ پورٹ وغیرہ کے معاملات کے بعد آگے کچھ دونوں میں وہ مارکیٹ پہنچ جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اب اگر اس طرح بحری رابطے بحال رہتے ہیں تو وہ پاکستان سے زیادہ مال منگوائی گئیں اور مجھے پاکستان سے میرے کاروباری دوستوں سے بھی کہا ہے کہ وہ بھی اب مجھ سے زیادہ مال منگوائیں گے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میں امید کرتی ہوں کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت بڑھے گی اور دونوں اطراف میں نئے مواقع بھی دستیاب ہوں گے جو کہ دونوں ممالک کے فائدے میں ہے۔‘
کراچی چمبر آف کانفرنس کے سابق صدر مجید عزیز کہتے ہیں کہ ’کراچی اور چٹاگانگ کے درمیان براہ تجارت کے آغاز سے اب ایک ایسی راہداری کُھلی ہے کہ جس سے دونوں مُمالک کو بے شمار فائدے ہوں گے۔‘
مجید عزیز کے بنگلہ دیش کے ساتھ کاروباری اور سماجی رابطے پہلے سے موجود ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اصل میں حسینہ واجد حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش میں انڈیں اثر و رسوخ کم ہوا ہے جس کی وجہ سے اب پاکستان اور بنگلہ دیں کے تعلقات کچھ معمول پر آ رہے ہیں۔‘
بنگلہ دیش میں گارمنٹس کے کاروبار سے منسلک تاجر سید نوید شاہ کا کہنا تھا کہ ’بنگلہ دیش کو کئی اشیا کی پاکستان سے ضرورت پڑتی ہے۔۔۔ یہ مال دوسرے راستوں سے آتا تھا۔
’براہ راست کارگو نہ آنے سے پاکستان سے مال پہنچنے میں وقت لگتا تھا جس کا دونوں ملکوں کے تاجروں کو نقصان ہو رہا تھا۔ اب کراچی سے چٹاگانگ زیادہ سے زیادہ 10 دونوں میں کارگو پہنچ جاتا ہے۔‘
دہائیوں بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے بیچ بحری رابطہ کیسے بحال ہوا؟
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارت ویسے تو جاری ہے مگر ماہرین کی رائے میں اس کے حجم میں بہتری کی کافی گنجائش ہے۔
پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2017 سے لے کر سنہ 2022 تک بنگلہ دیش سے پاکستان درآمدات میں تقریبا 1.8 فیصد اضافہ ہوا۔ بنگلہ دیش سے پاکستان کو یہ ایکسپورٹ سنہ 2017 میں 67.7 ملین ڈالر تھی جبکہ سنہ 2022 میں یہ بڑھ کر 74 ملین ڈالر ہو چکی تھی۔
دوسری جانب بنگلہ دیش کے لیے پاکستانی ایکسپورٹ سالانہ پانچ فیصد کے تناسب سے بڑھی ہے۔ پاکستان کی سال 2022 میں یہ ایکسپورٹ 838.67 ملین ڈالر تھی۔
تاہم اگر نظر ڈالی جائے سنہ 2017 کی ایکسپورٹ پر تو وہ 646 ملین ڈالر تھی۔
بنگلہ دیش سے پاکستان مختلف قسم کے کپڑے کے ریشے اور گارمنٹس ایکسپورٹ ہوتے ہیں جبکہ پاکستان سے خالص کاٹن یا کپاس، تعمیراتی میٹریئل، ٹیکسٹائل، مختلف قسم کے کیمیکل، سبزی فروٹ، چاول، زرعی اجناس اور دیگر اشیا ایکسپورٹ کی جاتی ہیں۔
سال 2023 میں پاکستان سے 17 ہزار کنٹینر بنگلہ دیش پہنچے تھے جبکہ اس سال 31 جولائی تک 16 ہزار کنٹینر جا چُکے ہیں۔
لیکن پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان یہ امپورٹ اور ایکسپورٹ براہ راست نہیں بلکہ براستہ سری لنکا یا دبئی ہو رہی تھی۔ دونوں ممالک کے درمیان سال 2018 سے فضائی رابطے بھی منطقع ہیں۔
بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق پاکستان اور بنگلہ دیش کی تجارت پر سنہ 2009 سے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے مختلف پابندیاں عائد کی تھیں اور بعض مصنوعات کو ’ریڈ لسٹ‘ میں شامل کیا تھا۔
پاکستانی مصنوعات پر ’ریڈ لسٹ‘ کا لیبل لگ جانے کی وجہ سے پاکستانی مصنوعات کو خصوصی چیکنگ سے گزارا جاتا تھا۔ بعض اوقات پاکستان سے براہ راست جانے والے سامان کو تو کئی کئی دن کلیئر ہونے میں لگ جاتی تھے۔ اس سے پاکستانی مصنوعات کی بنگلہ دیش ایکسپورٹ کم ہوتی جا رہی تھیں۔
بنگلہ دیش میں پاکستانی سفارت خانے کے حکام کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت جانے کے بعد دونوں ممالک کے تاجروں نے کوششیں شروع کر دی تھیں کہ کسی طرح بنگلہ دیش پاکستانی مصنوعات پر سے ’ریڈ لسٹ‘ کے لیبل کو ہٹا دے اور اس میں کامیابی اس سال ستمبر کے مہینے میں ملی۔
سفارت خانے کے مطابق جب بنگلہ دیش کی حکومت نے پاکستانی مصنوعات پر سے ’ریڈ لسٹ‘ کے لیبل کو ختم کرنے کا نوٹس جاری کیا تو اس کے بعد سے دونوں ممالک کے تاجروں کو یہ نظر آ رہا تھا کہ کافی مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔
سفارتخانے کے حکام کا کہنا ہے کہ تجارت کے لیے پیدا ہونے والے اس سازگار ماحول کو دیکھتے ہوئے ایک ’نجی کمپنی نے اس مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے کراچی سے چٹاگانگ سروس کا آغاز کیا۔‘
سفارت خانے کے مطابق یہ اصل میں تاجروں کی کامیابی ہے اور اب اس میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید بہتری پیدا ہوتی چلی جائے گی۔
یہ پیشرفت پاکستان اور بنگلہ دیش کے لیے کتنی اہم؟
پاکستان کے بنگلہ دیش میں سابق سفیر رفیع الزمان صدیقی کا کہنا تھا کہ اس وقت بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات میں جو تبدیلی آئی ہے یہ ’ڈرامائی ہے۔‘
اُن کا کہنا ہے کہ ’میں نے تو وہ دور بھی دیکھا ہے کہ جب میں بنگلہ دیش میں ہائی کمشنر کی خدمات انجام دے رہا تھا اور بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت تھی اور پاکستان کے ساتھ بہت محدود رابطے تھے۔
’یہاں تک کہ معمول کی سفارت کاری کے لیے بھی بنگلہ دیش کی حکومت کے لوگوں سے رابطے کم ہی ہوتے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کو اس دور میں بنگلہ دیش کے ساتھ بہت مسائل درپیش تھے۔ بنگلہ دیش میں انڈین اثر و رسوخ کافی زیادہ تھا۔ بظاہر ایسے لگتا تھا کہ شیخ حسینہ پر کافی انڈیا کی حکومت کا زیادہ اثر تھا۔‘
رفیع الزماں صدیقی کا کہنا تھا کہ ’بات صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں رہی تھی۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے ایک دور کے اندر شیخ حسینہ نے انڈیا کے ساتھ کچھ ایسے معاہدے کیے تھے جو شاہد براہ راست چین کے مفاد میں نہیں تھے۔‘
پاکستان کی چین میں سابق سفیر نغمانہ عالمگیر ہاشمی کا کہنا تھا کہ ’چین کسی بھی ملک میں براہ راست نہیں پہنچ سکتا۔ وہ تجارت، کاروبار کے ذریعے سے سفارت کاری کرتے ہیں۔ یہی اس کا سب سے بڑا مفاد ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس خطے بالخصوص بنگلہ دیش میں چین کا مفاد موجود ہے۔ ایک طویل عرصہ سے اس خطے میں امریکہ انڈیا کا قریبی ساتھی بنا ہوا ہے جبکہ انڈیا کا کچھ عرصے قبل تک بنگلہ دیش پر اثر و رسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا۔
’امریکہ اس خطے میں انڈیا کے ذریعے سے سر گرم رہا ہے جو کہ چین کے مفادات کے خلاف تھا۔‘
نغمانہ عالمگیر ہاشمی کے مطابق ’اب نئی حکومت میں بھی چین براہ راست تو کوئی بھی مداخلت نہیں کر رہا ہے مگر اب اس کے لیے خطے میں اپنے معاشی اور تجارتی مفادات کا تحفظ زیادہ آسانی سے کر پا رہا ہے۔
ایک ایسے موقع پر جب بنگلہ دیش بھی خارجہ پالیسی کو دوبارہ ترتیب دے رہا ہے تو اس کو بھی ’انڈیا سے ہٹ کر کچھ آپشن مل رہے تو یہ اس سے بھی فائدہ اٹھا رہا ہے۔‘
تاہم رفیع الزمان صدیقی کا کہنا تھا کہ ’ابھی پاکستان اور بنگلہ دیش کے ابتدائی رابطوں کا آغاز ہوا ہے۔ یہ اہم مرحلہ ہے اسلام آباد اور ڈھاکا دونوں کو چاہیے کہ وہ بہتر تعلقات اور رابطے قائم کریں۔ اس کے لیے کھیل، فنکاروں کے تبادلے، نوجوانوں کے آپس میں رابطے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ان رابطوں میں کسی قسم کی تلخی نہیں آنی چاہیے۔۔۔ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔‘