ٹی ٹوئنٹی میں ارتقا کی جانب پاکستان اپنا پہلا قدم کل رکھ ڈالے گا جب وہ بلاوائیو میں زمبابوے کے خلاف پہلے ٹی ٹوئنٹی کے لیے میدان میں اترے گا اور اس کی الیون میں محمد رضوان، بابر اعظم، شاہین آفریدی، نسیم شاہ اور صائم ایوب نہ ہوں گے۔
ٹی ٹوئنٹی کرکٹ اپنی نوعیت میں ایسی واقع ہوئی ہے کہ یہ فارمیٹ شروع سے ہی پاکستان جیسی ٹیموں کے لیے موزوں رہا۔ مگر جوں جوں یہ فارمیٹ سالہا سال کے فطری ارتقا سے خود کو بدلتا گیا، پاکستان کی ترقی معکوس سمت میں بڑھنے لگی۔
اگرچہ پاکستان نے پچھلے تین ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ایڈیشنز میں دو بار سیمی فائنل اور ایک بار فائنل تک بھی رسائی پائی مگر وہ ٹرافی جیتنے میں ناکام رہا کہ جس کا حصول پاکستان میں کسی ٹی ٹونٹی انقلاب کا پیشِ خیمہ ثابت ہو سکتا۔
رواں برس ورلڈ کپ میں پاکستان کی کارکردگی واضح طور پہ دیگر ٹیموں سے بہت پست اور وقت سے کہیں پیچھے لڑھکتی دکھائی دی۔ امریکہ سے شکست اس بحث کے تابوت میں کسی آخری کیل کی مانند تھی جو بعد ازاں کپتان بابر اعظم کے استعفے کی بنیادی وجوہات میں سے رہی۔
اگرچہ حالیہ دورۂ آسٹریلیا میں ون ڈے سیریز میں پاکستان ایک جاندار الیون بن کر ابھرا مگر ٹی ٹوئنٹی سیریز میں یکسر نوآموز آسٹریلوی نوجوان ایک تجربہ کار پاکستانی سکواڈ پہ بھاری ٹھہرے اور ون ڈے سیریز کی شکست کا بدلہ ٹی ٹوئنٹی میں کلین سویپ سے چکا دیا۔
عاقب جاوید کو محدود فارمیٹ میں پاکستان کا عبوری کوچ مقرر کیا گیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ فی الوقت پاکستان کی بنیادی ترجیح ون ڈے فارمیٹ ہے جو آمدہ چیمپئینز ٹرافی کی بدولت پاکستان کے لیے نہایت اہم ہے جہاں اسے بطور دفاعی چیمپئین شریک ہونا ہے۔
عاقب جاوید نے عندیہ دیا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی میں بھی پاکستان بھاری تبدیلیوں سے گزرے گا مگر یہ سب وقت آنے پہ ہو گا۔
یہ وقت شاید چیمپئنز ٹرافی کے بعد شروع ہو گا جب تمام ٹیمیں ایک بار پھر اگلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی تیاری میں جُت جائیں گی۔
اگرچہ وہ وقت تو ابھی نہیں آیا مگر ٹی ٹوئنٹی میں ارتقا کی جانب پاکستان اپنا پہلا قدم کل رکھ ڈالے گا جب وہ بلاوائیو میں زمبابوے کے خلاف پہلے ٹی ٹوئنٹی کے لیے میدان میں اترے گا اور اس کی الیون میں محمد رضوان، بابر اعظم، شاہین آفریدی، نسیم شاہ اور صائم ایوب نہ ہوں گے۔
یہ احسن اقدام ہے کہ بامرِ مجبوری ان سینئرز کو آرام دینے کے بعد، پاکستان نے پلٹ کر ماضی میں جھانکنے کی بجائے اپنی نگاہ مستقبل پہ مرکوز رکھی ہے اور ایک ایسا سکواڈ چنا ہے جو پر جوش نوجوان ناموں سے مزین ہے۔
کوئی بھی کرکٹر جب پہلی بار انٹرنیشنل کرکٹ میں وارد ہوتا ہے تو سالہا سال کے کرکٹنگ تجربے کے باوجود اس بڑے سٹیج کا دباؤ بہرحال دامن گیر ہوتا ہی ہے۔
مگر پاکستان کے نوآموز کھلاڑیوں کے لیے خوش آئند ہے کہ پہلی بار انٹرنیشنل کرکٹ میں قدم رکھتے نوجوانوں کو زمبابوے جیسا حریف میسر ہے جس کی مسابقت کے معیارات دیگر ہمعصروں کے ہم پلہ نہیں۔
ایسے میں کسی نوجوان پاکستانی بولر کا ایک تباہ کن سپیل یا کسی بلے باز کی کوئی ایک دھماکے دار اننگز اسے ابتدائی انٹرنیشنل تجربے میں مضبوط کرئیر کی بنیاد فراہم کر سکتی ہے۔
مخالف زمبابوین ٹیم اگرچہ مسابقت میں دیگر ٹاپ ٹین ٹیموں سے کہیں کم ہے مگر سکندر رضا کی جارحانہ قیادت اور تجربہ کار آل راؤنڈ کارکردگی نوجوان پاکستانی کھلاڑیوں کا ہنر آزمانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
محمد رضوان کی غیر موجودگی میں پاکستان کے قائد سلمان آغا ہوں گے جو حالیہ پی ایس ایل ایڈیشن کے علاوہ تاحال خود کو اس فارمیٹ کے لیے موزوں ثابت کرنے سے قاصر رہے ہیں۔
اب انھی کی عبوری قیادت میں پاکستان نئے ٹیلنٹ کے ہمراہ وہ پہلا انقلابی قدم دھرنے کو تیار ہے جو حالیہ ورلڈ کپ میں ناقص کارکردگی کے بعد اگلے ورلڈ کپ کی تیاری کو ناگزیر بھی ہو چکا تھا۔
مگر یہی امر سکندر رضا کے لیے امید افزا ثابت ہو سکتا ہے کہ جب حریف کیمپ تجرباتی مراحل سے گزر رہا ہو، تب اس سے ایسی تزویراتی غلطیاں سرزد ہو جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں جو میزبان ٹیم کے لیے مسرت کا سامان ہو جائیں۔