اب بہت سے بین الاقوامی مسافروں کو برطانیہ یا یورپی یونین کے بہت سے ممالک کی سرزمین پر قدم رکھنے سے پہلے آن لائن اجازت نامہ حاصل کرنا ہوگا اور اس کے لیے انھیں خود کو رجسٹر کرانے کی ضرورت ہوگی۔
آپ نے پہلے بھی سفر کی دشواریوں کا تجربہ کیا ہوگا اور اس میں درپیش آنے والے مسائل سے نبرد آزما ہوئے ہوں گے لیکن آنے والے سال سے برطانیہ اور کئی دوسرے یورپی ممالک کے سفر میں ایک اضافی شرط عائد کی جا رہی ہے۔
اب بہت سے بین الاقوامی مسافروں کو برطانیہ یا یورپی یونین کے بہت سے ممالک کی سرزمین پر قدم رکھنے سے پہلے آن لائن اجازت نامہ حاصل کرنا ہوگا اور اس کے لیے انھیں خود کو رجسٹر کرانے کی ضرورت ہوگی۔
برطانیہ کے سفر کا ارادہ کرنے والے لاکھوں مسافروں کو جلد ہی برطانیہ کی سرزمین پر قدم رکھنے سے پہلے آن لائن اجازت کے لیے اندراج کرنے کی ضرورت ہو گی، خواہ وہ ان کی منزل نہ بھی ہو اور وہ صرف وہاں سے گزر رہے ہوں۔
آٹھ جنوری سنہ 2025 سے امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور دیگر غیر یورپی ممالک کے زائرین جنھیں فی الحال برطانیہ میں مختصر قیام کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہے اب ان کو بھی برطانیہ میں داخلے کے لیے الیکٹرانک ٹریول اتھارٹی (ای ٹی اے) حاصل کرنے کی ضرورت ہو گی۔
ای ٹی اے حاصل کرنے کے لیے مسافروں کو ایک آن لائن فارم بھرنا ہوگا اور انھیں اس کے لیے دس پاؤنڈ یا تقریباً پونے تیرہ امریکی ڈالر فیس کے طور پر ادا کرنا ہو گی۔
درخواست دہندگان کو چند گھنٹوں میں پتہ چل جائے گا کہ آیا انھیں اجازت ملی ہے یا نہیں، لیکن کچھ معاملوں میں منظوری کے فیصلے میں تین کاروباری دن بھی لگ سکتے ہیں۔
یہ اجازت نامہ انھیں برطانیہ میں چھ ماہ تک کے قیام کے لیے متعدد بار داخلے کے لیے کافی ہوگا اور یہ دو سال کی مدت کے لیے یا مسافر کے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہونے جو بھی پہلے ہوں اس وقت تک قابل عمل ہوگا۔
نیا اجازت نامہ صرف غیر یورپی باشندوں کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ دو اپریل سنہ 2025 سے یورپی یونین کے شہریوں کے لیے بھی برطانیہ میں داخل ہونے سے پہلے ضروری ہو گا۔
واضح رہے کہ برطانیہ، آئرلینڈ کے شہری اور برطانیہ کے لیے جاری کیے گئے درست ویزا والے افراد اس سے مستثنیٰ ہوں گے۔
حکومت برطانیہ کے ہوم آفس کے مطابق ای ٹی اے سکیم کی توسیع (جو پہلے صرف مشرق وسطیٰ کے سات ممالک کے شہریوں پر عائد تھی) کا مقصد مسافروں کے اپنے ملک کو چھوڑنے سے پہلے برطانیہ میں داخل ہونے کی اہلیت کی تصدیق کرتے ہوئے داخلے کا ایک مزید منظم نظام بنانا ہے۔
برطانیہ جانے والے جہاز میں سوار ہونے پر گیٹ ایجنٹس آپ کے پاسپورٹ کے ڈیجیٹل لنک کے ذریعے آپ کے ای ٹی اے سٹیٹس کی تصدیق کریں گے جس سے بارڈر کراسنگ کے دوران وقت اور الجھن میں کمی آئے گی۔
ہوم آفس کا یہ بھی کہنا ہے کہ درخواست کے عمل کے دوران جمع کی گئی بائیوگرافک، بائیو میٹرک اور رابطے کی تفصیلات مسافروں کی نقل و حرکت کو بہتر طریقے سے ٹریک کر کے سکیورٹی بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہوں گی۔
برطانیہ کی مائیگریشن اور سٹیزن شپ کی وزیر سیما ملہوترا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ای ٹی اے کی یہ توسیع ایک ایسی سرحد کی فراہمی میں ایک اہم قدم ہے جو ڈیجیٹل دور کے لیے موثر اور موزوں ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’لوگوں کے برطانیہ میں قدم رکھنے سے پہلے لائٹ ٹچ سکریننگ کے ذریعے، ہم اپنے ملک کو محفوظ رکھیں گے جبکہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ زائرین کو سفر میں آسانی ہو۔‘
برطانیہ کی جانب سے ای ٹی اے کا نفاذ دنیا بھر میں کئی نئے الیکٹرانک انٹری پروگراموں کی صرف ایک مثال ہے۔ سنہ 2025 کے موسم بہار سے یورپی یونین کے 60 ممالک کو (بشمول برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا) ویزا سے مستثنیٰ غیر ملکیوں کے لیے 30 یورپی یونین ممالک میں داخلے کی اجازت دینے سے پہلے ایک نئی سفری اجازت درکار ہوگی۔
ای ٹی اے کی طرح اس نئے پروگرام کو یورپی ٹریول انفارمیشن اینڈ آتھرائزیشن سسٹم (ای ٹی آئی اے ایس) کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت قلیل مدتی مسافروں کو آن لائن درخواست دینے، ایک چھوٹی سی فیس (تقریبا سات یورو یا ساڑھے سات امریکی ڈالر) ادا کرنے اور پھر انتظار کرنے کی ضرورت ہے۔ درخواستوں کی منظوری کے لیے 96 گھنٹے کی مدت رکھی گئی ہے۔
یورپی یونین اپنے طور پر انٹری/ایگزٹ سسٹم (ای ای ایس) کے نام سے ایک علیحدہ ڈیجیٹل مانیٹرنگ اقدام شروع کرنے کے لیے بھی تیار ہے، جو غیر یورپی یونین کے شہریوں کی شناخت کے لیے پاسپورٹ کے بجائے چہرے اور فنگر پرنٹ سکین کا استعمال کرتا ہے۔
ای ٹی آئی اے ایس کے برعکس اس نئے حفاظتی اقدام (جو نومبر 2024 میں شروع ہونا تھا لیکن سنہ 2025 میں کسی وقت تک موخر کر دیا گیا ہے) کے تحت مسافروں کو اپنا سفر شروع کرنے سے پہلے کسی چیز کے لیے درخواست دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بجائے، مسافروں کو سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے یورپی یونین کے 29 ممالک میں سے کسی میں داخل ہونے پر رجسٹر کیا جائے گا۔
یورپی یونین کی ٹریول انفارمیشن ویب سائٹ کے مطابق ای ای ایس کا مقصد سرحدی کراسنگ کو جدید بنانا اور طویل امیگریشن لائنوں کو سرعت بخشنا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وبائی امراض کے بعد سفری مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت دنیا بھر میں جاری کئي دوسرے ڈیجیٹل انٹری سسٹمز کی طرح اس نئے داخلے کے نظام کا مقصد بھی شناختی فراڈ اور یورپی یونین میں مقیم لوگوں کی تعداد سے نمٹنا ہے۔
تاہم، ہر کوئی سرحدی داخلے کے عمل کی بڑھتی ہوئی ڈیجیٹلائزیشن سے خوش نہیں ہے۔ توسیع شدہ ای ٹی اے سکیم کے ناقدین کو تشویش ہے کہ اضافی عمل اور فیس کم عمر اور کم امیر مسافروں کے لیے ایک رکاوٹ ہوگی۔
جبکہ بہت سے دوسروں کو خدشہ ہے کہ جیسے جیسے ممالک اور خطے آن لائن انٹری فارمز کی طرف بڑھ رہے ہیں، انھیں اب پاسپورٹ سٹیمپ نہیں ملیں گے، جو طویل عرصے سے مسافروں کے درمیان جذباتی اہمیت رکھتے ہیں۔ ٹیکنالوجی میں خرابی کی صورت میں کیا ہوگا اس کے بارے میں ایک عمومی تشویش بھی ہے۔
غیر سفید فام مسافروں کی آن لائن کمیونیٹی نومیڈنیس ٹراول ٹرائب کی رکن کیٹا ژان نے کہا کہ سفر کی ڈیجیٹائزیشن کے بارے میں ’میں بہت افسردہہوں اور فکر مند بھی ہوں۔‘
وہ بہت سفر کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’پاسپورٹ سٹیمپ یادوں کو دستاویز کرنے اور پیچھے دیکھنے کا ایک بہترین طریقہ ہیں، اس کے ساتھ یہ اس وقت بھی کارآمد ہوتے ہیں جب پراسیس اور ٹیکنالوجی ناکام ہو جاتی ہے۔‘
بہر حال بہت سے ممالک میں داخلے کے لیے ڈیجیٹل انٹری سسٹم نافذ کیا جا رہا ہے اور اس کے لیے فیس بھی لی جا رہی ہیں ایسے میں صرف وقت ہی بتائے گا کہ آیا یہ نئی تبدیلیاں سرحدوں کو عبور کرنے کو زیادہ موثر بنانے میں مدد کریں گی یا مسافر انھیں ایک غیر موثر اور غیر ضروری رخنے کے طور پر دیکھیں گے۔