ایران کا نیو کلیئر پروگرام کتنے وقت میں ایک جوہری ہتھیار کو بنانے میں کامیاب ہو جائے گا؟ اس حوالے سے متعدد اندازے لگائے جا رہے ہیں لیکن ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام امن کے لیے ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں حالیہ کشیدگی کے دوران دنیا کی نظریں ایران کے جوہری پروگرام پر بھی مرکوز ہیں اور عالمی طاقتیں یہ اندازہ لگانے کی کوششیں کر رہی ہیں کہ تہران ایٹم بم بنانے کے کتنا قریب ہے۔
ایران کے پاس موجود افزودہ یورینیم کا ذخیرہ 60 فیصد پر پہنچ چکا ہے اور تکنیکی اعتبار سے ایران اس کا استعمال کرتے ہوئے جوہری ہتھیار بنانے سے صرف ایک قدم دور ہے۔
جوائنٹ کومپریہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کی ناکامی کے بعد ایران نے یورینیم کی افزودگی کی مقررہ حد کے معاہدے کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا اور اس کے پاس موجود افزودہ یورینیم کی سطح ہر گزرتے روز کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔
خیال رہے جے سی پی او اے ایران، امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے درمیان ایک معاہدہ تھا جس پر سنہ 2015 میں دستخط کیے گئے تھے۔ اس معاہدے کے تحت ایران پر عائد پابندیوں میں نرمی کی جانی تھی اور ایران کو اس کے عوض اپنا جوہری پروگرام محدود کرنا تھا۔
’نیوکلیئر اسکیپ ٹائم‘ کیا ہے؟
موجودہ تیاریوں اور جوہری ہتھیار بننے تک کے دورانیے کو ’نیوکلیئر اسکیپ ٹائم‘ کہا جاتا ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے مطابق 25 کلوگرام افزودہ یورینیم تیار ہونے کے بعد جوہری بم بنایا جا سکتا ہے۔
کسی بھی ملک کے پُرامن نیو کلیئر پروگرام کو ایک عسکری نیو کلیئر پروگرام بننے تک کے سفر کو ’نیوکلیئر اسکیپ ٹائم‘ سے ہی ناپا جاتا ہے۔
’نیوکلیئر اسکیپ ٹائم‘ کی پیمائش کرنے کے لیے بہت سارے عوامل پر نظر رکھی جاتی ہے، جیسے کہ یورینیم افزودگی کا انفراسٹرکچر کیسا ہے، کسی ملک کے پاس افزودہ یورینیم کا کتنا ذخیرہ موجود ہے اور اس کے علاوہ یورینیم افزودگی کی رفتار کیا ہے۔
ان تمام عوامل کو مدِنظر رکھ کر ہی اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کوئی ملک جوہری بم بنانے سے کتنا دور ہے۔
ایران کو جوہری بم بنانے میں کتنا وقت لگے گا؟
ایران کا نیو کلیئر پروگرام کتنے وقت میں ایک جوہری ہتھیار کو بنانے میں کامیاب ہو جائے گا؟ اس حوالے سے متعدد اندازے لگائے جا رہے ہیں لیکن ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام امن کے لیے ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں حالیہ کشیدگی اور ایران اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست لڑائی کے سبب ایک بار پھر تہران کے جوہری پروگرام پر قیاس آرائیاں سننے میں آ رہی ہیں۔
اسی دوران ایران کے کچھ حکام ملک کی دفاعی ڈاکٹرائن میں تبدیلی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ متعدد اندازوں کے مطابق ایران بہت ہی کم وقت میں ایٹم بنانے کے قابل ہو جائے گا لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ ان اندازوں اور تبصروں کی نوعیت سیاسی بھی ہو سکتی ہے۔
حالیہ ہفتوں میں ایران، امریکہ اور اسرائیل میں متعدد مرتبہ لوگ کہہ چکے ہیں ایران 48 یا 24 گھنٹوں میں جوہری ہتھیار بنا لے گا۔
لیکن واشنگٹن میں واقع انٹرنیشنل سٹریٹیجک انٹیلی جنس انسٹٹیوٹ سے منسلک مارک فٹزپیٹرک کا کہنا ہے کہ ایران کے نیو کلیئر اسکیپ ٹائم کے حوالے سے دعوؤں کو ’بڑھا چڑھا کر‘ پیش کیا جا رہا ہے اور یہ ایک ’پریشان کُن‘ عمل ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران ایٹم بم بنانے سے زیادہ دور نہیں ہے۔
فٹزپیٹرک نے بی بی سی فارسی کو بتایا کہ ’امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں ہر محقق اور ماہر کا کہنا یہی ہے کہ ایران کا نیوکلیئر اسکیپ ٹائم ایک ہفتہ ہے۔ یہ 24 گھنٹے نہیں ہے، ایک دن نہیں ہے۔ لیکن ایک ہفتہ بھی انتہائی مختصر وقت ہے۔‘
امریکہ میں سینیئر حکام اور سکیورٹی اور نیوکلیئر صورتحال معاملات پر نظر رکھنے والےادارے بھی تصدیق کرتے ہیں کہ ایران کے ایٹم بم بنانے کے وقت کے حوالے سے دعوے مہینوں سے خبروں میں ہیں۔
جولائی میں سپین سکیورٹی فورم کے دوران بات کرتے ہوئے امریکہ کے سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی ناکامی کے بعد اب ایران جوہری ہتھیار بنانے سے ’صرف ایک یا دو ہفتے دور رہ گیا ہے۔‘
یہ کسی بھی امریکہ عہدیدار کی طرف سے بتایا گیا سب سے مختصر وقت تھا۔
انسٹٹیوٹ آف سائنس اینڈ انٹرنیشنل سکیورٹی گذشتہ دو دہائیوں سے ایران کے جوہری پروگرام کی نگرانی کر رہا ہے اور رواں برس 21 نومبر کو اس کا اپنی رپورٹ میں کہنا تھا کہ ایران کے پاس موجود افزودہ یورینیم کی سطح 60 فیصد ہے اور وہ ایک ہفتے یا اس سے بھی کم وقت میں 25 کلوگرام یورینیم تیار کرکے جوہری ہتھیار بنا سکتا ہے۔
اس ادارے نے انٹرنیشنل اٹامک ایجنسی کی رپورٹ کا تجزیہ کیا ہے اور نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایران کے پاس موجودہ یورینیم اور سینٹریفیوجز اس قابل ہیں کہ وہ ایک مہینے میں ملک کو ’10 جوہری ہتھیار بنانے کے لیے ضروری مواد‘ فراہم کر سکتے ہیں۔
مارک فٹزپیٹرک کہتے ہیں کہ زیادہ پریشان کُن بات یہ ہے کہ ایران کے پاس افزودہ یورینیم کا ذخیرہ 60 فیصد تک پہنچ چکا ہے اور ’اس کا کوئی عام استعمال نہیں اور اسے بم ہی بنائے جائیں گے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ایران کے پاس 60 فیصد افزودہ یورینیم موجود ہے اور وہ اسے 90 فیصد تک بڑھا کر چھ جوہری بم بنا سکتا ہے۔‘
ایران کے پاس افزودہ یورینیم کا کتنا ذخیرہ موجود ہے؟
ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں امریکی ایران کے جوہری معاہدے سے الگ ہوگیا تھا اور انھوں نے ایران کے خلاف ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کا استعمال کرنے کی پالیسی اختیار کی تھی۔
اس معاہدے کے تحت ایران کے لیے افزودہ یورینیم کی سطح 67 عشاریہ تین فیصد رکھی گئی تھی اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایران اپنے یورینیم کے ذخیرہ کو 300 کلو سے زیادہ نہیں بڑھا سکتا۔
لیکن گذشتہ چند برسوں میں ایران نے جدید سینٹریفیوجزکے استعمال سے افزودہ یورینیم کے اپنے ذخیرے کو بڑھایا ہے۔
خیال رہے کچھ عرصے پہلے ایران نے اعلان کیا تھا کہ وہ ’جدید مشینری کے ذریعے‘ یورینیم کی افزودگی کے عمل کو تیز کریں گے۔
تاہم ایرانی حکام نے یہ تفصیلات نہیں دی تھیں کہ وہ اس عمل کو کیسے تیز کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یورینیم کی افزودگی کے بعد کیا ہوتا ہے؟
جوہری ہتھیار بنانے کے معیار کی یورینیم پیدا کرنا ایک اہم قدم ضرور ہے لیکن یہ سب ایک بم بنانے کے لیے کافی نہیں ہے۔
مارک فٹزپیٹرک کہتے ہیں کہ ’نیوکلیئر اسکیپ ٹائم‘ سے مراد وہ دورانیہ ہے جس میں کوئی ملک ایسی یورینیم پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکے جو کہ جوہری ہتھیار بنانے کے لیے کافی ہو لیکن اس کے بعد بھی ’ایران کو اس مواد کو استعمال کر کے جوہری ہتھیار بنانے میں کچھ مہینے لگ جائیں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس ہتھیار کو میزائل پر نصب کرنے میں بھی کچھ مہینے لگتے ہیں‘ اور اس لیے ان کا اندازہ ہے کہ ایران کو قابلِ استعمال جوہری ہتھیار بنانے میں تقریباً ایک برس کا عرصہ لگے گا۔
یورنیم کے پلانٹس جوہری ہتھیار کے لیے استعمال ہونے والا مواد ہیکسافلورائیڈ کی شکل میں بناتے ہیں۔ اس مواد کو پھر مزید اس قابل بنایا جاتا ہے کہ ان سے بم بنایا جا سکے۔
یہ ایک انتہائی پیچیدہ عمل ہے، اس کے لیے خاص مشینری اور خصوصی صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کو کسی بھی قسم کا ایٹم بنانے میں تکنیکی مسائل کا سامنا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران نے برسوں کی تحقیق کے بعد اپنے ’عماد پروگرام‘ کے ذریعے ایسا انفراسٹرکچر تیار کرلیا ہے جو کہ جوہری ہتھیار بنانے میں ملک کو مدد دے سکتا ہے۔
انسٹٹیوٹ آف سائنس اینڈ انٹرنیشنل سکیورٹی کا اپنی رپورٹ میں کہنا تھا کہ ’عماد پروگرام کے اختتام کے بعد بھی ایران کو ایسا وارہیڈ بنانے میں مسائل کا سامنا ہے جسے وہ اپنے شہاب تھری بیلسٹک میزائل پر نصب کرسکے۔‘
انسٹٹیوٹ نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ایران دو طریقوں سے جوہری ہتھیار حاصل کرسکتا ہے:
ایمرجنسی پلان: ایران تقریباً چھ مہینوں سے بھی کم میں جوہری بم ہتھیار تیار کر سکتا ہے۔ یہ بم اس قابل نہیں ہوگا کہ اسے کسی بڑے راکٹ کے ذریعے استعمال کیا جا سکے لیکن اسے تجربے کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔
یورینیم پروڈکشن کمپلیکس کی دوبارہ تعمیر: اس طریقہ کار ’عماد پروگرام‘ جیسا ہی ہوگا اور اس کے تحت تقریباً دو برس میں ایک ایسا وارہیڈ بنایا جا سکے گا جسے کسی میزائل پر بھی نصب کیا جاسکے گا۔
جوہری ہتھیار بنانے کے لیے ایران کو مزید کیا اقدامات لینے ہوں گے؟
واشنگٹن انسٹٹیوٹ فور نیئر ایسٹ پالیسی نے 25 نومبر کو اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں لکھا ہے کہ یورینیم کی افزودگی کے بعد ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے کچھ مہینوں سے ایک سال تک کا عرصے لگ سکتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق یہ کام تین مرحلوں میں ہوتا ہے۔
پُرزے کو ڈیزائن کرنا اور انھیں جوڑنا: ایران کو پہلے مختلف کارآمد پُرزوں کے استعمال سے ایک ایسی دھماکہ خیز ڈیوائس بنانی ہو گی جس میں یورینیم کو جذب کرنے کی صلاحیت ہو اور اس میں ایک نیوٹرون انیشیٹر نصب ہو جو ہتھیار کو ایکٹیویٹ کر سکے۔
کولڈ ٹیسٹ: اس عمل کے بعد ایران کو ایک کولڈ ٹیسٹ کرنا ہوگا جس میں افزودہ یورینیم کے بجائے عام یورینیم کا استعمال ہوگا۔ اس ٹیسٹ کا مقصد بم کے ڈیرائن کو جانچنا ہوتا ہے۔
وارہیڈ کو میزائل میں نصب کرنا: ایک ایسا ہتھیار تیار کرنا جسے کسی میزائل پر نصب کیا جا سکے یہ بھی ایران کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
ایٹم بم بنانے میں ایران کو مزید کیا مشکلات درپیش ہیں؟
ایران کے ایٹم یا جوہری بم بنانے کی راہ میں اب بھی کئی رُکاوٹیں حائل ہیں۔ مارک فٹزپیٹرک کہتے ہیں کہ تمام ضروری مواد حاصل کرلینے کے بعد ایران کے لیے یہ بات چھپانا بہت مشکل ہوگی کہ وہ اس سامان سے بم بنا رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ایران یہ بات نہیں چھپا سکے گا کہ وہ 90 فیصد یورینیم کو افزودہ کر رہا ہے۔ اسرائیل یہ کہہ چکا ہے کہ وہ ایران کو جوہری بم بنانے کی اجازت نہیں دے گا، امریکہ نے بھی یہی کہا ہے کہ وہ ایران کو ایسا نہیں کرنے دے گا۔‘
فٹزپیٹرک کہتے ہیں کہ اس سے قبل کہ ایران اپنے ہتھیار کو میزائل پر نصب کرے ’وہ (ایران) یقینی طور پر کسی عسکری حملے کا نشانہ بن جائے گا۔‘
اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ اس سے قبل اسرائیل 1981 میں عراق اور 2007 میں شام کی جوہری تنصیبات پر بھی حملے کر چکا ہے۔
رواں برس 18 نومبر کو اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نتن یاہو نے تصدیق کی تھی کہ اسرائیل نے اپنے حملے میں ایران کے جوہری پروگرام کے ایک ’خاص حصے‘ کو نشانہ بنایا تھا۔