کئی برس قبل کرسٹینا اور ان کی ٹیم نے ’وکٹوریا‘ کو سیکس ٹریفکنگ کے ایک گروہ سے بچایا تھا۔
کئی برس قبل کرسٹینا اور ان کی ٹیم نے ’وکٹوریا‘ کو سیکس ٹریفکنگ کے ایک گروہ سے بچایا تھا۔
اس وقت وکٹوریا موت کے دہانے پر تھیں۔ تین سال تک انھیں شدید جسمانی اور جذباتی استحصال کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنے بچوں سے ملنے کی امید نے ہی انھیں زندہ رکھا ہوا تھا۔
پولیس کی تحقیقات تو مکمل ہو گئیں لیکن کرسٹینا اور ان کی ٹیم کا وکٹوریا کے ساتھ تعلق اب بھی قائم ہے۔
کرسٹینا اور ان کی ٹیم نے وکٹوریا کی زندگی بہتر کرنے میں بڑا کردار نبھایا۔ جیسے ایک ماں کو اپنے بچوں سے ملوانا اور ان کی سالگرہ پر کیک کے ساتھ سرپرائز دینا۔
یہ موسم خزاں کی ایک سہ پہر تھی جب وکٹوریا (فرضی نام) اس وقت جذباتی ہو گئیں جب کرسٹینا اور ان کے ساتھی تحائف کے ساتھ مقامی پارک آئے۔
وہ ان کے ساتھ ایک اور سال مکمل ہونے پر خوش تھیں اور مسکرا رہی تھیں لیکن 40 سال سے زیادہ عمر کی وکٹوریا کے بقول ان کا ماضی بہت تلخ رہا ہے۔
بطور سیکس ورکر 24 گھنٹے کام
وکٹوریا کے بچپن میں ان کا آبائی علاقہ کولمبیا ان کے لیے بہت سفاک تھا۔ یہ سنہ 1986 کی بات ہے جب ان کے والد ایک دن گھر واپسی پر لاپتہ ہو گئے اور پیچھے کوئی نشان نہیں چھوڑا۔
ان کی ماں نے ایک اور شخص سے شادی کر لی جس نے وکٹوریا اور ان کی چھوٹی بہن کا ریپ کیا۔ بطور بڑی بہن وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی مالی مدد کرنا چاہتی تھیں۔
ایسے میں جب انھیں ایک دوست نے ایک ایسی خاتون سے متعارف کروایا جنھوں نے انھیں سپین میں صفائی کے کام کی ایک نوکری بتائی تو وکٹوریا نے سوچا کہ شاید اب زندگی میں بہتری آئے گی۔
لیکن یورپ میں ان کے انتظار میں جو کچھ تھا وہ تکلیف کی ایک اور قسم تھی۔ انھیں فوری طور پر سیکس ورکر کے کام پر مجبور کیا گیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے میک اپ میں ہی سونا ہوتا تھا اور آپ کو ہر ہمیشہ (صرف) زیر جامہ میں ہی رہنا ہوتا ہے، کسٹمر کے لیے تیار۔‘
وکٹوریا کو کیسے انسانی سمگلروں سے بچایا گیا، اس کی تفصیلات نہیں دی جا سکتیں کیونکہ ان کی شناخت کو بطور گواہ تحفظ حاصل ہے۔ لیکن وکٹوریا کہتی ہیں کہ وہ کبھی اس صبح کو نہیں بھول سکتیں جب انھوں نے پہلی بار خفیہ اہلکاروں کو دیکھا اور دوڑ کر ان کی جانب گئیں۔
وہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میں نے ان کی جانب دیکھا، انھیں گلے لگایا اور رونے لگی۔‘
’انھوں نے مجھے محفوظ مقام پر لے جانے کی پیشکش کی جہاں میں بنا کسی خوف کے آزاد تھی۔‘
گینگ کی دھمکیاں
وکٹوریا کہتی ہیں کہ وہ اس گینک کی جانب سے مسلسل نگرانی کیے جانے سے بہت خوفزدہ تھیں، حتیٰ کہ انھیں سونے کے لیے بھی ان کی اجازت لینی پڑتی تھی۔
دیگر اداروں کے ساتھ مل کر کرسٹینا اور ان کی ٹیم نے وکٹوریا کو نفسیاتی سپورٹ فراہم کرنے، نوکری تلاش کرنے اور مزید تعلیم حاصل کرنے کا مشورہ دیا۔
اس سے بھی اہم یہ تھا کہ اس ٹیم نے کئی مہینوں تک وکٹوریا کے بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانے میں مدد فراہم کی۔
جو گینگ وکٹوریا کو سپین لے کر آیا تھا اس نے یہ بھی دھمکی دی کہ اگر انھوں نے کبھی بھاگنے کی کوشش کی یا حکام کو خبردار کیا تو کولمبیا میں ان کے بچوں کو نقصان پہنچایا جائے گا۔
یہ گینگ انتہائی منظم تھا اور ان کا خیال تھا کہ یہ دھمکی محض باتوں کی حد تک نہیں۔
سمگلروں نے ماضی میں ان کے بچوں کو براہ راست پیغام بھجوایا تھا اور وہ جانتے تھے کہ وہ کہاں رہتے ہیں اور کس سکول میں جاتے ہیں۔
سینٹرل آپریٹو یونٹ میں کرسٹینا اور دیگر افراد دراصل سپین کے گارڈیا سول کا ایک خصوصی ڈویژن ہیں جو سنگین منظم جرائم پر کارروائی کرتا ہے۔
اس یونٹ نے خواتین کی تنظیموں اور انسانی حقوق کے وکلا کے ساتھ مل کر سپین میں وکٹوریا کا کیس بنانے کے لیے کئی مہینے کام کیا تاکہ وہ انھیں ان کے خاندان سے دوبارہ ملا سکیں۔
یہ پولیس ٹیم متاثرین کو سہولیات فراہم کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ خاتون کو طویل مدتی مدد کی پیشکش کی جاتی ہے تاکہ وہ بچائے جانے کے بعد محفوظ ماحول میں پنپ سکیں۔
ٹیم کا کہنا ہے کہ بعض اوقات تفتیش کاروں کے دیگر یونٹ اسے چھیڑتے ہیں کہ یہ کسی خیراتی ادارے جیسا کام کر رہے ہیں۔ تاہم کرسٹینا کو اپنی ٹیم کی کوششوں پر فخر ہے۔
ٹیم کا کہنا ہے کہ ’ہم سماجی اور انسانی عمل پر یقین رکھتے جو متاثرین کی امید اور زندگیوں کو بحال کر سکے تاکہ وہ اصل معنوں میں دوبارہ بحالی کی طرف آئیں اور جوش کے ساتھ دوبارہ زندگی گزار سکیں۔‘
گواڈیا آفیسر کے بورڈ میں خواتین کا تناسب 10 فیصد سے کم ہے مگر کرسٹینا کے سکواڈ میں 60 فیصد خواتین ہیں۔
اس یونٹ کے سربراہ فیلکس ڈیون نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ترجیح خواتین کی بھرتی ہے۔
وہ یقین رکھتے ہیں کہ سیکس ٹریفکنگ کے متاثرین خاص طور پر نوجوان لڑکیاں خواتین افسران کو تفصیلات بتانے میں زیادہ آسانی محسوس کرتی ہیں۔
سیکس ٹریفکنگ کے کیسز میں اضافہ
اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم سے متعلق دفتر یو این او ڈی سی کا اندازہ ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں انسانی سمگلنگ کے 50 ہزار متاثرین کی نشاندہی کی جاتی ہے۔
انسانی سمگلنگ کے حوالے سے حالیہ رپورٹ، جو 11 دسمبر کو شائع ہوئی، میں کہا گیا ہے کہ کوڈ وبا کے بعد دنیا بھر میں ایسے متاثرین کی تعداد میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے کیونکہ بچوں کے استحصال اور جبری مشقت کے کیسز میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اس رپورٹ میں سامنے آیا ہے کہ دنیا بھر میں زیادہ تر کیسز میں خواتین اور لڑکیاں بطور متاثرین ہوتی ہیں اور یہ وہ ہیں جنھیں زیادہ تر جنسی استحصال کے لیے سمگل کیا جاتا ہے۔
سپین یورپ میں ہزاروں متاثرین کو سمگل کرنے کے لیے ایک مرکزی گزرگاہ ہے۔
وکٹوریا اور دیگر متاثرین کو ایک بند فلیٹ میں رکھا گیا جو دیگر فلیٹس کے بیچ و بیچ واقع تھا۔ انھیں شدید استحصال کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کا خیال ہے کہ مدد کی پکار، مار پیٹ اور مردوں کا مسلسل وہاں سے گزرنا یہ واضح کر سکتا تھا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔
’پڑوسیوں، ڈاکیے اور سبھی کو معلوم تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ مجھے قتل کر سکتے تھے اور کوئی ان سے کچھ نہ پوچھتا۔‘
گوارڈیا نے بی بی سی 100 ویمن کو بتایا کہ کووڈ میں لاک ڈاؤن کے دوران جنسی استحصال کے لیے انسانی سمگلنگ خفیہ طریقوں سے کی جانے لگی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ بہت سی خواتین کا اب بھی عوامی جگہوں پر استحصال ہوتا ہے، جیسے گلیوں اور بازاروں میں، تاہم کئی کیسز نجی فلیٹس میں ہوتے ہیں جہاں سمگلرز خواتین کا استحصال کرتے ہیں جبکہ پولیس کے لیے ان جگہوں کا پتا چلانا مشکل ہوتا ہے۔
یو این او ڈی سی میں انسانی سمگلنگ اور مائیگرنٹ سمگلنگ سیکشن کے سربراہ ایلس چیٹزس کا کہنا ہے کہ وسیع پیمانے پر کام کرنے والے منظم گینگز کے ملوث ہونے کا مطلب ہے کہ انسانی سمگلنگ بھی دیگر غیر قانونی سرگرمیوں جیسے کہ منشیات اور سائبر کرائم کی طرح بڑھ رہی ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ بہت زیادہ تعداد ایسے متاثرین کی ہے جن کا ابھی پتہ ہی نہیں لگایا جا سکا کیونکہ حکام کبھی کبھار سمگلرز کے خلاف سمگلنگ کے جرم کے بجائے کسی چھوٹے جرم کے حوالے سے مقدمات چلاتے ہیں۔ اس لیے متاثرین کی شناخت انسانی سمگلنگ کے متاثرین کے طور پر نہیں ہوتی۔
وکٹوریا خوش ہیں کہ پولیس نے ان کے دُکھ و درد کو سمجھا ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ ان کے کیس کے ذریعے آگاہی پھیلے اور متاثرین کو مناسب مدد مل سکے۔
وہ کہتی ہیں کہ انھیں زندہ رہنے کا ایک اور موقع ملا جس میں وہ اپنے بچوں کو گلے لگا سکیں اور خود بھی صحتیاب ہوسکیں۔
انھوں نے بی بی سی سے کہا کہ وہ ان کا ذکر وکٹوریا کے طور پر کریں جس کا ہسپانوی زبان میں مطلب ’فتح‘ ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں گلی میں جا سکتی ہوں اور میں سانس لے سکتی ہوں اور میں کہتی ہوں۔ میرے خدا آپ کا شکریہ۔ میں زندہ ہوں، میں اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتی ہیں اور یہ سب سے بہترین احساس ہے۔‘
کرسٹینا کہتی ہیں کہ وہ وکٹوریا کی مقابلہ کرنے کی سکت پر حیران ہیں۔
کرسٹینا وضاحت کرتی ہیں کہ وہ ایک مثال ہیں کہ اس طرح کی آزمائش میں آپ کیسے زندہ رہ سکتے ہیں اور کیسے قابو پا سکتے ہیں۔
’میں اکثر یہ سوچتی ہوں کہ حیرت انگیز ہے کہ آپ کے اندر اتنی طاقت ہوتی ہے، اتنی بہادری ہوتی ہے۔‘