اس وقت انڈین ٹیم آسٹریلیا کا دورہ کر رہی ہے جہاں وہ برزبین کے میدان پر تیسرا ٹیسٹ میچ کھیل رہی ہے اور سیریز ایک ایک سے برابر ہے۔ اس کے باوجود انڈیا کے دو مایہ ناز بیٹسمین کپتان روہت شرما اور سابق کپتان وراٹ کوہلی بہت سے انڈین کرکٹ شائقین کے نشانے پر ہیں اور بعض تو انھیں ریٹائر ہونے کا مشورہ بھی دے رہے ہیں۔
کہتے ہیں کہ کرکٹ سے زیادہ غیر یقینی صورت حال کسی دوسرے کھیل میں نظر نہیں آتی، یہ کرشموں اور معجزوں سے پُر کھیل ہے۔
اس کے مداح بھی اسی خمیر سے اٹھتے ہیں اور وہ ہر وقت کرشموں اور معجزوں کی امید کرتے رہتے ہیں۔ اگر ایک وقت میں وہ کسی کرکٹر کو پل بھر میں آنکھوں تارا بنا لیتے ہیں تو دوسرے پل وہ انھیں نظروں سے گرانے میں دیر بھی نہیں کرتے۔
اس وقت انڈین ٹیم آسٹریلیا کا دورہ کر رہی ہے جہاں وہ برزبین کے میدان پر تیسرا ٹیسٹ میچ کھیل رہی ہے اور سیریز ایک ایک سے برابر ہے۔ اس کے باوجود انڈیا کے دو مایہ ناز بیٹسمین کپتان روہت شرما اور سابق کپتان وراٹ کوہلی بہت سے انڈین کرکٹ شائقین کے نشانے پر ہیں اور بعض تو انھیں ریٹائر ہونے کا مشورہ بھی دے رہے ہیں۔
اگرچہ کوہلی نے دوسرے ٹیسٹ میچ میں سنچری بھی سکور کی ہے لیکن وہ ان کی تنقید سے بچ نہیں پا رہے ہیں اور لوگ ان کے شاٹ سلیکشن کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
جبکہ بعض ان کا مقابلہ سابق انڈین کرکٹر سچن تنڈولکر سے کر رہے ہیں۔ ہم کرکٹ ماہرین اور سوشل میڈیا کے حوالے سے یہاں یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان دنوں کرکٹروں کو کیا واقعتا ریٹائر ہو جانا چاہیے یا پھر ان میں ابھی کرکٹ بچی ہے اور یہ کہ یہ ان کا ایک خراب دور ہے۔
پہلے بات روہت شرما کی
روہت شرما کو اس وقت کپتانی سونپی گئی جب وراٹ کوہلی شدید دباؤ اور کرکٹ کے شائقین کی جانب سے تنقید کے نشانے پر تھے۔ روہت شرما کا ریکارڈ ٹیسٹ کرکٹ میں اتنا شاندار نہیں ہے جتنا محدود اوورز کے میچوں میں ہے۔
ان کے جارحانہ کھیل کی وجہ سے انھیں انڈیا میں ’ہٹ مین‘ کہا جاتا ہے۔ انھوں نے ون ڈے میں تین ڈبل سنچریاں لگا رکھی ہیں اور ایک اننگز میں سب سے زیادہ 264 رنز بنانے کا ریکارڈ بھی انہی کے نام ہے۔
ایک روزہ میچ میں ان کی 31 سنـچریاں اور 57 نصف سنچریاں ہیں جبکہ اوسط تقریباً 50 کا ہے۔ دوسری جانب ٹیسٹ میں 12 سنچریاں اور 18 نصف سنچریاں ہیں جبکہ اوسط 41 رنز فی اننگز کا ہے۔
روہت شرما کی اگر آخری 12 اننگز کو دیکھیں تو اس میں انھوں نے 12 رنز سے بھی کم فی اننگز کی اوسط سے محض 143 رنز بنائے ہیں جس میں نیوزی لینڈ کے خلاف بنگلور میں لگائی گئی ایک نصف سنچری (52) شامل ہے۔
آسٹریلیا کے خلاف پہلے میچ میں وہ ٹیم میں شامل نہیں تھے جبکہ دوسرے میچ میں انھوں نے تین اور چھ رنز بنائے۔ برزبین میں جاری میچ کی پہلی اننگز میں انھوں نے 10 رنز بنائے۔
ان کے جیسے قد آور بیٹسمین کے لیے ٹیسٹ واقعی ٹیسٹ ثابت ہو رہا ہے اور وہ با آسانی اپنی وکٹ گنوا رہے ہیں۔ بہت سے لوگ ان کے ٹیسٹ ٹیم میں ہونے اور وہ بھی کپتان ہونے پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔
انگلینڈ کے سابق کپتان مائیکل وان نے کمنٹری کے دوران روہت شرما کے شاٹ سلیکشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انھیں ’ڈرپوک‘ کہا۔ در اصل پیٹ کمنز نے پہلے انھیں ایک باؤنسر کیا جو سنسناتی ہوئی نکل گئی اور پھر دوسری بال انھوں نے آگے پوری لینتھ پر کی لیکن روہت نے غلط اندازہ لگایا کہ وہ پھر سے باؤنسر کریں گے اور انھوں نے وکٹ کے پیچھے ایلکس کیری کے ہاتھوں میں آسان سا کیچ دے دیا۔
سٹار سپورٹس پر کمنٹری کے دوران وان نے کہا کہ ’پیٹ کمنز کا روہت شرما کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ ان کی جانب سے بہت بزدلانہ رویہ تھا۔ وہ ایک مختلف ڈلیوری کی توقع کر رہے تھے لیکن انھیں دوسری ہی قسم کی گیند کھیلنے کو ملی۔‘
انڈین کمنٹیٹر ہرشا بھوگلے نے بھی مایوسی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’انڈین شائقین اپنے کپتان سے بہت کی امیدیں کر رہے تھے۔ ٹیم کو میچ میں برقرار رکھنے کے لیے 200 رنز درکار تھے۔ روہت کو ان میں سے 40 فیصد رنز بنانے چاہیے تھے۔‘
بہت سے صارفین نے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ ’ایسا لگتا ہے کہ روہت نے ہمت ہار دی ہے۔‘ جبکہ سابق آسٹریلین کرکٹر اور کمنٹیٹر میتھو ہیڈن نے کہا ہے کہ روہت کو بڑے مقصد اور زیادہ توانائی کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’جب میں روہت شرما کے بارے میں سوچتا ہوں تو میں ایک تیزی سے رنز بنانے والے اور کھل کر کھیلنے والے بلے باز کے بارے میں سوچتا ہوں۔ آپ ایک روزہ کرکٹ میں ان ڈبل سنچریوں کو دیکھیں، مختصر فارمیٹس میں وہ ان کی شان۔ روہت شرما کو اپنے ہی بڑے مقصد کے لیے کھیلنے اور توانائی برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔۔۔ میں ان کے ساتھی کے طور پر ان سے کہوں گا کہ میں واقعتا انھیں (برزبین میں) بال کا دفاع کرتے دیکھنا نہیں چاہتا۔‘
بعض ماہرین نے اس جانب بھی توجہ دلائی ہے کہ آسٹریلیا میں ان کی کارکردگی پہلے بھی اچھی نہیں رہی ہے اور انھوں نے وہاں اپنی 17 اننگز میں 26 رنز کی اوسط سے رنز بنائے ہیں جن میں صرف تین نصف سنچریاں شامل ہیں۔
دوسری جانب وراٹ کوہلی نے آسٹریلیا کے خلاف 9 سنچریاں بنا رکھی ہیں اور وہ سچن تیندولکر کے بعد آسٹریلیا کے خلاف سب سے زیادہ رنز اور سنچریاں بنانے والے کھلاڑی ہیں لیکن اپنی حالیہ 12 اننگز میں ایک سنچری اور ایک نصف سنچری کی بدولت 29 کی اوسط سے انھوں نے محض 292 رنز ہی سکور کیے ہیں۔
’ایسے شاٹ پر معافی نہیں مل سکتی‘
کینیڈا میں مقیم پاکستانی سپورٹس صحافی معین الدین حمید نے بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عام طور پر کھلاڑیوں میں دیکھا گیا ہے کہ وہ وقت پر ریٹائر نہیں ہوتے۔
’عمران خان نے 1992 کے ورلڈ کپ سے پہلے ہی ریٹائرمنٹ لے لی تھی لیکن پھر صدر ضیاء الحق کے کہنے پر واپس آئے اور ورلڈ کپ جیتنے کا اپنا خواب پورا کیا۔‘
انھوں نے تینڈولکر کے بارے میں بھی کہا تھا کہ ’انھیں دو تین سال پہلے ہی کرکٹ کو خیرباد کہہ دینا چاہیے تھا۔ جہاں تک روہت اور کوہلی کی بات ہے تو یہ دونوں بہت ہی نمایاں کھلاڑی ہیں۔ میں کوہلی کو روہت کے مقابلے میں زیادہ نمبر دیتا ہوں کہ ان کی فٹنس بہتر ہے اور ان کی مجموعی کارکردگی بھی بہتر ہے۔'
انھوں نے مزید کہا کہ ’ایک تو گیند اچھی ہوتی اور کھلاڑی آوٹ ہو جاتا ہے اور دوسری وہ خراب شاٹ کھیل کر آؤٹ ہوتا ہے۔ ابھی برزبین میں جس طرح کوہلی آؤٹ ہوئے ہیں، اس پر ان کو معافی نہیں ملنی چاہیے۔ وہ 120 ٹیسٹ کھیل چکے ہیں نو ہزار سے زیادہ رنز بنا چکے ہیں اور ان کے سامنے 400 سے زیادہ کا سکور ہے اور وہ اس طرح کا شاٹ کھیلتے ہیں اور کیچ دے بیٹھتے ہیں۔‘
انھوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’جیسوال نے بھی غلطی کی ہے لیکن اس نے تو ابھی 16 ٹیسٹ ہی کھیلے ہیں۔‘
صحافی معین الدین نے روہت شرما اور کوہلی کی ریٹائرمنٹ کے سوال پر کہا کہ ’میرا خیال ہے اور جیسا کہ عمران نے کہا کہ اچھے کھلاڑیوں کو اچھے دور میں ہی ریٹائرمنٹ لے لینی چاہیے۔ جہاں تک کوہلی سے بابر کا موازنہ ہے تو میں کہوں گا کہ یہ بابر کا خراب دور ہے ان پر دباؤ بہت رہا ہے لیکن ابھی ان کے سامنے کرکٹ کھیلنے کے لیے وقت ہے بس تشویش کی بات ان کا سپنرز کے خلاف آسانی سے آؤٹ ہو جانا ہے۔‘
سوشل میڈیا پر سوالوں کی بوچھار
سوشل میڈیا صارفین روہت شرما اور وراٹ کوہلی کو کسی صورت بخشنے کو تیار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ کوئی پوچھ رہا ہے کہ کیا انھیں اب ریٹائر ہو جانا چاہیے تو کوئی پوچھ رہا ہے کہ یہ دونوں اب بھی کیوں کھیل رہے ہیں۔
ایک صارف نے تو روہت کے آوٹ ہو کر جانے اور باؤنڈری کے باہر دستانوں کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ روہت کے ریٹائرمنٹ کا عندیہ ہے۔‘
ایک نے لکھا کہ روہت کو کسی بہانے سے یہ سیریز چھوڑ دینی چاہیے اور کسی سپاٹ پچ پر ہونے والی سیریز کا انتظار کرنا چاہیے۔
سوجیت سمن نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’روہت ایسے کھلاری ہیں جو بغیر کپتانی کے کھیل نہیں سکتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انھوں نے کپتانی چھوڑی تو کارکردگی کی بنیاد پر ان کے لیے ٹیم میں بھی جگہ نہیں ہو گی۔ وہ انڈین ٹیم کو اپنی خودغرضی سے تباہ کر رہے ہیں۔‘
آروو نامی ایک صارف نے مائیک ہسی اور ایرون فنچ کے سوال جواب کو پیش کیا ہے کہ مائیک پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کو یاد کہ آخری بار روہت نے کب انڈیا کو ڈھیر ہونے سے بچایا ہے تو ایرون جواب دیتے ہیں نہیں، کیونکہ روہت تو خود اس کا حصہ ہوتے ہیں (دونوں ہنستے ہیں)۔
ایک صارف نے روہت اور کوہلی کی تصویر ڈال کر لکھا ہے کہ ’یہ شاید روہت کی آخری سیریز ہے۔ وہ ختم ہو چکے ہیں اور انھیں دھونی کی طرح عزت سے کپتانی چھوڑ دینی چاہیے۔ ان کے لیے یہ درست ہوگا کہ وہ اپنی جگہ بھی چھوڑ دیں اور ہاں، وراٹ کو بھی اپنے ساتھ لیتے جائيں۔‘
کچھ لوگ روہت شرما کی ورلڈ کپ جیت کی یادگار تصاویر بھی شیئر کر رہے ہیں۔ بہت سے صارفین نے اس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ وہ دونوں ایک ہی طرح سے بار بار آؤٹ ہو رہے ہیں۔
چودھری نامی ایک صارف نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’اچھے اور عظیم کھلاڑیوں میں آن ڈرائیو کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ سچن، کوہلی، ڈریوڈ کھیلے سکتے ہیں لیکن دھونی اور روہت نہیں، پونٹنگ اور سمتھ کھیل سکتے ہیں لیکن گلکرسٹ اور ٹریوس نہیں، بابر کھیل سکتے جبکہ رضوان نہیں۔۔۔‘
https://twitter.com/WahChoudhary/status/1868661211472224474
بہت سے صارفین نے روہت شرما کی آخری 13 اننگز کے سکور پیش کیے ہیں جو اس طرح ہیں۔ 6، 5، 23، 8، 2، 52، 0، 8، 18، 11، 3، 6 اور 10۔
روہت شرما 37 سال کے ہو چکے ہیں جبکہ وراٹ کوہلی بھی 36 سال کے ہو چکے ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ عمر کے بجائے ان کی فٹنس اور فارم کو دیکھا جانا چاہیے۔
کچھ صارفین آسٹریلیا کے خلاف جاری گواسکر-بورڈر سیریز کے دوران روہت شرما کی باڈی لینگویج اور سست روی کا بھی ذکر کر رہے ہیں لیکن کوہلی ابھی بھی فیلڈ میں سب سے زیادہ متحرک نظر آتے ہیں، تاہم انھوں نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد ٹی-20 انٹرنیشنل سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا ہے۔
اسی طرح روہت نے بھی اسی موقع پر ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا۔ کوہلی کے لیے ٹیسٹ میں ابھی کئی سنگ میل ہیں جو ان کے لیے ترغیب کا باعث ہو سکتے ہیں لیکن بہت سے کرکٹ شائقین کے حساب سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ روہت کے سامنے ایسا کوئی مقصد نہیں اور یہ سیریز ان کی آخری سیریز ثابت ہو سکتی ہے لیکن ابھی بھی پانچ اننگز باقی ہیں۔