جنوبی کوریا کی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے صدر یون سک یول کے غیر معمولی لیکن قلیل المدتی مارشل لا کے نفاذ کے بعد بدھ کے روز ان کے مواخذے کے لیے تحریک قومی اسمبلی میں جمع کرادی، جس کے بعد ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر یون کی جانب سے 4 دہائیوں میں پہلی بار سویلین حکمرانی کو معطل کرنے کی حیران کن کوشش نے جنوبی کوریا کو گہری ’افراتفری‘ میں دھکیل دیا ہے اور جنوبی کوریاکے قریبی اتحادیوں کو تشویش لاحق ہے۔
قدامت پسند سیاست دان اور سابق اسٹار پبلک پراسیکیوٹر، یون سک یول کا مستقبل اب انتہائی غیر یقینی ہے، جو 2022 میں صدر منتخب ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ جنوبی کوریا میں گزشتہ روز مارشل لا کے نفاذ کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ فورسز کے اہلکاروں سے مڈبھیڑ کے بعد رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے مارشل لا ختم کرنے کے بل کے لیے ووٹ دینے پہنچے تھے، انہی ارکان نے بدھ کے روز صدر یون سک یول کے مواخذے کی تحریک پارلیمنٹ میں جمع کرائی۔
حزب اختلاف کی ڈیموکریٹک پارٹی (ڈی پی) سے تعلق رکھنے والے کم یونگ من نے کہا کہ ہم نے فوری طور پر مواخذے کی تحریک پیش کی ہے، تاہم ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا گیا کہ اس تحریک کو کب رائے شماری کے لیے پیش کیا جائے گا، لیکن اس پر جمعہ کے روز ووٹنگ کی جاسکتی ہے۔
300 رکنی پارلیمان میں حزب اختلاف کو بھاری اکثریت حاصل ہے اور تحریک کی منظوری کے لیے درکار دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے صدر کی جماعت کے صرف مٹھی بھر ارکان کی ضرورت ہے۔
قبل ازیں ڈیموکریٹک پارٹی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ صدر یون، ان کے وزیر دفاع، وزیر داخلہ، اس عمل میں ملوث اہم فوجی اور پولیس شخصیات جیسے مارشل لا کمانڈر اور پولیس چیف کے خلاف ’بغاوت‘ کے الزامات دائر کرے گی۔
یہاں تک کہ یون کی اپنی حکمران جماعت کے رہنما نے بھی اس کوشش کو ’المناک‘ قرار دیتے ہوئے اس میں ملوث افراد کا احتساب کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ شب ٹیلی ویژن پر اپنے اعلان میں صدر یون نے شمالی کوریا اور ’ریاست مخالف قوتوں‘ کے خطرے کا حوالہ دیتے ہوئے مارشل لا کا اعلان کیا تھا۔
24 ہیلی کاپٹروں میں سوار 280 سے زائد فوجی اس مقام کو ’لاک ڈاؤن‘ کرنے پارلیمنٹ پہنچے تھے، لیکن 190 قانون سازوں نے رائفل اٹھائے پھرنے والے فوجیوں کی مخالفت کی اور مارشل لا کے خلاف ووٹ دینے کے لیے پارلیمنٹ پہنچے۔
اس کے بعد صدر یون کے پاس کوئی چوائس باقی نہیں بچی، اور عالمی وقت کے مطابق شام 7:30 بجے ایک دوسرے ٹیلی ویژن خطاب میں انہوں نے مارشل لا ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
جنوبی کوریا کے قانون کے مطابق جب پارلیمنٹ کی بھاری اکثریت مطالبہ کرے گی تو مارشل لا کو ختم کرنا ضروری ہے، صدر یون کے ساتھ کام کرنے والے کئی عہدیداروں نے مستعفی ہونے کی پیشکش کی ہے، تاہم شام تک صدر نے دوبارہ عوام کے سامنے آنا ہے۔