میں آج سے شروع ہونے والی پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ کرکٹ سیریز اپنی طرح میں نایاب ہے کہ مہینہ بھر جاری رہنے والے اس پاکستانی دورے میں ٹی ٹونٹی، ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ تینوں فارمیٹس کے مقابلے دیکھنے کو ملیں گے

جب سے عالمی کرکٹ پہ براڈکاسٹ اداروں کا غلبہ بڑھا ہے اور ٹی ٹونٹی فرنچائز لیگز کونوں کھدروں سے کھمبیوں کی طرح نمودار ہوئی ہیں، اور تب سے دوطرفہ کرکٹ کیلنڈرز میں کئی رجحان بدلے ہیں۔
اب بگ تھری کے سوا تمام دو طرفہ ٹیسٹ سیریز کی اکثریت دو، دو میچز تک محدود ہو چکی ہے۔ ٹیسٹ اور مختصر فارمیٹس کی شیڈولنگ میں بھی واضح تفریق رکھی جاتی ہے۔ اگر کوئی ٹیم کسی ملک کے دورے پر ٹیسٹ سیریز کے لیے جاتی ہے تو براڈ کاسٹرز کے تفننِ طبع کے لیے، اسی دورے کے وائٹ بال میچز اگلے کیلنڈر میں ایڈجسٹ کیے جاتے ہیں۔
ایسے میں خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ گئے وقتوں کی طرح کوئی ٹیم کسی اجنبی ساحل پر لنگر انداز ہو اور یکے بعد دیگرے کرکٹ کے تینوں فارمیٹس میں زورِ بازو آزمائے، جس کا نتیجہ اس دوطرفہ لڑائی میں کسی واضح برتری یا کمتری کی دلیل دے سکے۔
اس پیرائے میں آج سے شروع ہونے والی پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ کرکٹ سیریز اپنی طرح میں نایاب ہے کہ مہینہ بھر جاری رہنے والے اس پاکستانی دورے میں ٹی ٹونٹی، ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ تینوں فارمیٹس کے مقابلے دیکھنے کو ملیں گے۔

فی الوقت جنوبی افریقہ بھی پاکستان ہی کی طرح ٹی ٹونٹی کرکٹ میں اتنی ہی دلچسپی لے رہا ہے جو دیگراقوام کے ہاں نظر آتی ہے۔ اگرچہ رواں برس ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں اس کی ٹیم نے فائنل کھیلا مگر یہ حقیقت اپنی جگہ تلخ ہے کہ اسی رواں برس وہ کوئی بھی ٹی ٹونٹی سیریز جیتنے میں ناکام رہے ہیں۔
آمدہ چیمپئینز ٹرافی کے پیشِ نظر ویسے بھی سبھی اقوام کی زیادہ دلچسپی ون ڈے فارمیٹ میں ہے اور جو بچا کھچا تجسس ہے، وہ فی الحال ٹیسٹ کرکٹ میں جٹا ہے جہاں ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ فائنل تک رسائی کے دو حتمی حق داروں کا تعین بھی قریب ہے۔
جنوبی افریقہ نے کل ہی سری لنکا کو دوسرے ٹیسٹ میں بھی شکست دے کر نہ صرف کلین سویپ کا اعزاز حاصل کیا ہے بلکہ ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ فائنل کی دوڑ میں بھی اپنا معرکہ زندہ رکھا ہے۔
اسی فتح کی بدولت، منگل شب سے شروع ہونے والی پاکستان کے خلاف ٹی ٹونٹی سیریز میں اس ٹیسٹ الیون کا کوئی نمائندہ شامل نہیں ہو گا۔ گو، کلاسن کی زیرِ قیادت الیون ڈیوڈ ملر، اینرک نورکیہ اور تبریز شمسی جیسے ناموں کے تجربے سے مستفید ہو سکے گی مگر بیٹنگ و بولنگ دونوں شعبوں میں اسے اپنے نئے ٹیلنٹ پر اکتفا کرنا ہو گا۔
نوجوان جنوبی افریقی ٹی ٹونٹی کرکٹرز بلاشبہ باصلاحیت ہیں۔ اوٹنیل بارٹمین، پیٹرک کروگر اور آندیلے سمیلانی اپنے ہنر سے خوب شناسا ہیں، مگر انڈیا کے خلاف حالیہ ٹی ٹونٹی سیریز میں جو امتحان انھیں نوآموز انڈین کھلاڑیوں کے ہاتھ جھیلنا پڑا، اس کے سبب زیادہ اہم یہاں دباؤ سے نمٹنا ہو گا جہاں کلاسن کی قائدانہ صلاحیتیں زیرِ آزمائش ہوں گی۔
دوسری جانب پاکستان کے ہیڈ کوچ عاقب جاوید اگرچہ فی الحال صرف ون ڈے کرکٹ کو اپنی ترجیح قرار دے چکے ہیں مگر یہاں ٹی ٹونٹی میں اب شاید وہ زیادہ تجربات کرنے کی بجائے ان تجربات کا مؤثر استعمال کرنا چاہیں گے جو پچھلے چھ میچز میں انھیں آسٹریلیا اور زمبابوے کے خلاف حاصل ہوئے ہیں۔
گو پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف کوئی فتح اپنے نام نہ کی اور زمبابوے کے خلاف سیریز میں فتح بھی مکمل خوش کن نہ تھی مگر ان دونوں مواقع پر جن نوجوانوں کو آزمایا گیا، اب انھیں مزید تسلسل فراہم کرنے کا وقت ہو گا کہ بالآخر اسی تسلسل سے پاکستان کرکٹ کا وہ مخصوص برانڈ یا سٹائل ابھر پائے گا جس کی کھوج میں پاکستان اپنے کئی سلیکٹرز، کوچز اور کپتان قربان کر چکا ہے۔
زمبابوے کے خلاف سیریز کے لیے پاکستان نے اپنے سپر سٹارز کو آرام اسی غرض سے دیا تھا کہ وہ جنوبی افریقہ کے خلاف اس طویل دورے کے لیے تازہ دم ہو کر آئیں۔ یہاں رضوان، بابر، نسیم اور شاہین کی واپسی یہ واضح کرتی ہے کہ اپنے میزبان کے برعکس، حالیہ پاکستانی تھنک ٹینک اس دورے کے ہر میچ کو اپنی مکمل ترجیح تصور کرے گا۔
جنوبی افریقہ نے سری لنکا کو دوسرے ٹیسٹ میں بھی شکست دے کر نہ صرف کلین سویپ کا اعزاز حاصل کیا ہے بلکہ ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ فائنل کی دوڑ میں بھی اپنا معرکہ زندہ رکھا ہے۔بالآخر یہ ایسی دشوار گزار کنڈیشنز کے دورے ہی ہوتے ہیں جو کسی ٹیم یا تھنک ٹینک کے عہدوں کی مدت کا تعین کرتے ہیں۔ پی سی بی کی موجودہ قیادت پر فائز محسن نقوی کے ہاں یہ رجحان رہا ہے کہ وہ انتظامی معاملات میں عبوری فیصلوں کو ترجیح دے کر مسابقت کی دوڑ پیدا کرنے اور بہتر نتائج حاصل کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔
محسن نقوی کے زیرِ انتظام پی سی بی میں حالیہ ظاہری استحکام کے باوجود کسی بھی شے کی تقدیر طے نہیں ہے۔ ایسے میں پاکستانی تھنک ٹینک یہ کیسے بھول سکتا ہے کہ کوچز تو دور، اس کے اپنے ٹیسٹ کپتان کی سینٹرل کنٹریکٹ میں بی کیٹیگری بھی اس کے کپتان برقرار رہنے سے مشروط کر دی گئی ہے۔
یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اس طرح کی نظامت کھلاڑیوں کی نفسیات پر کیسے اثر انداز ہو گی اور فیلڈ پر اُن کی کارکردگی میں کیا بدلاؤ لائے گی مگر یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ جو عدم دلچسپی جنوبی افریقہ نے اس ٹی ٹونٹی سیریز میں ظاہر کی ہے، وہ اسے بھی شاید اتنی ہی مہنگی پڑ سکتی ہے جتنی پچھلے ماہ آسٹریلیا کو پڑی تھی۔