برازیل کے گینگسٹر اپنے آپ کو ’جرم کے فوجی‘ تصور کرتے ہیں اور پیغمبر عیسیٰ کو ان علاقوں کا ’مالک‘ جن پر وہ قبضہ کیے ہوئے ہیں۔
جب ریو ڈی جنیرو میں پولیس کوکین اور چرس کی بھاری مقدار پکڑتی ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انھیں ان پیکٹس پر ستارہ داؤدی (دی سٹار آف ڈیوڈ) ثبت دکھائی دیتا ہے۔
یہ ہرگز یہودی عقیدے کا حوالہ نہیں بلکہ چند ایسے پینٹیکاسٹل مسیحی افراد کے عقیدے کی نمائندگی کرتا ہے جس کے مطابق اسرائیل میں یہودیوں کی واپسی پر حضرت عیسیٰ کا دوسرا ظہور ہو گا۔
جو گینگ یہ منشیات فروخت کرتا ہے اس کا نام ’پیور تھرڈ کمانڈ‘ ہے جو ریو ڈی جنیرو کے سب سے طاقتور جرائم پیشہ گروہوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ اپنے مخالفین کو لاپتہ کروا دیتے ہیں اور ان کے عقائد ایونجیلیکل مسیحی فرقے کے اعتبار سے خاصے شدت پسند سمجھے جاتے ہیں۔
کتاب ’ایونجیلیکل ڈرگ ڈیلرز‘ کی مصنف تھیولجین وویان کوسٹا کے مطابق اس گروہ نے اپنے سربراہ کو ان کے مطابق ’خدا کی جانب ملنے والی ہدایات‘ کے بعد شہر کے شمال میں پانچ نواحی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا اور انھیں اسرائیل کمپلیکس کا نام دے دیا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ گینگسٹر اپنے آپ کو ’جرم کے فوجی‘ تصور کرتے ہیں اور پیغمبر عیسیٰ کو ان علاقوں کا ’مالک‘ جن پر وہ قبضہ کیے ہوئے ہیں۔
انھیں متنازع طور پر کچھ افراد کی جانب سے ’نارکو پینٹیکاسٹل‘ کا لقب دیا گیا ہے۔
رائفل اور بائبل
ایک شخص جس کے پاس جرم اور مذہب دونوں ہی کا تجربہ ہے وہ پاسٹر ڈیگو ناسکیمینٹو ہیں جن کے مطابق انھوں نے مسیحی مذہب ایک بندوق تھامے گینگسٹر کی جانب سے انجیل پڑھنے پر قبول کیا تھا۔
ان کو دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کسی لڑکے کی طرح دکھنے والے اور ہمیشہ مسکرانے والے یہ 42 سالہ شخص ایک زمانے میں بدنامِ زمانہ جرائم پیشہ گروہ ریڈ کمانڈ کا حصہ تھے اور شہر کے علاقے وِلا کینیڈی میں اس گروپ کے کرتا دھرتا تھے۔
منشیات کے کاروبار کے الزام میں انھیں چار سال جیل میں بھی قید رہنا پڑا تھا لیکن انھوں نے پھر بھی جُرم کی دنیا کو خیرباد نہیں کہا۔ مگر جب کوکین کے نشے نے ان سے جرائم پیشے گروہ میں ان کا مقام چھین لیا تو انھوں نے بھی جُرم کی دنیا کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنے خاندان کو کھو دیا اور میں تقریباً کئی برس تک سڑک پر ہی رہتا رہا، میں نے کوکین خریدنے کے لیے اپنے گھر کی اشیا بھی بیچ دی تھیں۔‘
اس وقت ولا کینیڈی میں منشیات کے ایک بڑے ڈیلر نے ان سے رابطہ کیا ’اس نے مجھے تبلیغ کرنا شروع کردی اور کہا کہ اس سب سے باہر نکلنے کا راستہ ہے، میرے لیے ایک حل اب بھی موجود ہے اور میں مسیح کو قبول کرلوں۔‘
اس نوجوان نے یہ مشورہ مان لیا اور ایک نئے سفر کی شروعات کی۔ پاسٹر ناسکیمینٹواب بھی جرائم پیشہ افراد کے ساتھ وقت گزارتے ہیں لیکن یہ وقت وہ جیل خانوں میں گزارتے ہیں جہاں وہ جرائم پیشہ افراد کو صحیح راہ پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان کی زندگی بھی ایک جرائم پیشہ شخص نے بدلی تھی لیکن وہ ’مذہبی مجرموں‘ کو درست اصطلاح نہیں سمجھتے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں انھیں بس عام لوگوں کی طرح ہی دیکھتا ہوں جو کہ غلط راہ پر جا رہے ہیں، لیکن انھیں خدا کا ڈر بھی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ خدا ہی ان کی زندگی کی حفاظت کرتا ہے۔‘
’ایوینجیلیکل اور بدمعاش کی شناخت کو آپ ملا نہیں سکتے۔ اگر کوئی شخص مسیح کو قبول کر لیتا ہے اور مقدس احکامات کو مانتا ہے تو وہ کبھی بھی منشیات فروش نہیں ہو سکتا۔ ‘
’خوف کے سائے میں زندگی‘
یہ مسیحی برداری اس دہائی کے اواخر تک برازیل میں کیتھولک برداری کو پیچھے چھوڑ کر آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا مذہب بن جائے گی۔
پینٹیکاسٹل تحریک تیزی سے پھیل رہی ہے اور گینگز سے متاثرہ علاقوں کے لوگ اس میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ گینگز طاقت کے حصول کے لیے اپنے عقائد استعمال کر رہے ہیں۔
ان پر ایک الزام یہ ہے کہ وہ افریقی نژاد برازیلین برداریوں پر تشدد کر رہے ہیں۔
ریو میں سوشالوجی کی پروفیسر کرسٹینا وٹال نے کہا کہ شہر کی غریب برداریاں عرصہ دراز سے جرائم پیشہ گینگز کے محاصرے میں زندگی گزار رہی ہیں اور اب ان کی مذہبی آزادی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 'اسرائیل کمپلیکس میں دوسرے مذہبی عقائد کی پیروی کرنے والے لوگ عوامی سطح پر اس کا اظہار نہیں کر سکتے۔ اس علاقے میں مذہبی عدم برداشت کی بات کرنا مبالغہ نہیں۔'
وٹال نے کہا کہ اردگرد کے علاقوں میں بھی افریقی نژاد برازیلین برادریوں کی عبادت گاہیں بند کر دی گئی ہیں۔ کچھ جرائم پیشہ افراد اکثر ان کی دیواروں پر 'عیسیٰ اس جگہ کے خدا ہیں' لکھ دیتے ہیں۔ مگر ان برادریوں کو صرف منشیات کے ڈیلروں نے نشانہ نہیں بنایا۔
ڈاکٹر ریٹا سلیم، جو ریو پولیس ڈپارٹمنٹ میں نسلی اور عدم برداشت پر مبنی جرائم کے شعبے کی سربراہ ہیں، کا کہنا ہے کہ منشیات کے گینز کی دھمکیوں اور حملے کے دور رس نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ 'یہ کیسز زیادہ سنگین ہیں کیونکہ ان کے پیچھے ایک جرائم پیشہ گروہ یا اس کا سربراہ ہوتا ہے۔ پورے علاقے میں اس کا خوف ہوتا ہے۔'
وہ کہتی ہیں کہ اسرائیل کمپلیکس میں مبینہ گینگ لیڈر کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے۔ ان پر الزام ہے کہ ان کے حکم پر مسلح افراد نے افریقی نژاد برازیلین عبادت گاہ پر حملہ کیا۔
’نئے صلیبی‘
مذہبی تنوع کے ماہر مارسیو ڈی جگون کے مطابق ریو میں مذہبی شدت پسندی کے الزامات سنہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں سامنے آئے تھے۔ حالیہ برسوں کے دوران یہ مسائل 'کئی گنا بڑھ گیا ہے'۔
جگون کنڈومبل مذہب کے مذہبی پیشوا ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک قومی سطح کا مسئلہ بن چکا ہے اور برازیل کے دیگر شہروں میں بھی ایسے حملے دیکھے گئے ہیں۔
وہ اسے 'نئے صلیبیوں' سے تشبیہ دیتے ہیں۔ 'ان حملوں سے مذہبی اور نسلی استحصال ہوتا ہے۔ جرائم پیشہ افراد افریقی مذاہب کو غیر اخلاقی ظاہر کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ خدا کے نام پر برائی کے خلاف لڑ رہے ہیں۔'
مذہبی امور کے ماہر ویوین کوسٹا کہتے ہیں کہ برازیل میں مذہب اور جرائم کا ملاپ کوئی نیا عمل نہیں۔ ماضی میں جرائم پیشہ افراد افریقی نژاد برازیلین خداؤں اور کیتھولک سینٹس سے تحفظ مانگتے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ 'اگر ہم ریڈ کمانڈ یا تھرڈ کمانڈ کی ابتدا پر نظر دوڑائیں تو ایفرو اور کیتھولک مذاہب شروع سے ہی یہاں موجود ہیں۔۔۔ اسی لیے اسے نارکو پینٹیکاسٹل کہتے ہیں، یعنی جرائم اور مذہب کا روایتی تعلق۔ میں اسے نارکو مذہبیت کہنا پسند کرتا ہوں۔'
اس ملاپ کو کوئی بھی نام دیا جائے، ایک حقیقت یہ ہے کہ اس سے برازیل کے آئین میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے کئی برادریاں منشیات کے سمگلروں کے نیچے خوف کے سائے میں زندگی گزار رہی ہیں۔