ہیئت تحریر الشام کے لیے بین الاقوامی برادری اور شام کی آزاد خیال آبادی اور سخت گیر حلقوں کے متضاد مطالبات میں توازن کو برقرار رکھنا سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ دونوں فریق ایچ ٹی ایس کے ہر قدم کو غور سے دیکھ رہے ہیں۔
گذشتہ ہفتے شام کے نئے رہنما احمد الشرع جنھیں پہلے ابو محمد الجولانی کے نام سے جانا جاتا تھا، دمشق کا دورہ کر رہے تھے۔ ایک نوجوان خاتون ان کے قریب آئیں اور ان کے ساتھ تصویر بنانے کی درخواست کی۔ احمد الشرع نےخاتون سے نرمی سے کہا کہ وہ تصویر لینے سے پہلے اپنا سر ڈھانپ لیں۔ یہ واقعہ جلد ہی عرب سوشل میڈیا اور مرکزی میڈیا میں موضوع بحث بن گیا۔
یہ یوں تو ایک معمولی واقعہ معلوم ہوتا ہے لیکن یہ اصل میں بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس نے شام کے نئے حکمرانوں کو درپیش نازک صورتحال کو اجاگر کیا ہے۔ شام کے موجودہ حکمرانوں کو اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ کی جانب سے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ہے۔
ایک طرف متنوع اور بعض صورتوں میں نسبتاً زیادہ لبرل شامی آبادی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری ہے جس کی قبولیت ہیئت تحریر الشام کی بقا اور قانونی حیثیت کے لیے انتہائی اہم ہے۔
اس واقعے نے ہیئت تحریر شام (ایچ ٹی ایس) کے زیر اثر شام کے مستقبل کی ایک پریشان کن جھلک پیش کی جس سے یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ کیا قدامت پسند سوچ کا نتیجہ تمام خواتین کے لیے لازمی پردے کی شکل میں نکل سکتا ہے؟
دوسری طرف کچھ سخت گیر افراد کو احمد الشرع کے ایک ’بے پردہ خاتون‘ کے ساتھ تصویر بنوانے پر اعتراض ہے اور ان کااصرار ہے کہ ان کا یہ اقدام مذہبی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
یہ سخت گیر عناصر جنگجو دھڑوں پر کافی اثر رکھتے ہیں اور الشرع کے اپنے حلقے کے اندر مخالفت کو ہوا دے سکتے ہیں۔
ہیئت تحریر الشام کے لیے بین الاقوامی برادری اور شام کی آزاد خیال آبادی اور سخت گیر حلقوں کے متضاد مطالبات میں توازن کو برقرار رکھنا سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ دونوں فریق ایچ ٹی ایس کے ہر قدم کو غور سے دیکھ رہے ہیں۔
ہیئت تحریر الشام نامی گروہکے لیے اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے معاشرے کے مختلف گروہوں کی متضاد توقعات میں توازن کو برقرار رکھنا بہت اہم ہے۔
احمد الشرع نے ابھی تک اپنے پیغامات میں شام کے متنوع معاشرے کے اندر بقائے باہمی پر توجہ مرکوز کی ہے۔ انھوں نے سابق فوجیوں کو جنھیں زبردستی فوج میں بھرتی کیا گیا تھا کو عام معافی کا اعلان کیا ہے اور سابق حکومتی اہلکاروں اور ان کے حامیوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں پر پابندی عائد کی ہے۔
انھوں نے اسرائیل، امریکہ، ایران اور روس جیسے مخالفین کے بارے مفاہمانہ رویہ اپنایا ہے اور خود کو اشتعال انگیز بیانات اور دھمکیوں سے دور رکھا ہے۔
ان کے بیانات کا محور استحکام اور تعمیر نو جیسے موضوعات ہیں تاکہ ایچ ٹی ایس اور خود احمد الشرع کا نام بین الاقوامی دہشتگردوں کی فہرستوں سے نکالا جا سکے۔
سخت گیر گروہوں میں بے چینی
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ احمد الشرع کا یہ لچکدار رویہ واقعی نظریاتی تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے یا محض اپنے اقتدار کی قبولیت کے لیے سوچی سمجھی حکمت عملی ہے جس کے بعد انھوں نے سخت گیر اور قدامت پسند ایجنڈا کو نافذ کرنا ہے۔
تاہم احمد الشرع کے زیادہ ترقی پسند اقدامات پہلے ہی شام میں سخت گیر افراد میں بے چینی پیدا کر رہے ہیں، جو ایک سخت اور منفرد سنی شناخت پر مبنی اسلامی حکومت کے حوالے سے اصرار کرتے ہیں۔
اگرچہ سنی عرب شام میں غالب نسلی اور مذہبی گروہ ہیں، لیکن یہ ملک نمایاں طور پر متنوع ہے جس میں مختلف اقلیتی گروہ شامل ہیں، جن میں علوی، کرد، عیسائی، دروز، ترکمان، اور اسماعیلی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر چھوٹے گروہ بھی موجود ہیں۔
اگر ہیئت تحریر الشام کی قیادت واقعی اپنی کوششوں میں مخلص بھی ہے تو شام میں موجود سخت گیر مسلمان اور جہادی دھڑوں کے لیے کسی بھی ایسے نظام کو جو سخت اسلامی اصولوں پر قائم نہ ہو اسے قبول کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ اگر ایچ ٹی ایس سخت گیر اسلامی نظام کے راستے سے ہٹتی ہے تو یہ دھڑے ممکنہ طور پر مسلح مزاحمت پر اتر آئیں گے تاکہ اپنے نظریے کو نافذ کر سکیں۔
تاہم یہ ایچ ٹی ایس کے لیے کوئی نیا چیلنج نہیں ہے۔
دولت اسلامیہ سے القاعدہ اور ایچ ٹی ایس تک کا سفر
ایک دہائی سے یہ گروپ، جو پہلے النصرہ فرنٹ کے نام سے جانا جاتا تھا اور جس کی جڑیں بین الاقوامی جہادی تحریکوں میں ہیں مسلسل ارتقا پذیر رہا ہے۔
ایچ ٹی ایس نے 2011 اور 2012 کے دوران انتہائی سخت گیر داعشکی ایک خفیہ شاخ کے طور پر آغاز کیا۔ پھر اگلے سال القاعدہ سے منسلک ہوا اور 2016 تک ایک آزاد گروہ بن گیا۔
اس نے 2017 میں شمال مغربی شام کے ادلب صوبے پر اپنا کنٹرول مستحکم کیا اوراس علاقے میں ایک سویلین ’حکومت‘ چلائی، جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ اس کے کوئی دیرپا جہادی تعلقات یا عزائم نہیں ہیں۔
یہ ارتقا احمد الشرع کے سٹریٹجک وژن کی عکاسی کرتا ہے اور ممکنہ طور پر موقع پرستی اور ان کی عملی حکمتِ عملی کے بارے میں بتاتا ہے جس کا مقصد گروپ کی قبولیت اور طویل المدتی بقا کو یقینی بنانا ہے۔
ایچ ٹی ایس کی یہ حکمت عملی کہ وہ بیرونی دنیا کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے پہلے ہی مثبت نتائج دکھا چکی ہے۔
جب اس کے سابق جہادی شراکت دار، القاعدہ اور داعش (آئی ایس) شام میں امریکی اتحاد کے شدید حملوں کا نشانہ بنے جن کے نتیجے میں ان کے رہنماؤں کی اکثر ہلاک کر دی گئی تو وہاں احمد الشرع ادلب میں نسبتاً آزادی کے ساتھ کام کرتے رہے۔
اگرچہ اس وقت ان کے سر پر امریکہ کی جانب سے 10 ملین ڈالر کا انعام مقرر کیا گیا تھا جسے آج ہٹا دیا گیا، لیکن وہ خاصی آزادی سے ایک ریاستی رہنما کی طرح اکثرعوامی مقامات پر نظر آتے، تقریبات میں شرکت کرتے اور عوام کے ساتھ روابط قائم کرتے رہے۔
تاہم احمد الشرع کے جہادی ناقدین ان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ایک چالاک سیاستدان ہیں جو اپنے کیریئر کو آگے بڑھانےاور ایچ ایس ٹی کے لیے سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے اہم نظریاتی اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کو تیار ہیں اور یہ ملک میں موجود دیگر جنگجو گروہوں کی قیمت پر ہو رہا ہے۔
باغیوں نے کیسے عوام کے دل جیتے؟
ہیئت تحریر الشام نے ادلب میں اپنی اتھارٹی کو مستحکم کرنے کے لیے دہری حکمت عملی اپنائی۔ مقامی آبادیوں کے دل و دماغ جیتنے کے لیے کسی حد تک استحکام فراہم کیا اور اپنے حریفوں حتیٰ کہ سابق اتحادیوں کو کچلنے یا اپنے ساتھ ملانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔
گروپ نے جہادی نظریات، مذہب کے لیے جنگ، اور شام میں اسلامی حکمرانی (شریعت) کے قیام کی مخصوص بیان بازی سے خود کو دور کر لیا، جو ایک وسیع عالمی منصوبے کا حصہ تھا۔
اس کے بجائے انھوں نے ایک زیادہ ’انقلابی‘ اور قوم پرست بیانیہ اپنایا جس میں شام کے صدر بشار الاسد کو گرانے اور شام کو ’آزاد‘ کرنے کے واحد مقصد پر توجہ مرکوز کی گئی۔
ایچ ٹی ایس نے ادلب میں میں حکومت کو چلانے کے لیے سرئین سالویشن گورنمنٹ (ایس ایس جی) کےنام سے ایک حکومت قائم کی جس کا مقصد حکومت چلانے کی صلاحیتوں کو ظاہر کرنا اور اپنی قانونی حیثیت کو مستحکم کرنا تھا۔
یہ اقدام شاید اس خوف کو کم کرنے کے لیے بھی کیا گیا تھا کہ ’شدت پسند نظریات کا حامل گروہ‘ ایک صوبہ چلا رہا ہے اور یہ داعش کے شام اور عراق پر حکمرانی کے ظالمانہ تصور سے خود کو دور کرنے کی کوشش تھی۔
ایس ایس جی ایک ’مِنی ریاست‘ کی طرح کام کرتی تھی۔ جس میں ایک وزیراعظم، وزارتیں اور مقامی محکمے شامل تھے، جو تعلیم، صحت اور تعمیر نو جیسے اہم شعبوں کا انتظام سنبھالتے تھے جبکہ ایک مذہبی کونسل شریعت کے حوالے سے رہنمائی کیا کرتی تھی۔
ایس ایس جی نے پیشہ ورانہ انداز میں کام کرنے والی فوجی اور پولیس اکیڈمیاں قائم کیں، جن کی تربیتی اسناد کی تقریب اور فوجی پریڈز اکثر دکھائی جاتی تھیں جن میں عام طور پر الشرع شرکت کرتے تھے۔
ایس ایس جی نے تعمیر نو اور خدمات کی فراہمی میں اپنی کامیابیوں کو نمایاں طور پر پیش کیا اور اکثر ان کوششوں کا موازنہ ان علاقوں کی بدتر حالت اور بدعنوانی سے کیا گیا جو شامی حکومت یا حریف باغی گروہوں کے کنٹرول میں تھے۔ یہاں تک کہ الشرع نے دو بار ادلب کے سالانہ کتب میلے میں شرکت کی اور تقاریر بھی کیں۔
تاہم ادلب میں ایچ ٹی ایس کو بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی حکمرانی آسان نہیں تھی۔
27 نومبر کو ایچ ٹی ایس کی قیادت میں ہونے والے باغی حملے سے پہلے گروپ کو مظاہروں کا سامنا تھا جو خاص طور پر الشرع کی قیادت کو ہدف بناتے تھے۔
مظاہرین نے ایچ ٹی ایس پر اختلاف رائے کو دبانے کے الزامات عائد کیے تھے جن میں مخالفین اور ناقدین کی جبری گمشدگیاں اور قید بھی شامل تھی۔
گروہ کو مبینہ طور پر غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ ساز باز کرنے پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حوالے سے یہ الزام عائد کیا جاتا رہے کہ گروہ شام میں ’جہاد‘ کو کمزور کر سکتا ہے۔
ایچ ٹی ایس 2023 میں ایک بڑے سکینڈل کی زد میں آیا جس میں اس کی اعلیٰ قیادت کے اندر جاسوسوں کا انکشاف ہوا اور سخت گیر عناصر نے اس پر الزام لگایا کہ اس نےغیر ملکی حمایتیوں کو خوش کرنے کے لیے شامی افواج کے خلاف بامعنی جنگ سے جان بوجھ کر گریز کیا ہے۔
سخت گیر بمقابلہ لبرلز: مذہبی پابندیاں
اگرچہ کچھ مقامی افراد نے ادلب میں مذہبی پابندیوں کے بارے میں شکایات کی ہیں جیسا کہ عرب میڈیا اور این جی اوز نے رپورٹ کیا ہے، لیکن یہ شکایات بڑے پیمانے پر نہیں پھیلیں۔
اس کی وجہ شاید ایچ ٹی ایس کی نسبتاً لچکدار رویہ اور یہ حقیقت ہے کہ صوبے کے زیادہ تر رہائشی قدامت پسند سنی مسلمان ہیں جو عمومی طور پر موجودہ صورتحال کو قبول کرتے ہیں۔
درحقیقت سخت گیر عناصر نے ایچ ٹی ایس پر اکثر اس بات پر تنقید کی ہے کہ وہ ’نرم‘ ہے اور ادلب میں سخت شرعیقوانین نافذ کرنے میں ناکام رہا ہے۔
احمد الشرع کا موقفہے کہ سخت قوانین جیسے اخلاقی پولیس کے نفاذ کا خیال پرانا ہو چکا ہے اور یہ اکثر نقصان کا باعث بنتا ہے۔ اپریل 2023 میں انھوں نے کہا کہ ’ہم ایسا منافقانہ معاشرہ نہیں بنانا چاہتے جو ہمارے سامنے نماز پڑھے اور ہماری غیر موجودگی میں چھوڑ دے۔‘
انھوں نے زور دیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ اسلامی تعلیمات کو عقیدے کی بنیاد پر اپنائیں، نہ کہ ڈنڈے کے زور پر۔
ان تبصروں کے باوجود، گروپ نے اکثر سخت اقدامات کا سہارا لیا، جس کا مقصد واضح طور پر سخت گیر عناصر کو خوش کرنا تھا۔ یہ رجحان اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ ایچ ٹی ایس مستقبل میں اس طرح کے دباؤ کا جواب کیسے دے سکتا ہے۔
مثال کے طور پر اگرچہ حسبہ (اخلاقی پولیس) ڈھانچوں کو تحلیل کر دیا گیا تھا جو مختلف ناموں سے کام کر رہے تھےاور احمد الشرع کی واضح مخالفت کے باوجود، ایس ایس جی نے 2024 کے اوائل میں اپنی وزارت داخلہ کے تحت ایک ’پبلک اخلاقی پولیس‘ قائم کی۔
یہ اخلاقی فورسز دکانوں کی نگرانی کرتی تھی، خواتین کو مذہبی لباس کے تقاضے پورے کرنے پر مجبور کرتی تھی اورعوامی مقامات پر مردوں اور عورتوں کے میل جول کو محدود کرتی تھی۔
چند ماہ قبل ایس ایس جی کی وزارت تعلیم نے ایک فرمان جاری کیا تھا جس میں تمام طالبات اور خواتین سٹاف کو ’ڈھیلے اسلامی لباس‘ پہننے کا پابند کیا گیا تھا جو شریعت کے مطابق ہو۔
اس میں بالوں کا ڈھانپنا اور ان فیشن اور رجحانات سے اجتناب شامل تھا جنھیں ’ہماری مذہبی تعلیمات کے خلاف‘ قرار دیا گیا۔ اس فرمان نے پرائمری اور سیکنڈری سکولوں میں کو ایجوکیشن پر بھی پابندی لگا دی۔
دیگر باغی گروہوں کے ساتھ تنازعات
شام کی حزب اختلاف کے گروہ چاہے وہ باغی ہوں یا جہادی، انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آئے ہیں جو اکثر اندرونی جھگڑوں، علاقے، وسائل، اقتدار اور نظریات پر ایک دوسرے سے لڑتے رہتے تھے۔
کئی سالوں تک یہ مسلسل اختلاف اور دیگر عوامل کے ساتھ، بشار الاسد کے خلاف فتح حاصل کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتا رہا۔
اسد کے زوال کا باعث بننے والا نیا باغی اتحاد بھی کمزور ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حریف دھڑوں کے اندرونی چیلنجز اب بھی موجود ہیں۔
ایچ ٹی ایسکے شام میں موجود دیگر بڑے باغی گروہ، ترکی کی حمایت یافتہ سریئن نیشنل آرمی (ایس این اے)کے ساتھ طویل عرصے سے کشیدہ تعلقات رہے ہیں۔ ایس این اےکی توجہ انقرہ کی ترجیحات کے مطابق شمالی شام کے کردوں کے زیرِ قبضہ علاقوں پر قبضہ کرنا ہے تاکہ ترکی اپنی سرحدوں پر کردوں کے خطرے کو ختم کر سکے۔
اس بات کا تعین ابھی باقی ہے کہ کیا دونوں گروہ کرد فورسز سے چھینے گئے اسٹریٹجک مقامات کی تقسیم پر متفق ہو سکیں گے ۔ ایچ ٹی ایس اپنی قیادت میںپورے شام میں کو متحد کرنے کی بات کرتا ہے۔
داعش نے، جو اپنے آپریٹوز اور سلیپر سیلز کے ذریعے شام میں اب بھی سرگرم ہے، ملک میں اپنا جہاد جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے اور ایچ ٹی ایس کی زیرِ قیادت باغی اتھارٹی کو ’مرتد‘ قرار دیا ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے کافر قوتوں نے اقتدار میں لایا ہے۔
شمال مشرق میں کردوں کی زیرِ قیادت شامی ڈیموکریٹک فورسز ایس ڈی ایف کا کنٹرول کمزور ہونے کے ساتھ، داعش کی نظریں حسکہ کی جیلوں اور کیمپوں پر مرکوز ہونے کا امکان ہے جہاں داعش سے منسلک جنگجو اور ان کے اہل خانہ موجود ہیں۔ ان جیلوں سے بڑے پیمانے پر رہائی یا فرار داعش کی شام کو غیر مستحکم کرنے کی صلاحیت کو نمایاں طور پر بڑھا سکتا ہے۔
دو ہزار گیارہ میں شامی خانہ جنگی کے آغاز اور اسد حکومت کےوحشیانہ کریک ڈاؤن کے بعد سے شامنے غیر ملکی جنگجوؤں، مذہبی رہنماؤں اور بین الاقوامی جہادی گروہوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہےجس میں خاص طور پر ترکی کے راستے غیر محفوظ سرحدوں نے سہولت فراہم کی ہے۔
ادلب پر اپنے کنٹرول کو مضبوط کرنے کے لیے اور ممکنہ طور پر شمالی شام میں جہادی خطرے کو روکنے کے لیے غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ معاہدوں کے بعدایچ ٹی ایس نے کچھ مقامی اور غیر ملکی دھڑوں کو کچل دیا اور دوسروں کو اپنے ساتھ ملا لیا، انھیں اپنے ڈھانچے میں ضم کر دیا۔ ان کے غیر ملکی تشخص کو چھپانے کے لیے ان کے یونٹوں کا نام تبدیل کر دیا۔ ان میں وسطی ایشیا، قفقاز (چیچن) اور چین کی ویغور اقلیت کے چھوٹے دھڑے شامل ہیں۔
انصار الاسلام اور انصار التوحید جیسے آزاد جہادی گروپوں سمیت ان میں سے بہت سے چھوٹے دھڑوں نے بشار الاسد کی حکومت کو ختم کرنے کےکارروائی میں فعال طور پر حصہ لیا جو نئے شام کے مستقبل کی تشکیل میں ان کے ممکنہ مفاد کو اجاگر کرتا ہے۔
اسد کے بعد کےالقاعدہ جیسے گروہوں کے ساتھ ساتھمعتدل اسلامی شخصیات اور علماء نے ایچ ٹی ایسکو شام میں سنی اسلام نظام کے نفاد کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
طاقت کا حصول
6 دسمبر کو جب ایک سی این این کے نمائندے نے احمد الشرع سےسوال کیا کہ کیا ایچ ٹی ایس اسلامی نظام نافذ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، تو الشرعنے ہاں یا نہ میں جواب دینے کے بجائےایکمبہم جواب دیا۔
انہوں نے کہا: ’جو لوگ اسلامی حکمرانی سے خوفزدہ ہیں، انہوں نے یا تو اس کے غلط نفاذ دیکھے ہیں یا اسے صحیح طور پر نہیں سمجھتے ہیں۔‘
اس احتیاط سے دئے گئے جواب سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایچ ایس ٹی اسلامی حکمرانی نافذ کرنے کا منصوبہ رکھتی ہےلیکن شاید ایک زیادہ لچکدار اور باریک بینی سے۔
لیکن اسد حکومت کو گرانے کے بعد سےایک مشترکہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ابتدائی جوش و خروش اور متحدہ کوشش کے بعد نظریاتی کشیدگی دوبارہ ابھرنا شروع ہو گئی ہے۔
9 دسمبر کو ایچ ایس ٹی نے سابق فوجیوں کو عام معافی دینے کا فرمان جاری کیا لیکن شام میں سخت گیر حلقوں نے اس اقدام پر انتہائی ناراضی ظاہرکیاور اسے خلاف شرع قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔حتیٰ کہ نا فرمانی کی دعوت دی اور سابق حکومتی وفاداروں کے خلاف انتقامی حملوں کا مطالبہ کیا، جس سے براہ راست ایچ ایس ٹی کے حکم کی خلاف ورزی ہوئی
ایچ ٹی ایسنے ناقدین کو راضی کرنے کیکوشش میں ایک بیان جاری کیاجس میں وضاحت کی گئی تھی کہ وہ سابق سرکاری اہلکاروں اور جنگی جرائم میں ملوث وفاداروں کا پیچھا کرے گا۔ اس کے ساتھ ہی ایچ ٹی ایس نے اپنی اتھارٹی کو مضبوط کرنے کی کوشش کی اوریہ عہد کیا کہ جو کوئی بھی انتقامی کارروائیوں میں ملوث ہو کر اس کے حکم کی نافرمانی کرے گا اسے سزا دی جائے گی۔
ایک اور تنازعہ 16 دسمبر کو اس وقت پیدا ہوا جب احمد الشرع نے ملک میں عسکریت پسند گروہوں اور ملیشیا کو ختم کرنے اور غیر مسلح کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا اور صرف ریاست اور فوج کے ہاتھوں میں ہتھیار جمع کرنے کا اعلان کیا۔
ایک بار پھر سخت گیروں نے احتجاج کیا اور مختلف دھڑوں پر زور دیا کہ وہ اپنے ہتھیاراپنے پاس رکھیں۔ انہوں نے کہاکہ اس اقدام سے ایچ ٹی ایس کے ہاتھ مضبوط ہو جائیں گے اور کسی دوسرے گروہ کو اس کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کے لیے مسلح نہیں چھوڑا جائے گا اور ظلم و ستم کی راہ ہموار ہوگی۔
اسد کے زوال کے بعد شام میں بار بار اسرائیلی فضائی حملوں پر ایچ ٹی ایس کے خاموش ردعمل پر مزید عدم اطمینان پیدا ہوا۔ کئی دنوں کی خاموشی کے بعد، 14 دسمبر کو احمد الشرع نے حملوں پر تنقید کی لیکن کہا کہ ان کے گروپ کا کسی نئے تنازعے میں شامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ انہوں نے شام کی تعمیر نو پر اپنی موجودہ توجہ پر زور دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ شام کو اسرائیل کے خلاف حملوں کے لیے لانچ پیڈ کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
بعض افراد نے اسرائیل کے حوالے سے احمد الشرع کے موقف کو کمزور اور اسلامی اصولوں کے منافی قرار دیا۔ القاعدہ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ایچ ٹی ایس غزہ میں فلسطینیوں کے دفاع کے لیے اپنی ’ذمہ داری‘ پوری کرنے اور اسرائیل کے خلاف جنگ کو ترجیح دے۔
یہ کشیدگیاں ظاہر کرتی ہیں کہ ایچ ٹی ایس کی صفوں اور بیرونی دھڑوں میں موجود سخت گیر دھڑے اگر انھیں ایک نئے مذہبی شام کے لیے اپنے وژن سے دور ہٹتے ہوئے دیکھیں گے تو اس گروپ کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں۔
ان میں سے بہت سے افراد اور دھڑے ملک میں اپنی توانائیاں خرچ کر چکے ہیں اور وہآسانی سے اپنے عزائم سے دستبردار نہیں ہوں گے اور وہ شام کو، طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان کی طرح ایک مضبوط سنی اسلامی ریاست کے طور پر دیکھتے ہیں، جو علاقائی اثر و رسوخ استعمال کر سکے جبکہ مظلوم مسلمانوں اور جہادی مفروروں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ کا کام کرے۔
لبرلز اور سخت گیر افراد دونوں کے دباؤ میں احمد الشرع اور ایچ ٹی ایس کسی بھی فریق کو زیادہ ناراض نہ کرنے کی کوشش میں ایک مشکل راستے پر چل رہی ہے۔