گذشتہ دو روز سے پاکستان کے دو کھلاڑیوں آلراؤنڈر عماد وسیم اور فاسٹ بولر محمد عامر نے بھی انٹرنیشنل کرکٹ سے دوبارہ ریٹائرمنٹ لینے کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم یوں تو ابھی جنوبی افریقہ میں ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیل رہی ہے لیکن کرکٹ کے حوالے سے بڑی خبریں فی الحال پاکستان سے ہی آ رہی ہیں۔
رواں ہفتے پہلے تو پاکستان کے ریڈبال کوچ جیسن گلیسپی کی جگہ عاقب جاوید کو پاکستان کی جنوبی افریقہ کے لیے ٹیسٹ سیریز کے لیے کوچ مقرر کیا گیا اور گاہے بگاہے کبھی انڈین تو کبھی پاکستانی میڈیا سے چیمپیئنز ٹرافی کے انعقاد کے حوالے سے افواہیں سننے کو ملتی ہیں۔
تاہم گذشتہ دو روز میں پاکستان کے دو کھلاڑیوں آلراؤنڈر عماد وسیم اور فاسٹ بولر محمد عامر نے بھی انٹرنیشنل کرکٹ سے دوبارہ ریٹائرمنٹ لینے کا اعلان کیا ہے۔
دونوں کی جانب سے اس سے قبل سنہ 2023 کے ون ڈے ورلڈ کپ سے قبل بھی ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا گیا تھا تاہم پھر رواں برس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے تناظر میں میں دونوں کو پی سی بی کی جانب سے ریٹائرمنٹ واپس لینے پر ٹیم میں شمولیت کی پیشکش کی گئی تھی جو انھوں نے قبول کر لی۔
دونوں نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں حصہ تو لیا لیکن خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے۔ پاکستان اس ورلڈ کپ میں امریکہ اور انڈیا سے شکست کھانے کے بعد پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہو گیا تھا۔
جب دونوں کی جانب کی جانب سے ریٹائرمنٹ واپس لی گئی تھی تو اس وقت بھی پاکستانی کرکٹ کے حلقوں میں اس بارے میں خاصی تنقید سامنے آئی تھی اور اب بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے۔
عماد وسیم کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری پیغام میں کہا گیا ہے کہ ’بڑی سوچ بچار کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا ہے، پاکستان کی نمائندگی کرنا میری زندگی کا بہت بڑا اعزاز ہے۔‘
عماد وسیم نے اپنی پوسٹ میں مزید لکھا تھا کہ ’میں ڈومیسٹک اور فرنچائز کرکٹ میں اپنا سفر جاری رکھوں گا۔‘
عماد وسیم نے پاکستان کی 55 ون ڈے اور 75 ٹی 20 انٹرنیشنلز میں نمائندگی کی۔ انھوں نے ٹی ٹوئنٹی میں 73 اور ون ڈے میں 44 وکٹیں حاصل کیں۔ وہ سنہ 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی جیتنے والی ٹیم کا حصہ تھے۔
ادھر محمد عامر نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’یہ فیصلے لینا آسان نہیں ہوتا لیکن یہ ناگزیر ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں یہی صحیح وقت تھا کہ نئی نسل کو پاکستان کرکٹ کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کے لیے موقع فراہم کیا جائے۔‘
’اپنے ملک کی نمائندگی کرنے سے زیادہ عزت کی بات میرے لیے کوئی بھی نہیں۔‘
محمد عامر نے 36 ٹیسٹ میچز کے علاوہ 61 ون ڈے انٹرنیشنلز اور 62 ٹی ٹوئنٹی میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ انھوں نے ٹیسٹ میچوں میں 119، ون ڈے میں 81 اور ٹی ٹوئنٹیز میں 71 وکٹیں حاصل کیں۔
عامر سنہ 2009 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ اور سنہ 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی جیتنے والی ٹیموں میں شامل تھے اور دونوں کے فائنل میں انھوں نے عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کیا تھا۔ سنہ 2009 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں عامر نے بعد میں 'پلیئر آف دی ٹورنامنٹ' قرار دیے جانے والے سری لنکا کے تلاکرتنے دلشان کو پہلے ہی اوور میں صفر پر آؤٹ کیا تھا جبکہ سنہ 2017 کی چیمپیئنر ٹرافی کے فائنل میں عامر نے روہت شرما، وراٹ کوہلی اور شکھر دھون کی اہم وکٹیں حاصل کی تھیں۔
عامرنے پاکستان کے لیے تمام فارمیٹس میں سنہ 2009 میں ڈیبیو کیا تھا اور اپنی کارکردگی کے باعث پہلے ڈیڑھ سال میں ہی شہرت کی وہ بلندیاں چھو لی تھیں جس کا اکثر پاکستانی فاسٹ بولرز صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔
انھیں اس عمر میں ہی وسیم اکرم کا جانشین قرار دیا جا رہا تھا لیکن پھر سنہ 2010 کے انگلینڈ کے دورے میں اس وقت سب کچھ بدل گیا جب محمد عامر، محمد آصف اور سلمان بٹ کے خلاف سپاٹ فکسنگ کے الزامات منظرِ عام پر آئے اور اس نے کرکٹ کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔
محمد عامر کی عمر اس وقت صرف 19 سال تھی اور ان پر آئی سی سی کی جانب سے پانچ برس کے لیے پابندی لگا دی گئی تھی جبکہ انھیں لندن میں اس ضمن میں سزا بھی بھگتنی پڑی تھی۔
جب سنہ 2015 میں ان کی پابندی ختم ہوئی تو پاکستان میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں ان کی واپسی ہوئی اور پھر عامر دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کی تمام فارمیٹس میں نمائندگی کرنے لگے۔
تاہم سنہ 2019 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں پاکستان کے اگلے راؤنڈ تک نہ پہنچنے اور پاکستانی فاسٹ بولرز کے لیے ورک لوڈ مینجمنٹ کا طریقہ وضع نہ ہونے کی وجہ سے عامر کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ نہ کھیلنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ واپسی کے بعد سے عامر ٹیسٹ کرکٹ میں وہ پرانی والی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے تھے جبکہ ٹورنامنٹس کے علاوہ عام میچوں میں ان کی کارکردگی وائٹ بال کرکٹ میں بھی کچھ خاص نہیں رہی تھی۔
تاہمٹیسٹ کرکٹ نہ کھیلنے کے فیصلے کے بعد جہاں وہ بین الاقوامی لیگز میں مقبولیت حاصل کرنے لگے تھے، وہیں پاکستان کی وائٹ بال ٹیمز سے عامر کو نکال دیا گیا تھا۔ شاہین آفریدی کے عروج کے باعث پاکستانی ٹیم کو ان کی کمی کم ہی محسوس ہوئی تاہم پھر پاکستانی فاسٹ بولرز کو ہونے والی انجریز کے باعث انھیں دوبارہ سنہ 2024 میں پاکستان ٹیم میں شامل کیا گیا۔
ادھر عماد وسیم کو محمد نواز کے ٹیم میں آنے کے بعد سے سیلیکشن کمیٹی کی جانب سے نظر انداز کیا جاتا رہا تھا اور وہ اس حوالے سے اپنے تحفظات اور مایوسی کا اظہار متعدد انٹرویوز میں بھی کر چکے ہیں۔
عامر اور عماد دونوں ہی سنہ 2007 میں پاکستان کی انڈر 19 ٹیم میں ساتھ تھے۔ دونوں نے ہی اپنی ڈومیسٹک کرکٹ بھی ایک ساتھ کھیلی اور کئی لیگز میں بھی ساتھ ہی دکھائی دیے۔
عماد وسیم اور اور عامر کی جانب سے ایک نجی ٹی وی چینل پر سنہ 2023 کے ورلڈ کپ کے دوران پاکستانی کھلاڑیوں بالخصوص بابر اعظم کو خاصی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ دونوں ہی کی جانب سے بابر اعظم کے حوالے سے گاہے بگاہے تنقید کی جاتی رہی ہے۔
’عامر کا ٹیلنٹ سپاٹ فکسنگ کی نظر ہو گیا‘
سوشل میڈیا پر دونوں کی جانب سے ایک بار پھر ریٹائرمنٹ لینے پر جہاں ان کے کریئر کی تعریف کی جا رہی اور انھیں مبارکباد دی جا رہی ہے، وہیں کچھ افراد ان پر مختلف وجوہات کی بنا پر تنقید کر رہے ہیں اور ماضی کے قصے بھی چھیڑ رہے ہیں۔
صارف ایڈم بیل نے عامر کی ریٹائرمنٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ٹیلنٹ ضائع ہو گیا۔ یہ (عامر) بطور نوعمر فاسٹ بولر انتہائی بہترین کارکردگی دکھا رہے تھے۔ وہ اپنے اوپر لگی پابندی کے بعد ویسے نہیں رہے، حالانکہ چیمپیئنز ٹرافی کی فتح میں ان کا اہم ترین کردار تھا۔ وہ گمنام پاکستانی کرکٹرز کی ایک ایسی جنریشن میں سے ہیں جن میں احمد شہزاد، اکمل، آصف کا شمار ہوتا ہے۔‘
کچھ افراد عامر اور عماد پر لیگ کرکٹ کو پاکستان کرکٹ پر ترجیح دینے پر تنقید کر رہے ہیں۔
صارف باسط سبہانی نے لکھا کہ پاکستان چیمپیئنز ٹرافی محمد عامر کی وجہ سے ہی جیتا جبکہ پاکستان کے سابق کوچ مکی آرتھر نے بھی عامر کی ایک ٹویٹ میں تعریف کی۔
کرشنا نامی صارف نے لکھا کہ ’محمد عامر کی انڈیا کے خلاف بولنگ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔‘ ایک صارف دلکیش نے لکھا کہ ’روہت شرما، وراٹ کوہلی اور شکھر دھون کی وکٹیں ہمیشہ یاد رہیں گی۔‘
ایک صارف نے لکھا کہ عماد وسیم وہ واحد بولر ہیں جنھوں نے اے بی ڈیویلئرز کو گولڈن ڈک پر آؤٹ کیا تھا۔