بشار الاسد سے منسوب بیان میں کہا گیا ہے کہ جس وقت دمشق باغیوں کے کنٹرول میں گیا وہ اس وقت ایک روسی فوجی اڈے پر موجود تھے تاکہ ’فوجی آپریشن کی نگرانی‘ کر سکیں لیکن اس وقت تک شام کی فوج اپنی پوزیشن چھوڑ کر پیچھے ہٹ چکی تھی۔
شام چھوڑنے کے بعد اپنے پہلے بیان میں معزول صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ ان کا ملک چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا تاہم انھیں اپنی فوج کے پسپائی اختیار کرنے کے بعد ایسا کرنا پڑا۔
سوموار کے دن بشار الاسد سے منسوب یہ بیان ایک ایسے ٹیلی گرام اکاؤنٹ کی جانب سے شیئر کیا گیا ہے جو کہ شام کے ایوانِ صدر کی جانب چلایا جاتا تھا، لیکن ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ اس اکاؤنٹ کا کنٹرول کس کے ہاتھ میں ہے یا یہ بیان بشار الاسد نے خود لکھا بھی ہے یا نہیں۔
خیال رہے 9 دسمبر کو باغی گروہوں نے دارالحکومت دمشق کا کنٹرول سنبھالا تھا اور بشار الاسد کا 24 سالہ اقتدار اپنے اختتام پر پہنچا تھا۔
بشار الاسد سے منسوب بیان میں کہا گیا ہے کہ جس وقت دمشق باغیوں کے کنٹرول میں گیا وہ اس وقت لاذقیہ میں ایک روسی فوجی اڈے پر موجود تھے تاکہ ’فوجی آپریشن کی نگرانی‘ کر سکیں لیکن اس وقت تک شام کی فوج اپنی پوزیشن چھوڑ کر پیچھے ہٹ چکی تھی۔
بشار الاسد کے مطابق روسی ہوائی اڈے حمیمیم پر بھی ’شدید ڈرون حملے‘ ہو رہے تھے اور اسی وقت روس نے انھیں ماسکو لے جانے کا فیصلہ کیا تھا۔
بشار الاسد سے منسوب یہ بیان انگریزی اور عربی دونوں میں شیئر کیا گیا ہے اور اس میں 8 دسمبر کے واقعات کی تفصیل دی گئی ہے کہ کیسے وہ روسی اڈے پر پھنس گئے تھے۔
’جب ہوائی اڈے سے نکلنے کا کوئی راستہ باقی نہیں بچا تو روس نے درخواست کی کہ 8 دسمبر، اتوار کی شام کو فوراً اسے خالی کیا جائے اور وہاں موجود لوگوں کو روس پہنچایا جائے۔‘
’یہ سب دمشق کے (باغیوں کے) کنٹرول میں آنے کے ایک دن بعد ہوا جب شامی فوج نے اپنے ٹھکانوں کو چھوڑ دیا ور اس کے نیتجے میں تمام ریاستی ادارے مفلوج ہو گئے۔‘
اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ان واقعات کے دوران میں نے کسی بھی موقع پر صدارت چھوڑنے یا پناہ لینے پر غور نہیں کیا تھا اور نہ ہی کسی فرد یا فریق نے اس وقت تک مجھے ایسی پیشکش کی تھی۔‘
’لیکن جب ریاست دہشتگردوں کے ہاتھ میں آ گئی اور میری معنی خیز کردار ادا کرنے کی صلاحیت ختم ہوگئی تو پھر میری وہاں موجودگی بھی بےمعنی ہو گئی تھی۔‘
جب ہیئت تحریر شام کی قیادت میں باغیوں نے صرف 12 دنوں میں شامی شہروں اور صوبوں پر قبضہ کیا تو بشار الاسد کہیں نظر نہیں آئے تھے۔
تاہم اس وقت یہ قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ بشار الاسد ملک چھوڑ گئے ہیں۔ یہاں تک کہ جب باغی دمشق میں داخل ہوئے تو اس وقت بشار الاسد کے اپنے وزیرِ اعظم ان سے رابطہ کرنے سے قاصر تھے۔
اتوار کو علی الصبح جب جنگجوؤں نے دمشق شہر میں بغیر کسی مزاحمت میں داخل ہو رہے تھے تو عسکریت پسند گروہ ہیئت تحریر الشام اور اس کے اتحادیوں نے اعلان کیا کہ ’ظالم بشار الاسد (شام) چھوڑ گئے ہیں۔‘
روئٹرز نیوز ایجنسی نے اس دوران دو سینیئر شامی فوجی افسران کے حوالے سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ بشار الاسد سیریئن ایئر کے ایک طیارے میں سوار ہو کر دمشق ایئرپورٹ سے اتوار کی صبح روانہ ہو گئے تھے۔
9 دسمبر کو روسی میڈیا نے اعلان کیا کہ بشار الاسد کو روس میں پناہ دے دی گئی ہے، تاہم اس بات کی سرکاری سطح پر اب تک تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
بشار الاسد نے اقتدار سے بے دخلی کے بعد روس کا انتخاب کیوں کیا؟
اس سوال کا ایک سادہ سا جواب تو یہی ہے کہ سنہ 2011 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے دنوں میں روس بشار الاسد کا اہم اتحادی بن کر سامنے آیا تھا اور کریملن کے مشرق وسطی کے اس ملک میں دو فوجی اڈے بھی ہیں۔
سنہ 2015 میں روس نے بشار الاسد کی حمایت میں فضائی حملے شروع کیے جس سے ملک میں جاری جنگ کا حتمی نتیجہ بشار الاسد کے حق میں نکلا اور ان کے خلاف برسرپیکار گروپوں کو پے در پے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
برطانیہ میں قائم گروپ کے مطابق روس کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں میں نو برس میں 21,000 سے زائد افراد ہلاک ہوئے جن میں 8,700 عام شہری بھی شامل تھے۔ تاہم روس کی توجہ یوکرین میں بٹی ہونے کی وجہ سے روس یا تو اب بشار الاسد سے تعاون کرنے پر آمادہ نہ تھا یا پھر وہ اس قابل ہی نہیں تھا کہ نومبر کے آخر میں وہ بشار الاسد کے خلاف باغیوں کے حملوں کو روک پاتا۔
بشار الاسد کے روس اور خاص طور پر ماسکو سے گہرے روابط کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
سنہ 2019 میں فنانشل ٹائمز کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ شام میں خانہ جنگی کے دوران ملک سے لاکھوں ڈالر باہر لے جانے کی غرض سے بشار الاسد کے خاندان نے روس کے دارالحکومت ماسکو میں 18 انتہائی پرتعیش اپارٹمنٹس خریدے ہیں۔
گذشتہ ہفتے روس کے ایک مقامی اخبار کی خبر کے مطابق بشار الاسد کے 22 برس کے بڑے بیٹے حافظ الاسد ماسکو سے اس وقت پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ دمشق میں افراتفری کے دوران روس کے سرکاری ٹی وی چینل نے یہ خبر دی کہ روسی حکام اس وقت شام میں مسلح اپوزیشن سے ملک میں موجود دو روسی فوجی اڈوں اور سفارتی عملے کی حفاظت کو یقینی بنانے سے متعلق رابطے میں ہیں۔
طاقتور ممالک کے ہیئت تحریر شام سے ’سفارتی رابطے‘
اس وقت شامی باغی گروہ ملک میں ایک عبوری حکومت تشکیل دے رہے ہیں۔ ملک کا سب سے طاقتور باغی گروہ ہیئت تحریر شام 2011 میں جبھۃ النصرہ کے نام سے منظرِ عام پر آیا تھا اور اس نے اسی برس القاعدہ سے منسلک ہونے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم اس تنظیم نے سنہ 2016 میں القاعدہ سے تعلق توڑ دیا اور مختلف دیگر گروہوں کے ساتھ مل کر ہیئت تحریر شام کی بنیاد رکھ دی۔ تاہم اقوامِ متحدہ، امریکہ، برطانیہ اور دیگر متعدد ممالک تاحال اسے ایک دہشتگرد گروہ تصور کرتے ہیں۔
تنظیم کے سربراہ احمد الشرع (ابو محمد الجولانی) کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ شام میں دیگر مذہبی گروہوں اور برادریوں کے لیے برداشت کا مظاہرہ کریں گے۔ تاہم ان کے گروہ کا ایک جہادی ماضی بھی ہے جس کے سبب کچھ افراد ان کے وعدوں کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے نمائندے گئیر پیڈرسن نے اتوار کو احمد الشرع سے ملاقات کی تھی اور ان کا کہنا ہے کہ شام میں ایک ’مستند‘ تبدیلی کا آنا ضروری ہے۔
قطر نے 13 برس قبل شام میں اپنا سفارتخانہ بند کر دیا تھا لیکن اب اس کی حکومت کی جانب سے ایک وفد دمشق بھیجا گیا ہے تاکہ ملک میں سفارتی سرگرمیاں دوبارہ شروع کی جا سکیں۔
مغربی ممالک نے شام میں سفارتخانے کھولنے کا اعلان تو نہیں کیا لیکن امریکہ اور برطانیہ کا کہنا ہے کہ گذشتہ دو دنوں میں ان کے ہیئت تحریر شام سے رابطے ہوئے ہیں۔
تاہم برطانوی حکومت نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ ’سفارتی رابطے‘ شروع ہونے کے باوجود ہیئت تحریر شام کی بطور دہشتگرد گروہ حیثیت برقرار ہے۔
دوسری جانب پیر کو یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کلاس نے کہا تھا کہ روس اور ایران کا 'شام کے مستقبل میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔'