جمیل حسن کا شمار شام کے سابق صدر بشارالاسد کی حکومت کے خطرناک ترین افسران میں ہوتا تھا جو اب عام شہریوں کو زد و کوب اور قتل کرنے کے مقدمات میں مطلوب ہیں لیکن تقریباً دو ہفتے قبل وہ اپنے اپارٹمنٹ کی سیڑھیاں اُترتے وقت کانپ رہے تھے۔ شام میں آہنی ہاتھوں سے حکمرانی کرنے والے اسد کے ساتھیوں کے محل نما گھروں میں بی بی سی نے کیا دیکھا؟
جمیل حسن کا شمار شام کے سابق صدر بشارالاسد کی حکومت کے خطرناک ترین افسران میں ہوتا تھا جو اب عام شہریوں کو زد و کوب اور قتل کرنے کے مقدمات میں مطلوب ہیں لیکن تقریباً دو ہفتے قبل وہ اپنے اپارٹمنٹ کی سیڑھیاں اُترتے وقت کانپ رہے تھے۔
اپارٹمنٹ کے باہر وہ ایک چھوٹی سی کار میں اپنے خاندان کے ساتھ سوار ہوئے اور کچھ سوٹ کیسز اُٹھائے سکیورٹی گارڈز کے ایک چھوٹے سے قافلے کے ہمراہ وہاں سے روانہ ہو گئے۔
یہ سب مناظر ان کی ایک پڑوسن اور ان کا بیٹا دیکھ رہے تھے۔ جمیل حسن کی پڑوسن کہتی ہیں کہ 'جس لمحے میں نے انھیں فرار ہوتے ہوئے دیکھا میں سمجھ گئی تھی کہ اسد کی حکومت ختم ہو گئی ہے۔'
جب ہم کچھ دنوں بعد جمیل حسن کے اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے تو ہمیں ہر طرف ایسی نشانیاں نظر آئیں جنھیں دیکھ کر لگتا تھا کہ یہاں کے مکین انتہائی جلدبازی میں روانہ ہوئے ہیں۔
ریفریجریٹر میں ایک پلیٹ میں آدھا کھایا ہوا ایک کیک اور چھری رکھی تھی۔ بستروں پر کپڑے اور جوتے کے خالی ڈبے بکھرے ہوئے تھے، ڈائننگ روم میں گُلدان میں سجے پھول مُرجھا چکے تھے اور سِنک کے پاس کپ اور پلیٹیں بھی رکھی ہوئی تھیں۔
اس اپارٹمنٹ کے ایک سٹڈی روم کی دیوار پر جمیل حسن اور بشار الاسد کی ایک تصویر آویزاں تھی اور اس پر لکھا تھا کہ: 'ہمارے آسمان ہمارے لیے ہیں اور یہ دوسروں کے لیے ممنوع ہیں۔'
حسن کو ان کے علاقے میں کچھ عام شہری 'قصاب' کے نام سے بھی پکارتے ہیں اور ان کا شمار سابق صدر بشارالاسد کی حکومت کے سفاک ترین افسران میں ہوتا ہے۔
جمیل حسن نہ صرف ایئر فورس انٹیلیجنس کے سربراہ تھے بلکہ وہ متعدد قید خانوں کے نگراں بھی تھے، جن میں بدنام زمانہ مزہ جیل بھی شامل تھی جہاں قیدیوں پر تشدد کیا جاتا تھا۔
جمیل حسن کا شمار بشار الاسد کی حکومت کے ان اراکین میں ہوتا ہے جن پر دنیا بھر میں پابندیاں عائد کی گئی تھیں اور اب وہ دمشق کے پوش علاقوں میں اپنے گھروں کو چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
شام میں آہنی ہاتھوں سے حکمرانی کرنے والے ان افراد کو تلاش کرنا شاید اب مشکل ہو۔ کچھ لوگوں کو خدشات ہیں کہ یہ افراد اب بیرونِ ملک سیاسی معاہدے کریں گے اور انصاف سے فرار حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے۔
بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مہم کی قیادت کرنے والے گروہ ہیئت تحریر شام نے اعادہ کیا ہے کہ وہ شام کے اندر ان افراد کی تلاش جاری رکھے گا۔ اب جمیل حسن کے گھر میں باغی رہائش پزیر ہیں اور اس کے مرکزی دروازے پر لکھا ہوا ہے کہ گھر کے اندر داخل نہ ہوں۔
جب ہم نے ان سے استفسار کیا کہ جمیل حسن کہاں گئے ہیں تو ایک باغی نے جواب دیا: 'مجھے نہیں معلوم، وہ جہنم میں گئے ہیں۔'
’ان کے گارڈز نے میرے کتے کو مارنے کی دھمکی دی‘
وسطی دمشق میں واقع اس سڑک پر موجود عمارتوں میں زیادہ تر اپارٹمنٹس کے دروازے اب بند ہیں۔ ان دروازوں پر دستک بھی دی جائے تو دوسری جانب سے کوئی جواب نہیں آتا۔
لیکن جن لوگوں نے ہم سے بات کی وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات میں مطلوب جمیل حسن کے گھر کے اطراف رہائش پزیر ہونا کتنا خطرناک تھا۔
ان کی پڑوس میں رہائش پزیر خاتون نے ہمیں بتایا کہ 'ہم بات کرنے میں سے بھی گھبراتے تھے۔ ان لوگوں کے پڑوس میں رہنا ایک خوفناک احساس تھا۔'
جمیل حسن امریکہ میں بھی مطلوب ہیں اور ان پر 'سویلین قیدیوں بشمول امریکی شہریوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک' کرنے کے بھی الزامات ہیں۔
اس سال فرانس میں انھیں دو شامی نژاد فرانسیسی شہریوں کو قید کرنے، لاپتہ کرنے اور ان پر تشدد کرنے کے الزامات میں غائبانہ طور پر سزا بھی سنائی گئی تھی۔
صرف یہی نہیں جمیل حسن جرمنی میں بھی مطلوب ہیں، جبکہ انٹرپول کے ریڈ نوٹس پر بھی ان کی تصویر چسپاں ہے اور وہاں لکھا ہے کہ وہ 'جنگی جرائم کی سازش کے مرتکب' ہونے کے الزام میں مطلوب ہیں۔
احتجاجی مظاہرین پر ظلم کرنے کے الزامات میں ان پر سفری پابندیاں عائد کی گئی تھیں اور ان کے اثاثوں کو بھی منجمند کردیا گیا تھا۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ اپریل 2011 میں شامی ایئرفورس کے انٹیلیجنس اہلکاروں نے دمشق میں احتجاجی مظاہرین پر آنسو گیس اور گولیاں برسائی تھیں، جس کے نتیجے میں 43 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اہلِ علاقہ کا کہنا ہے کہ جمیل حسن ایک ایسی شخصیت تھے جن تک رسائی ممکن نہیں تھی اور وہ ہر وقت سکیورٹی گارڈز کے حصار میں رہتے تھے۔
جمیل حسن کے اپارٹمنٹ کی عمارت کے باہر ایک چیک پوسٹ بھی قائم کیا گیا تھا جہاں ہر وقت فوجی اہلکار تعینات رہتے تھے۔پڑوسیوں کے مطابق بشار الاسد کی حکومت ختم ہونے سے ایک رات قبل ان اہلکاروں نے اپنے یونیفارم اُتارے اور اپنے ہتھیار پھینک کر چلے گئے۔
27 سالہ فلم میکر امر الباقری بھی جمیل حسن کے گھر کے قریب ہی رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'میں نے پہلی مرتبہ اس چیک پوسٹ میں لائٹ بند دیکھی تھی اور وہاں سے کوئی آواز بھی نہیں آ رہی تھی۔'
امر کا کہنا ہے کہ مقامی افراد 'جانتے تھے کہ جمیل حسن نے دمشق کے اندر اور دمشق کے باہر لوگوں کے ساتھ کیا کیا ہے تو ہمیں معلوم تھا کہ ہم انھیں کچھ کہہ نہیں سکتے۔ ہم صرف گُڈ مارننگ سر کہتے تھے اور وہ کوئی جواب نہیں دیتے تھے۔'
امر کہتے ہیں کہ ان کے خاندان کو اپنے پالتو کتّے کو الوداع کہنا پڑا تھا کیونکہ جمیل حسن کے گارڈز نے انھیں کہا تھا کہ اگر کتّے نے بھونکنا بند نہیں کیا تو اُسے گولی مار دی جائے گی۔
امر مزید کہتے ہیں کہ جب ان کے خاندان والوں نے درخواست کی کہ چیک پوسٹ کہیں اور منقتل کر لی جائے تو انھیں جواب مِلا کہ امر کا خاندان اپنا گھر کہیں اور منتقل کرلے۔
اس علاقے میں سکیورٹی گارڈ اکثر لوگوں کو روک لیتے تھے اور مہمانوں کے بیگ تک چیک کیے جاتے تھے۔
جمیل حسن کے پڑوس میں رہائش پزیر ایک خاتون کہتی ہیں کہ 'اگر یہاں کوئی پلمبر بھی کسی چیز کی مرمت کرنے آتا تھا تو سکیورٹی گارڈز پہلے چیک کرتے تھے کوئی چیز خراب بھی ہے یا نہیں۔'
پڑوسیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جمیل حسن کے گھر میں بجلی کا 'گولڈن' کنیکشن تھا اور اسی سبب ان کے گھر کی لائٹس ہمیشہ جلتی رہتی تھیں جبکہ پورا علاقہ اندھیرے میں ڈوبا رہتا تھا۔
جمیل حسن کے گھر میں کام کرنے والے الیکٹریشن کا کہنا ہے کہ وہ جمیل حسن کو 'ایک فاصلے سے ہی سہی' مگر برسوں سے جانتے تھے۔
'جمیل حسن کی شخصیت ایک سخت فوجی جیسی تھی۔ وہ ایک قصاب تھے، وہ بے رحم تھے۔'
اس الیکٹریشن نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ بھی جیل جا چکے ہیں اور وہاں ان پر تشدد بھی ہوا تھا۔
ایک مقامی دُکاندار محمد نورا کہتے ہیں کہ انھیں کبھی جمیل حسن پسند نہیں تھے لیکن پھر بھی ظاہری طور پر انھیں سابق شامی افسر کی حمایت کرنی پڑتی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ 'اب ہم خوش ہیں۔ کسی کو یقین نہیں تھا کہ کبھی ایسا بھی ہوگا۔'
صوفے پر بندوقیں اور سوئمنگ پول
شام کی جنرل سکیورٹی ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ حسام لوکا بھی جمیل حسن والی عمارت میں ہی ایک اپارٹمنٹ میں رہتے تھے لیکن وہ مقامی افراد میں زیادہ مشہور نہیں تھے۔
حسام کو ان کے 'سفاک طرزِ گفتگو' کی وجہ سے 'مکڑی' کا لقب دیا گیا تھا اور ان پر یوریی یونین، امریکہ اور برطانیہ نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
برطانیہ کی طرف سے جاری پابندیوں کی فہرست میں لکھا ہے کہ حسام 'اپنی تحویل میں مخالفین پر تشدد کے ذمہ دار' ہیں، جبکہ امریکی محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ حسام نے حمص میں تعیناتی کے دوران 'اطلاعات کے مطابق متعدد قتلِ عام میں' حصہ لیا تھا۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ حسام کا شمار ان چند افسران میں ہوتا ہے جن کے پاس لاپتا امریکی صحافی جسٹن ٹائس کے حوالے سے معلومات ہوں۔
بشار الاسد کی حکومت گِرنے کے بعد پیر کو باغی جنگجو حسام کے گھر کا فرینچر کھول کر سٹور میں رکھ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ یہاں پہنچے تو اس سے قبل ہی چور اس گھر سے تمام قیمتی سامان لے جا چکے تھے۔
اس گھر میں اب بھی حسام اور اسد کی تصاویر، سکیورٹی اور انٹیلی جنس تقریبات سے متعلق کچھ دستاویزات، میڈلز اور روسی خفیہ اداروں کی کچھ اسناد موجود تھیں۔
ایک سند پر حسام کے نام کے ساتھ لکھا تھا کہ 'یہ ایوارڈ مخابرات (انٹیلیجنس سروس) کے جنوبی صوبوں سے تعلق رکھنے والے کوارڈینیٹر کو دیا جا رہا ہے۔'
اس پر مزید لکھا تھا کہ 'آپ نے پیشہ وارانہ طریقے اور پوری کوشش کے ساتھ شامی عوام کی بھلائی کے لیے اپنی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔'
جب باغی حسام کے گھر کو خالی کر رہے تھے تو وہاں ایک پڑوسی بھی آ پہنچے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ حسام کو جانتی تھیں تو انھوں نے جواب دیا کہ 'ہم اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ اس عمارت میں کوئی بھی ایک دوسرے سے بات نہیں کرتا۔'
دیگر پوش علاقوں میں بھی متعدد گھر خالی پڑے ہیں۔ یہاں موجود ریفریجریٹر کھانے کی اشیا سے بھرے ہوئے ہیں، الماریوں میں کپڑے موجود ہیں اور کچھ جگہوں پر تو سفری دستاویزات بھی موجود ہیں۔
ایک ایسے ہی پُرآسائش اپارٹمنٹ کے ماربل سے بنے فرش پر کچھ لوگ کمبل اوڑھے سو رہے ہیں اور جدید کچن میں لگے چولہے پر کھانا بنا رہے ہیں۔ یہاں صوفوں اور کرسیوں پر بندوقیں بھی موجود ہیں۔
کمرے میں بکھری چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک باغی جنگجو نے کہا کہ 'ہمیں اس سب کی ضرورت نہیں ہے۔'
گراؤنڈ فلور پر واقع ایک اور اپارٹمنٹ میں ایک بچہ پردے کے پیچھے سے جھانک رہا ہے اور وہاں باہر ایک سوئمنگ پول بھی ہے۔ ایک بڑے سے خاندان کا کہنا ہے کہ اب وہ اس اپارٹمنٹ میں رہائش پزیر ہیں۔
اس علاقے میں سب سے بڑا اور جدید گھر ملک کے سب سے بڑے بزنس مین خدر طاہر بن علی کا ہے جنھیں ابو علی خدر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
ان پر بھی امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں کیونکہ وہ شامی حکومت کے حامی تھے اور اس سے انھیں فائدے بھی حاصل ہوئے۔
ان کے گھر میں ایک لفٹ، جِم، سوئمنگ پول، ہاٹ ٹب اور ایک انڈسٹریل کچن بھی ہے۔
اس گھر کے بیڈروم میں دو سنہرے رنگ کے سیف بھی ہیں جن میں درجنوں گھڑیوں کی جگہ ہے اور یہاں ایک انتہائی مہنگی گھڑی کا وارنٹی کارڈ بھی موجود ہے۔ اس جگہ پر زیور اور بندوق کے خالی ڈبے بھی موجود ہیں۔
بچوں کے بیڈروم میں کھلونے موجود ہیں، فرش پر لوئی ویٹون کا ایک بیگ پڑا ہے اور الماریوں میں سکول کا ہوم ورک اور رپورٹ کارڈر بھی موجود ہیں۔
یہاں الماری پر ایک قرآن بھی رکھا ہے جس پر لکھا ہے کہ 'یہ صدر بشار الاسد کی جانب سے دیا گیا تحفہ ہے۔'
ابو علی خدر کے گھر سے تھوڑی ہی دور علی مملوک کی رہائش گاہ ہے جو کہ بشار الاسد کے قریبی ساتھی اور ان کی حکومت کے بدنام زمانہ رکن تھے۔
اطلاعات کے مطابق ان کی رسائی انتہائی حساس معلومات تک تھی اور اسی سبب انھیں 'بلیک باکس' کا لقب دیا گیا تھا۔
انھیں بھی جمیل حسن کے ساتھ فرانسیسی عدالت نے غائبانہ طور پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں سزا سُنائی تھی۔
علی مملوک سنہ لبنان میں تریپولی میں ہونے والے دو بم دھماکوں کے حوالے سے بھی مطلوب ہیں۔ ان دھماکوں میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ علی مملوک کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جن کے پاس لاپتا امریکی صحافی سے متعلق معلومات ہوسکتی ہیں۔
ان کے گھر کے باہر تالہ لگا ہوا ہے اور باغی جنگجو بھی وہاں ہمیں رسائی دینے سے ہچکچا رہے تھے۔
اس گھر کے باہر گارڈز کا ایک کمرہ تھا جہاں اب بھی آنے جانے والوں کی فہرست موجود ہے۔ وہاں کوئی چاکلیٹ پہچانے آتا تھا تو کوئی پانی اور سبزیاں۔
ایک پڑوسی کا کہنا ہے کہ 'جب بھی علی مملوک علاقے میں داخل ہوتے تھے یا باہر جاتے تھے تو ان کے گارڈز پوری سڑک کو بند کر دیا کرتے تھے۔'
ایک اور پڑوسی کہتے ہیں کہ جس رات بشار الاسد کے فرار کی خبر پھیلی تو 'مجھے یہاں اجنبی سے ماحول کا احساس ہوا۔'
'اس وقت علی مملوک کی سکیورٹی موجود تھی لیکن اتوار کو میں نے انھیں بہت ساری گاڑیوں میں جاتے ہوئے دیکھا، لیکن ان میں علی مملوک شامل نہیں تھے۔'
ایک اور شخص نے ہم سے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بات کی لیکن یہ بھی کہا کہ وہ حکومتی افراد کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے۔
'میں بس سکون سے رہنا چاہتا ہوں۔ میں گزرے وقت کو یاد نہیں کرنا چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ ان کے جرائم کو جانوں کیونکہ یہاں بہت سارا خون ہوا ہو گا۔'
اسد کے ساتھیوں کی تلاش
لیکن یہاں بہت سارے ایسے افراد بھی ہیں جو کہ بشار الاسد کے ساتھیوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں۔
ہیئت تحریر شام کے سربراہ کا کہنا ہے کہ وہ بشار الاسد کی حکومت سے منسلک سینیئر شخصیات کا پیچھا کریں گے اور دیگر ممالک سے کہیں گے کہ انھیں شام کے حوالے کیا جائے۔
ان افراد کو ڈھونڈنا اب ایک مشکل کام ہوگا۔
سیرین سینٹر فور میڈیا اینڈ فریڈم آف ایکسپریشن نے بی بی سی کو بتایا کہ 'جمیل حسن، علی مملوک اور سینیئر حکومتی شخصیات کے حوالے سے کوئی مصدقہ معلومات موجود نہیں ہیں لیکن ہمیں خدشہ ہے کہ ایسی شخصیات سیاسی معاہدوں سے فائدہ اُٹھائیں گی اور انصاف سے بچنے کی کوشش کریں گی۔'
'کچھ افراد نے اتحادی ممالک میں پناہ لے لی ہو گی جہاں ان کی حوالگی کی کوشش کرنا مشکل کام ہو گا اور ہو سکتا ہے کچھ لوگ شام میں ہی خاموشی سے رہ رہے ہوں۔'
جمیل حسن کے علاقے میں بھی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ آخر وہ گئے کہاں۔ لیکن شاید ان کا خاندان پیچھے کچھ سُراغ چھوڑ گیا ہے۔
جمیل حسن کے دفتر میں ان کی بیٹی کا ایک سرٹیفکیٹ پڑا ہے جس پر حزب اللہ کے سابق رہنما حسن نصر اللہ کا دستخط موجود ہے۔
کچھ پڑوسیوں کو ماننا ہے کہ شاید جمیل حسن لبنان میں چھپے ہوئے ہوں۔ ایک دُکاندار کا کہنا ہے کہ شاید جمیل حسن سمندر کی طرف گئے ہوں ان کا رُخ لاذقیہ کی جانب ہو جو کہ علوی فرقے کا علاقہ ہے۔
دوسری جانب لبنانی اخبار ندا الوطن کے مطابق علی مملوک کو حزب اللہ نے شامی سرحد سے لبنانی دارالحکومت بیروت منتقل کر دیا ہے۔
تاہم حزب اللہ نے شام کی سابق حکومت سے منسلک افراد کو کسی بھی قسم کی کوئی مدد دینے کی تصدیق نہیں کی ہے۔ لبنان کی حکومت کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو مطلوب کسی بھی شامی افسر کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔
لبنان کی سکیورٹی سروسز کا کہنا ہے کہ علی مملوک ان کے ملک میں موجود نہیں ہیں۔
شامی نژاد برطانوی وکیل ابراہیم اولابی کہتے ہیں کہ شاید حکومت کے سینیئر اہلکاروں نے نئے شناختی دستاویزات اور پاسپورٹ حاصل کر لیے ہوں کیونکہ وہ طاقتور لوگ تھے اور انھیں ریاستی اداروں کی معاونت حاصل تھی۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ جب انصاف کی بات آتی ہے تو ثبوتوں کی عدم موجودگی بڑا مسئلہ نہیں بلکہ ان افراد کو تلاش کرنا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
سیرین سینٹر فور میڈیا اینڈ فریڈم آف ایکسپریشن کے مطابق ان افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے 'وسائل اور بین الاقوامی تعاون درکار ہوگا۔'
ان کا کہنا ہے کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں 'ایک خطرناک پیغام جائے گا کہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے باوجود بھی آپ سزا سے بچ سکتے ہیں۔'
لیکن ابراہیم اولابی کو امید ہے کہ انصاف ضرور ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ 'تلاش جاری رہے گی۔ سوشل میڈیا، سیاسی مفادات اور پرائیوٹ انویسٹیگیٹرز کی موجودگی کے سبب یہ دنیا اب مزید چھوٹی ہو گئی ہے۔'
جمیل حسن کے پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ انھیں امید ہے کہ وہ ایک دن ان کے گھر سے کہیں بہت دور سے شام میں داخل ہوں گے اور انھیں ان کے کیے کی سزا ملے گی۔