صائم بدقسمت رہے کہ اپنی اس یادگار سینچری کو میچ کے اختتام تک ناقابلِ شکست نہ رکھ پائے مگر تحمل اور تکنیک سے آراستہ اس ٹھوس اننگز میں، سلمان آغا کے لیے وہ بنیاد ضرور فراہم کر گئے کہ جس پر پاکستان کی سیریز میں برتری بن پاتی۔
فی زمانہ جو کچھ بھی ون ڈے کرکٹ میں دیکھنے کو ملتا ہے، پارل کی یہ پچ اس سب کا الٹ تھی۔ منگل کی سہ پہر اس پچ پر کھیلی گئی کرکٹ اپنی چال میں آج کی معلوم نہ پڑتی تھی بلکہ اس پر دو دہائی پہلے کے رجحانات کا گماں ہوتا تھا۔
ون ڈے کرکٹ کے وہ پرانے بھلے دن کہ جب پاور پلے جیسی اصطلاحات ایجاد نہ ہوئی تھیں، بلے کی جسامت اخلاقی حدود و قیود سے تجاوز نہ کرتی تھی، دونوں کناروں سے نئی گیند استعمال نہ ہوتی تھی اور 250 ایک فاتحانہ مجموعہ تصور ہوا کرتا تھا۔
ان بھولے بِسرے دنوں کی یاد دلاتی اس پچ پر کامیابی کی کلید وہی ہوتی ہے جو ٹونی ڈی زورزی اور رائن رکلٹن نے اپنائی کہ نئی گیند کا بھرپور فائدہ اٹھایا جائے اور پاور پلے کی فیلڈنگ قیود کا بہترین استعمال کرتے ہوئے ایک اچھا آغاز حاصل کیا جائے۔
جو پچز اپنی طبیعت میں ایسی سست ہوں، وہاں برق رفتار رنز بٹورنے کا موقع صرف تبھی میسر ہوتا ہے جب سفید چمڑے کی چمک برقرار ہو۔ جوں جوں گیند پرانی ہوتی جائے، دھیمے باؤنس پر سپن کی یلغار سہنا آسان نہیں ہوتا۔
محمد رضوان کی قائدانہ فلاسفی ہمیشہ دس وکٹیں بٹورنے کے گرد مرکوز رہتی ہے۔ وہ اپنے بولرز کو جارحیت اپنانے کی بھرپور چھوٹ دیتے ہیں اور کوئی چال خطا بھی ہو جائے تو بولر کا حوصلہ گرانے کی بجائے مکمل تائید فراہم کرتے ہیں۔
مگر یہاں ان کے پلان قدرے خطا کھا گئے کہ جس پچ کا بنیادی خواص ہی دھیما باؤنس اور سستی تھی، وہاں پیسرز کے موثر ہونے کی واحد صورت سٹمپس کے اندر لینتھ اور ڈسپلن برقرار رکھنا تھا۔ الٹا پاکستانی پیسرز کے جارحانہ عزائم نے جنوبی افریقی اوپنرز کا کام آسان کر دیا۔
لیکن پھر پاکستان کا سرپرائز سامنے آیا جب رضوان نے گیند سلمان آغا کو تھمائی اور جنوبی افریقی بیٹنگ پُراسرار راہوں میں کھو گئی۔ سلمان کی گیندوں میں سے کچھ زیادہ ٹرن ہوئیں، کچھ کم تو کچھ اپنی راہ پر قائم رہیں مگر جنوبی افریقی ٹاپ آرڈر کے قدم اپنی جگہ قائم نہ رہ پائے۔
سلمان کی لگائی نقب ٹاپ آرڈر سے ہوتی مڈل آرڈر تک آن پہنچی۔ ان اوپر تلے چار وکٹوں کی بدولت ممکن ہوا کہ بالآخر درپیش ہدف وہ ضخامت حاصل نہ کر پایا کہ پاکستانی بیٹنگ کی بے اعتباری کی نذر ہو جاتا۔
کلاسن کی اننگز وہ بند ثابت ہوئی جو پانی کی طرح بہتی بیٹنگ لائن کا خسارہ روکنے کا وسیلہ ٹھہرا۔ سپن کے خلاف ان کی تکنیک کا کمال ہے کہ گلین میکسویل کی طرح کریز میں جمے ہی وہ ایسے ٹھوس شاٹ کھیل سکتے ہیں جہاں قدموں کا استعمال یکسر غائب ہو کر بولر کے راستے محدود کر دیتا ہے۔
کلاسن کی اننگز نے اگر میچ میں واپس جنوبی افریقہ کا دعویٰ قائم کیا تو ربادا اور مارکو یئنسن کے پہلے سپیل نے اس دعوے کو مستحکم کیا۔ پاکستانی پیسرز کے برعکس انھوں نے جارحیت سے گریز کرتے ہوئے فقط رنز کی راہیں روکنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں جو لینتھ دیکھنے کو ملی، اس پر بازو کھولنے کو غیر معمولی جرات کے ساتھ ساتھ بالکل بے عیب تکنیک بھی درکار تھی۔
یہ پلان اس قدر موثر رہا کہ جب بارٹمین اپنے پہلے سپیل کی پہلی گیند کے لیے آئے تو پاکستانی بیٹنگ ایسے دباؤ میں آ چکی تھی کہ ان کے پہلے دونوں اوورز میڈن گئے۔ یہ وہ مظہر ہے کہ ماڈرن کرکٹ میں ہو پانا ناممکن ہے، کجا کہ سامنے موجود بلے باز بھی صائم ایوب سا ہو۔
صائم نے ابھی تک اپنے مختصر کرئیر میں ثابت کیا ہے کہ وہ بہت جلد فارمیٹ اور حالات سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہاں بھی وہ جلد ہی بھانپ گئے کہ انا کو پسِ پشت ڈالے بنا اس پچ پر بات بنے گی نہیں۔
انھوں نے سر جھکا کر نئی گیند پر جنوبی افریقی پیس کے ڈسپلن کو بھگتا اور اننگز کے بیشتر حصے میں اپنے حواس برقرار رکھے۔ دوسرے کنارے سے، اوپر تلے چار وکٹیں گنوانے کے بعد بھی ان کا اعتماد ڈگمگایا نہیں بلکہ سلمان آغا کے ہمراہ انھوں نے وہ خدشہ پلٹنے کا عزم نبھایا جو عموماً ایسے مواقع پر پاکستان کی تاریخ رہا ہے۔
اور پھر ان کے صبر نے اپنا پھل بھی دیا۔ وہی بارٹمین جو پہلے سپیل میں نئی گیند کے ساتھ متواتر دو میڈن اوورز پھینک گئے تھے اور بابر و رضوان کے علاوہ خود صائم کے لیے بھی ناقابلِ فہم رہے تھے، دوسرے سپیل میں ان کا پالا اصل صائم ایوب سے پڑ گیا۔
اس اوور میں جو سلوک صائم نے ان سے کیا، اس نے جنوبی افریقہ کو میچ سے بالکل باہر دھکیل دیا۔
صائم بدقسمت رہے کہ اپنی اس یادگار سینچری کو میچ کے اختتام تک ناقابلِ شکست نہ رکھ پائے مگر تحمل اور تکنیک سے آراستہ اس ٹھوس اننگز میں، سلمان آغا کے لیے وہ بنیاد ضرور فراہم کر گئے کہ جس پر پاکستان کی سیریز میں برتری بن پاتی۔