کانپتے ہاتھ اور لڑکھڑاتی آواز والے ونود کامبلی اور ان کے بچپن کے دوست سچن تندولکر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کیوں؟

یوں تو سچن اور ونود کامبلی بچپن کے دوست ہیں لیکن اب جو ویڈیو سامنے آئی ہے اس میں ونود کامبلی جسمانی طور پر کافی کمزور نظر آ رہے ہیں۔

کانپتے ہاتھ، لڑکھڑاتی آواز اور کمزور جسم والے ونود کامبلی جبکہ ان سے مصافحہ کرتے چست و توانا انڈین کرکٹ کے ماسٹر بلاسٹر سچن تندولکر۔۔۔ انڈیا کے سابق مایہ نام کرکٹرز اور بچپن کے دوستوں کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔

اس ویڈیو میں دونوں سابق کرکٹرز ایک دوسرے سے ملتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ انڈین میڈیا کے مطابق یہ ویڈیو منگل کو ممبئی میں ہونے والی ایک تقریب کی ہے۔ اس تقریب میں ونود کامبلی اپنے کرکٹ کوچ اور گرو رماکانت اچریکر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے شریک تھے جہاں وہ ان کے لیے ایک گانا گاتے ہوئے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔

یوں تو سچن اور ونود کامبلی بچپن کے دوست ہیں لیکن اب جو ویڈیو سامنے آئی ہے اس میں ونود کامبلی جسمانی طور پر کافی کمزور نظر آرہے ہیں۔

سچن اور کامبلی کے درمیان ملاقات کی اس ویڈیو کے سوشل میڈیا پر سامنے آنے کے بعد اس پر دونوں کھلاڑیوں کے مداحوں کی جانب سے مختلف ردعمل سامنے آ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین دونوں کھلاڑیوں جنھوں نے بچپن سے پیشہ وارانہ کرکٹ تک کا سفر ایک ساتھ شروع کیا سے متعلق تبصرے کر رہے ہیں۔

بعض سوشل میڈیا صارفین دونوں کے کرکٹنگ کریئر کا موازانہ کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ایک کو ملک میں کرکٹ کا دیوتا قرار دیا گیا جبکہ دوسرا ٹیلنٹ ہونے کے باوجود ذاتی زندگی میں نظم و ضبط کی کمی، غصہ اور سیاست کی نذر ہونے کے باعث گمنامی میں چلا گیا۔

ونود کامبلی نے اپنا آخری بین الاقوامی میچ سال 2000 میں کھیلا تھا۔ کامبلی کی صلاحیتوں کا اکثر ان کے بچپن کے دوست سچن ٹنڈولکر سے موازنہ کیا جاتا رہا ہے۔

kambli
Getty Images

سوشل میڈیا پر رد عمل؟

کامبلی اور سچن کی ملاقات کے اس ویڈیو پر ان کے مداح اور سوشل میڈیا صارفین کئی طرح کے ردعمل دے رہے ہیں۔

ایکس پر ایک صارف، روچی کوکچا لکھتی ہیں کہ ’جس طرح سے ونود کامبلی نے تڑپتی نگاہوں سے سچن تندولکر سے مصافحہ کیا، وہ دل دہلا دینے والا اور افسوسناک ہے۔‘

https://twitter.com/DPrasanthNair/status/1864199822263169506

ایک اور صارف مانو نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھاکہ ’حیران کن بات یہ ہے کہ سچن تندولکر نے اپنے پرانے دوست ونود کامبلی سے ملنے کی کوشش کی، لیکن کامبلی کے پاس بیٹھے شخص نے انھیں روک دیا۔‘

ایک اور صارف نے لکھا کہ ’ونود کامبلی بننا آسان نہیں ہے! کامیابی حاصل کرنا، پھر سب کچھ کھونا اور پھر ہر اس چیز کو تڑپتی نظروں سے دیکھنا جس پر آپ کا بھی حق تھا۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’سچن تندولکر بننا آسان نہیں ہے، کامیاب ہونا ہے، پھر بھی ستاروں کی چمک سے مرعوب ہوئے بغیر محنت جاری رکھیں، راستہ آپ کا ہے، منزل آپ کی ہے۔‘

https://twitter.com/Madan_Chikna/status/1863993698188398772

ایک اور صارف نے لکھا کہ ’یہ بہت تکلیف دہ ہے۔ سچن تندولکر نے ممبئی میں ایک تقریب کے دوران اپنے دوست اور سابق کرکٹر ونود کامبلی سے ملاقات کی، دونوں کی شروعات ایک ہی جگہ سے ہوئی لیکن ان کی قسمتیں کتنی مختلف ہیں۔‘

ایس وی سندر دونوں سابق کرکٹرز کی پرانی اننگز کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’سچن تندولکر اور ونود کامبلی نے 1994 میں پاکستان کے خلاف کھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں کرکٹ کی تاریخ کی سب سے یادگار اننگز کھیلی تھی۔‘

بہت سے صارفین سچن تندولکر اور ونود کامبلی کے کرکٹ کیریئر کا موازنہ بھی کر رہے ہیں۔

https://twitter.com/scribe_it/status/1864121200173305889

کامبلی اور سچن کا موازانہ

سکول کرکٹ میں 349 رنز کی اننگز اور 664 رنز کی ریکارڈ شراکت، رانجی ٹرافی کے پہلے ہی میچ میں پہلی ہی گیند پر چھکا،ٹیسٹ میچوں میں تیز ترین 1000 رنز بنانے والے انڈین بلے باز، پہلے سات ٹیسٹ میچوں میں دو ڈبل سنچریاں بنانا، لیجنڈری آسٹریلوی سپنر شین وارن کے ایک اوور میں 22 رنز۔

یہ اعداد و شمار کسی اور کے نہیں بلکہ بائیں ہاتھ کے بہت باصلاحیت سابقہ انڈین کرکٹر ونود گنپت کامبلی کے کرکٹ کیریئر کے ہیں۔

لیفٹ آرم بلے باز نے اپنا آخری انٹرنیشنل میچ 29 اکتوبر 2000 کو کھیلا تھا، گراؤنڈ شارجہ تھا اور مخالف ٹیم سری لنکا تھی۔

یہ وہی میچ تھا جسے انڈین کرکٹ شائقین شاید ہی یاد رکھنا چاہتے ہوں، جب ٹیم انڈیا نے سری لنکن گیند بازوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے اور پوری ٹیم 54 رنز پر ڈھیر ہوگئی تھی۔

کامبلی اس میچ میں صرف تین رنز ہی بنا سکے تھے۔ ویسے تو گنگولی کی قیادت میں کھیلنے والی ٹیم انڈیا کو اس شرمناک شکست کے لیے کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، لیکن نو بار انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کرنے والے ونود کامبلی کے لیے یہ ان کا ٹیم انڈیا کے لیے آخری میچ ثابت ہوا اور بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔

انٹرنیشنل کرکٹ میگزین کھلاڑیوں کی کرکٹ میں دھماکہ خیز انٹری کرنے اور پھر تھوڑے ہی عرصے میں ناکامی سے دوچار ہونے کی کہانیوں سے بھرے پڑے ہیں، لیکن کامبلی کی کہانی ان سب سے مختلف ہے۔

کامبلی کی صلاحیتوں کا اکثر ان کے سکول کے دوست، سچن تندولکر سے موازنہ کیا جاتا ہے۔

کامبلی
Getty Images

کامبلی کا کیریئر قبل از وقت کیوں ختم ہو گیا؟

جب سچن 15 سال کے تھے اور کامبلی 16 سال کے تو دونوں نے سکول کرکٹ ہیرس شیلڈ ٹرافی میں 664 رنز کی ناقابل شکست شراکت داری قائم کی تھی۔۔۔جس میں کامبلی نے 349 اور سچن نے 326 رنز بنائے تھے۔

لیکن شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اسی میچ میں کامبلی نے بولنگ بھی کمال کی تھی اور 37 رنز دے کر چھ وکٹیں حاصل کیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ کوچ رماکانت اچریکر سمیت کرکٹ کے بہت سے ماہرین کامبلی کو سچن سمیت اپنے بہت سے دوستوں سے زیادہ باصلاحیت سمجھتے تھے۔

پھر کیا ہوا کہ بین الاقوامی کرکٹ کامبلی کے لیے چار دن کی چاندنی ثابت ہوئی۔

کامبلی کے مطابق، ان کے کپتان، ان کے ساتھی، سلیکٹرز اور کرکٹ بورڈ ان کے کیریئر کے بے وقت خاتمے کے ذمہ دار تھے۔ انھوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ سیاست اور جانبداری کی وجہ سے ان کا بین الاقوامی کریئر اتنی جلدی ختم ہو گیا۔

ممکن ہے کامبلی کے ان الزامات میں کچھ سچائی بھی ہو، لیکن ان الزامات سے زیادہ کرکٹ تجزیہ کاروں نے اس بدنام بلے باز کے رویے، کھیل کے تئیں اس کے اندازِ فکر، حالات کے مطابق اپنے کھیل میں تبدیلی نہ کرنے کو کامبلی کے کیریئر کی ’خرابی‘سمجھا جاتا ہے۔

مئی 2016 میں پونے میں ایک تقریب میں، سابق انڈین کپتان کپل دیو نے بھی کہا تھا کہ کامبلی کا طرز زندگی ان کے کیریئر کی بربادی کا ذمہ دار ہے۔

کپل نے سچن اور کامبلی کا موازنہ بھی کیا تھا اور کہا تھا کہ ’’ان دونوں نے ایک ساتھ شروعات کی تھی اور دونوں میں یکساں ٹیلنٹ تھا۔ کامبلی شاید زیادہ باصلاحیت تھے، لیکن ان کا سپورٹ سسٹم، گھر کا ماحول اور اس کے دوست شاید سچن سے بالکل مختلف تھے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بعد میں کیا ہوا۔ سچن نے 24 سال تک ملک کے لیے کھیلا اور کامبلی غائب ہو گئے کیونکہ وہ اپنے کیریئر کے آغاز میں حاصل ہونے والی کامیابی کو سنبھال نہیں سکے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.