تنقید کے باوجود کھیلوں کی دنیا میں بڑھتا اثر و رسوخ: سعودی عرب فٹبال ورلڈ کپ 2034 کی میزبانی حاصل کرنے میں کیسے کامیاب ہوا؟

فیفا کی جانب سے 2034 کے عالمی کپ کے میزبانی کے لیے سعودی عرب کی تصدیق شاید اب تک اس تنظیم کی جانب سے اٹھائے جانے والے سب سے متنازع فیصلوں میں سے ایک ہے۔ اور اس کی وجہ سعودی عرب میں انسانی حقوق پر اٹھنے والے سوالات ہیں۔
تصویر
Getty Images
فیفا کی جانب سے سعودی عرب کو میزبانی دیے جانے کے اعلان پر سعودی وزیر کھیل عبدالعزیز بن ترکی الفیصل خوشی کا اظہار کر رہے ہیں

فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا کی جانب سے تصدیق کر دی گئی ہے کہ سنہ 2034 کا فٹبال ورلڈ کپ سعودی عرب میں منعقد ہو گا۔

فیفا کی جانب سے 2034 کے عالمی کپ کے میزبانی کے لیے سعودی عرب کی تصدیق شاید اب تک اس تنظیم کی جانب سے اٹھائے جانے والے سب سے متنازع فیصلوں میں سے ایک ہے۔ اور اس کی وجہ سعودی عرب میں انسانی حقوق پر اٹھنے والے سوالات ہیں۔

اگرچہ بہت سے ناقدین سعودی عرب کو فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی سونپنے کی وجہ سے خائف ہوں گے تاہم اس فیصلے پر حیرانی اس لیے زیادہ لوگوں کو نہیں ہو گی کیوںکہ فٹبال میں سعودی عرب کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری اور اس سے حاصل ہونے والا اثرورسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

تو کیا اس عالمی ٹورنامنٹ کا سعودی عرب میں انعقاد اس عرب ملک کی عالمی سطح پر شہرت بدل دے گا یا پھر یہاں معاشرتی تبدیلی کا باعث بنے گا؟ اور اس فیصلے سے ہمیں فیفا اور فٹبال کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟

تاجپوشی کیوں، مقابلہ کیوں نہیں؟

سعودی عرب میں فٹبال ورلڈ کپ کی باضابطہ تصدیق گذشتہ ایک سال سے ایک رسمی سی کارروائی ہی لگ رہی تھی۔ اکتوبر 2023 میں یہ واضح ہو چکا تھا کہ سعودی عرب کے مقابلے میں کوئی نہیں ہو گا کیوںکہ آسٹریلیا نے اس مقابلے میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ آسٹریلیا کی جانب سے عندیہ دیا گیا تھا کہ فیفا نے اسے صرف ایک ماہ سے بھی کم وقت دیا تھا۔

فیفا نے اپنے عمل کی تیزرفتاری کا دفاع کیا ہے تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ عمل شفافیت اور احتساب سے عاری تھا۔ ناقدین کے مطابق سعودی عرب کا راستہ بھی اسی طرح سے صاف ہوا کیوںکہ 2030 کا عالمی ورلڈ کپ تین براعظموں میں تقسیم کر دیا گیا تھا جس میں سپین، پرتگال اور مراکششریک میزبان ہیں تاہم پہلے تین میچ لاطینی امریکہ میں ہوں گے۔ اس فیصلے کا مطلب تھا کہ 2034 کے لیے ایشیا اور اوشیانا کو ہی مقابلے میں شریک ہونا تھا۔

واضح رہے کہ حالیہ عرصے میں فیفا کے حالیہ صدر جیانی انفینٹینو اور سعودی عرب کے درمیان قریبی تعلقات قائم ہوئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں سعودی عرب میں کلب ورلڈ کپ منعقد ہوا اور سعودی عرب کی سرکاری تیل کمپنی ’آرامکو‘ کے ساتھ فیفا کا سپانسرشپ کا اہم معاہدہ ہو چکا ہے۔

اس کے علاوہ یہ چہ مگویاں بھی ہو رہی ہیں کہ سعودی پبلک انوسٹمنٹ فنڈ کی جانب سے سٹریمنگ پلیٹ فارم ’ڈی ای زیڈ این ‘میں بڑی سرمایہ کاری کی جائے گی جس پر اگلے موسم گرما کے دوران سعودی عرب میں ہونے والے فٹبال مقابلے دکھائے جائیں گے۔

گذشتہ ماہ جب فیفا کی جانب سے تجزیاتی رپورٹ شائع کی گئی، جسے انفینٹینو کے نائب سیکریٹری جنرل میٹیاس گرافسٹورم نے تحریر کیا تھا، تو اس میں سعودی عرب کی بولی کو پانچ میں سے 4.2 نمبر دیے گئے۔ تاہم اس کی وضاحت نہیں کی گئی جس سے یہ واضح تھا کہ سعودی عرب کو ہی میزبانی دی جائے گی۔

ساتھ ہی ساتھ روایتی ووٹنگ کے طریقے کے بجائے فیفا کانگریس میں تصدیق کرنے کے عمل نے بھی سوال اٹھایا کیوں کہ اس طرح کسی فیفا رکن ملک کے لیے اپنی مخالفت کے اظہار کے لیے صرف یہ راستہ بچتا ہے کہ وہ تالیاں بجانے میں شریک نہ ہو۔

فیفا یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ طریقہ ماضی سے بہتر ہے جب مختلف ممالک کے درمیان طویل مقابلہ ہوا کرتا تھا جس میں کرپشن کے عنصر کا شامل ہونا عین ممکن ہوا کرتا تھا۔ فیفا یہ موقف بھی اپنا سکتا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے فٹبال ایونٹ کو نئے خطوں میں لے جانا ان کی ذمہ داری ہے۔

A picture of the Fifa World Cup trophy
PA

باقی ممالک کا کیا کہنا ہے؟

ناروے کی فٹبال فیڈریشن نے کہا ہے کہ ’بولی کا عمل فیفا کی اپنی اصلاحات کے خلاف ہے اور عالمی تنظیم پر اعتماد کو چیلنج کرتا ہے۔‘

جرمنی کی تنظیم نے کہا ہے کہ وہ ’تنقید کو سنجیدگی سے لیتی ہے لیکن فیفا سے مل کر آنے والے برسوں میں صورت حال بہتر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘

برطانوی تنظیم نے اب تک اپنی پوزیشن واضح نہیں کی ہے تاہم چند سینیئر حکام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انسانی حقوق سے جڑے خدشات کے باوجود انھیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ ’اگر وہ سعودی عرب کی حمایت نہیں کریں گے لیکن ایونٹ میں شرکت کریں گے تو ان پر دوغلے پن کا الزام لگے گا۔‘

زیادہ تر تنقید کھیل کے میدانوں سے باہر سے ہو رہی ہے۔ مارچ میں گارڈین اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اسے سعودی عرب میں بڑی تعداد میں بنگلہ دیشی تارکین وطن کی ناقابل فہم اموات کے شواہد ملے ہیں۔ سعودی عرب نے اپنے قواعد و ضوابط کا دفاع کیا تاہم فیفا پر دباؤ بڑھا کہ ورلڈ کپ کی میزبانی دینے سے پہلے اصلاحات کے حوالے سے چند شرائط منوائے۔

اکتوبر میں سعودی عرب کی جانب سے بولی کے ساتھ ایک رپورٹ جمع کرائی گئی جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تنقید کی کہ اس میں تارکین وطن کی اموات کے الزامات کو سراسر نظرانداز کیا گیا ہے۔ گذشتہ ماہ ایمنسٹی نے فیفا پر زور دیا تھا کہ ’اگر سعودی عرب میں ایونٹ کروایا گیا تو شائقین کو امتیازی سلوک کا سامنا ہو گا، شہریوں کو جبری طریقے سے بے دخل کیا جائے گا، تارکین وطن مزدوروں کا استحصال ہو گا اور بہت سے جان سے گزر جائیں گے۔‘

فٹبال میں سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے اثررسوخ کی بھی مخالفت ہو رہی ہے۔ اکتوبر میں سو سے زیادہ پروفیشنل خواتین فٹبال کھلاڑیوں نے فیفا کو ایک کھلا خط لکھا اور مطالبہ کیا کہ سعودی آرامکو کو سپانسر کے طور پر ہٹایا جائے کیوں کہ ’یہ پیٹ میں مکے جیسا ہے۔‘

یہ خدشات بھی ہیں کہ بہت سے کھلاڑی اس خوف سے کُھل کر بات نہیں کر رہے کیوںکہ سعودی پرو لیگ میں ان کی شمولیت خطرے میں پڑ سکتی ہے اور ایسے ماحول میں جب حکومتیں سعودی عرب سے تجارتی معاہدے کر رہی ہیں ان کے لیے موقف اپنانا مشکل ہو جاتا ہے۔ رواں ہفتے برطانوی وزیر اعظم نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جس کا مقصد معاشی تعلقات کو بہتر بنانا تھا۔

سعودی عرب میں فٹبال ورلڈ کپ کیسا ہو گا؟

سعودی عرب کی فٹبال فیڈریشن کے مطابق یہ ’انتہائی غیرمعمولی‘ ہو گا۔ اس کی بولی میں لکھا گیا ہے کہ ورلڈ کپ مقابلوں کے لیے 15 سٹیڈیم تعمیر کیے جائیں گے جن میں سے تین کی تعمیر جاری ہے اور آٹھ پر کام شروع ہونا باقی ہے۔ یہ پانچ شہروں میں منعقد ہو گا جن میں سے ایک نیوم نام کا شہر ہے جو ابھی تک تعمیر ہی نہیں ہو سکا ہے۔

یہ ورلڈ کپ یقینی طور پر موسم سرما میں منعقد ہو گا۔ فیفا نے کہا ہے کہ موسم گرما میں 40 ڈگری سے بھی زیادہ تک درجہ حرارت کی وجہ سے ایونٹ منعقد ہونے کے وقت سے خطرات جڑے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مذہبی وجوہات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس سے یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ ایونٹ جنوری کے آغاز میں منعقد ہو سکتا ہے تاکہ ماہ رمضان سے تاریخیں متصادم نہ ہوں۔

پی اے نیوز ایجنسی کے مطابق برطانوی اور دیگر یورپین لیگز موسم سرما میں ورلڈ کپ کے انعقاد کی مخالفت کریں گی۔ اگرچہ کئی لیگز نے 2022 میں قطر ٹورنامنٹ سے قبل اپنے سیزن روک دیے تھے، ورلڈ کپ میں وسعت کی وجہ سے 48 ٹیموں کی شمولیت کا مطلب یہ ہے کہ سالانہ فٹبال شیڈول زیادہ متاثر ہو گا۔

سعودی عرب کے اثرورسوخ کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے

Saudi football fans during a World Cup qualifier match against Pakistan in June
Getty Images

بہت سے لوگوں کے لیے سعودی عرب میں ورلڈ کپ کا انعقاد اس طاقت کا اظہار ہے جو یہ ملک مختلف کھیلوں میں رکھتا ہے۔

سعودی عرب نے 2021 سے مختلف کھیلوں کے ایونٹ کروانے کے لیے اربوں ڈالر سرمایہ کاری کی ہے جب شہزادہ محمد بن سلمان نے ’وژن 2030‘ کے تحت ملک کی معیشت کو جدت دینے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ فارمولا ون، ہسپانوی اور اطالوی فٹبال کپ کے فائنل، کلب ورلڈ کپ سمیت باکسنگ، گالف اور گھڑسواری کے مختلف ایونٹ منعقد کروائے جا چکے ہیں۔

سعودی عرب کے پبلک انوسٹمنٹ فنڈ نے لیو گالف سیریز کا بھی آغاز کیا اور چار سعودی پرو لیگ فٹبال کلبز کا کنٹرول سنبھالنے کے ساتھ ساتھ برطانیہ کا نیو کاسل یونائیٹڈ کلب بھی خرید لیا۔

ڈینش تنظیم ’پلے دی گیم‘ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سعوی عرب کے 900 سے زیادہ سپانسر شپ معاہدے کر رکھے ہیں اور فٹبال کی تنظیموں سے درجنوں باضابطہ معاہدے کر رکھے ہیں۔

لیکن فٹبال ورلڈ کپ کا انعقاد سعودی عرب کے کھیلوں کے اس نقلاب کو بلکل نئی سطح پر لے جائے گا جہاں مستقبل میں اس کے لیے اولمپکس کی میزبانی کی پیشکش کرنا بھی ناممکن نہ ہو گا۔

کیا یہ سپورٹس واشنگ ہے؟

نقادوں کا ماننا ہے کہ فیفا کی تاریخ میں سپورٹس واشنگ کا یہ سب سے بڑا واقعہ ہے جس میں ورلڈ کپ کی مدد سے ایک ایسے ملک کی تصویر کو بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سمیت خواتین کے حقوق، ہم جنس پرستی، آزادی اظہار رائے سمیت سزائے موت کی وجہ سے بھی تنقید کا سامنا رہا ہے۔

اگرچہ اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ حالیہ برسوں میں اہم اصلاحات ہوئی ہیں، جیسا کہ خواتین کے حقوق پر، تاہم ان کے مطابق ساتھ ہی ساتھ حقوق سلب کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

سعودی عرب 2023 میں سزائے موت پر عملدرآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک تھا۔ اس سال 300 لوگوں کو سزائے موت دی جا چکی ہے جبکہ سوشل میڈیا پر خواتین کو مرد رشتہ دار کے بغیر باہر سفر نہ کرنے کے قانون کے خاتمے کا مطالبے کرنے والی مناہل ال اوتیبی کو 11 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

’ریپریو‘ نامی تنظیم کا کہنا ہے کہ ’دنیا کی ایک بربریت پسند آمرانہ حکومت ایک جھوٹی تصویر دکھانے کے لیے بہت بڑی رقم خرچ کر رہی ہے تاکہ ریاستی تشدد سے توجہ ہٹائی جا سکے۔‘

تنظیم کے مطابق ’سزائے موت پانے والے لوگوں میں احتجاج کرنے والے شامل ہیں اور کچھ ایسے بھی جن کو بہت کم مقدار میں کسی نشہ آور شے کے ساتھ پکڑا گیا۔‘

تنظیم کا کہنا ہے کہ 2034 میں ’سعودی عرب کا سفر کرنے کے خواہش مند شائقین کو علم ہونا چاہیے کہ اس ملک میں ایسی آزادی، جسے جمہوری ممالک میں عام سمجھا جاتا ہے، کے اظہار پر موت ہو سکتی ہے۔‘

دوسری جانب سعودی حکام کا کہنا ہے کہ وہ معیشت اور سیاحت کو متنوع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ جدت اور اصلاحات کا دروازہ کھلے۔ گذشتہ سال کھیلوں کے وزیر شہزادہ عبدالعزیز بن ترکی الفیصل نے ورلڈ کپ کی میزبانی کا دفاع کرتے ہوئے مجھ سے کہا تھا کہ ’سپورٹس واشنگ کا دعویٰ کھوکھلا ہے۔‘

انھوں نے کہا تھا کہ ’ہم نے 85 سے زیادہ عالمی ایونٹ منعقد کروائے، ہم دنیا کو کھیلوں کی مدد سے اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتے ہیں، ہر ملک میں بہتری کی گنجائش ہوتی ہے، کوئی بھی بہترین نہیں ہوتا۔ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں اور یہ ایونٹ ہمیں سب کے لیے بہتر مستقبل اور اصلاح میں مدد کرتے ہیں۔‘

خواتین کو سعودی عرب میں 2018 میں میچ سٹیڈیم میں دیکھنے کی اجازت ملی تاہم اس کے بعد خواتین کی پروفیشنل فٹبال لیگ اور قومی ٹیم بن چکے ہیں اور 70 ہزار سے زیادہ لڑکیاں فٹبال کھیل رہی ہیں۔

تاہم گذشتہ سال برطانیہ کے ہم جنس پرست مرد فٹبالر جیک ڈینیئلز نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ وہ سعودی عرب میں ورلڈ کپ میں ’خود کو محفوظ‘ نہیں سمجھیں گے۔ جب میں نے سوال کیا کہ وہ ایسے ہم جنس پرست شائقین سے کیا کہیں گے جو اپنی حفاظت کے بارے میں فکرمند ہیں، تو شہزادہ عبدالعزیز نے جواب دیا کہ ’سب کو خوش آمدید ہے۔‘

Fifa President Gianni Infantino
PA

کیا سعودی عرب میں ورلڈ کپ تبدیلی لائے گا؟

سنہ 2010 میں جب قطر کو میزبانی ملی تھی تو فیفا کی قیادت چونک گئی تھی۔ اس بار فیفا صدر سعودی عرب میں ورلڈ کپ کے حامی ہیں۔

قطر کی طرح سعودی عرب میں بھی جنوبی ایشیا کے تارکین وطن ہی کام کریں گے جہاں ایک کروڑ سے زیادہ غیر ملکی آباد ہیں اور تعمیراتی کام کی وجہ سے خدشات بڑھے ہیں۔

فیفا کی اپنی رپورٹ کے مطابق قطر میں 2010 سے 2022 تک ’ورلڈ کپ سے جڑے کئی مزدوروں کے انسانی حقوق متاثر ہوئے اور اموات کے علاوہ بیماریاں، وقت پر تنخواہ نہ ملنا اور قرض جیسی شکایت سامنے آئیں۔‘

قطر میں ورلڈ کپ پر میڈیا کی نظر کی وجہ سے اصلاحات لائی گئیں اگرچہ ان پر عملدرآمد کے بارے میں اب بھی سوالات باقی ہیں۔

گذشتہ سال شہزادہ عبدالعزیز نے مجھے یقین دلایا تھا کہ ’سعودی عرب میں قطر جیسا معاملہ نہیں ہو گا۔‘ انھوں نے کہا تھا کہ ’ہمارے پاس دس سال ہیں، ہم بہت سے مقامات پر کام شروع کر چکے ہیں تو ہم درست طریقے سے کام کرنے کے لیے بہت وقت رکھتے ہیں۔‘

سعودی عرب کی تجزیاتی رپورٹ میں فیفا نے کہا ہے کہ ’چند مقامات پر قانونی اصلاحات درکار ہیں اور منتظم عملدرآمد جس کے بغیر حالات زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔‘

ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ ’فیفا کی رپورٹ انسانی حقوق کے ریکارڈ کی حیران کن پردہ پوشی ہے۔‘ عالمی تنظیم کے مطابق ’ملک میں بنیادی انسانی حقوق کی اصلاحات کی فوری ضرورت ہے ورنہ 2034 ورلڈ کپ استحصال، امتیازی سلوک اور جبر کی وجہ سے داغدار ہو جائے گا۔‘

An oilfield belonging to Aramco in Saudi Arabia
Reuters

فیفا کا فیصلہ کھیلوں کے بارے میں کیا بتاتا ہے؟

سعودی عرب میں ورلڈ کپ کا انعقاد کھیلوں کی دنیا میں بدلتی ہوئی طاقت اور اس کا رُخ مشرق وسطی کی جانب ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل تک یہ سوچا ہی نہیں جا سکتا تھا کہ چھوٹا سے قطر اور اس کا ہمسایہ سعودی عرب صرف 12 سال کے عرصہ کے دوران ورلڈ کپ کا انعقاد کروائیں گے۔ تاہم ان ممالک کی دولت اور کھیلوں کی تنظیموں کی معاشی ترقی کی خواہش نے اسے ممکن بنا دیا۔

سعودی عرب کہہ سکتا ہے کہ حالیہ برسوں میں بین الاقوامی کھیلوں کی تقریب منعقد کروانے والا وہ واحد متنازع ملک نہیں۔ دو دہائیوں کے دوران روس میں ورلڈ کپ کے علاوہ اولمپکس بھی ہو چکے ہیں۔ چین نے سمر اور ونٹر اولمپکس کروائے ہیں۔

ہم جنس پرستانہ تعلقات مراکش میں بھی غیر قانونی ہیں جو 2030 ورلڈ کپ کا شریک میزبان ہے اور قطر میں بھی ایسا ہی قانون تھا۔

تاہم ایک تنقید یہ ہو رہی ہے کہ فٹبال کی دنیا میں انسانی حقوق کی علم برداری کو سعودی عرب میں ایونٹ کے انعقاد سے نقصان پہنچے گا۔ اب فیفا اور سعودی عرب کے پاس ایک دہائی ہے کہ یہ ثابت کر سکیں کہ اگلا میگا ایونٹ داغدار نہ ہو۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.