داؤد جان کا تعلق صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع دیر سے ہے۔ وہ گذشتہ چار برسوں سے پنجاب یونیورسٹی میں سپورٹس سائنسز کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔داؤد جان مکسڈ مارشل آرٹس کے ایتھلیٹ ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے گلوبل ایسوسی ایشن آف مکسڈ مارشل آرٹس (گاما) کے زیراہتمام انڈونشیا میں ہونے والے ٹورنامنٹ میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ ہے۔گاما کے زیراہتمام ہونے والے اس ٹورنامنٹ میں 63 ممالک کے 600 سے زیادہ کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔
داؤد جان ان 600 کھلاڑیوں میں دو وجوہات کی بنا پر نمایاں نظر آئے۔ اول تو وہ پاکستان کے لیے کانسی کا تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوئے تو دوسری طرف پاکستان سے انڈونشیا روانگی اور پھر واپسی کے لیے اپنی موٹرسائیکل اور دوسری ضروری چیزیں فروخت کر کے اپنی ٹکٹ کے لیے رقم کا بندوبست کیا۔
داؤد جان نے اس حوالے سے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’اُن کے لیے اس میڈل کا جیتنا کسی بھی اور چیز سے زیادہ اہم تھا۔‘’ہمیں سپانسرشپ کا مسئلہ ہر بار درپیش ہوتا ہے۔ اس سے قبل تین بار میرا ویزا لگا لیکن سپانسرشپ نہ ہونے کی وجہ سے میرے لیے حصہ لینا ممکن نہیں ہو سکا۔ اس بار میں نے عزم کر رکھا تھا کہ جو بھی ہو جائے میں ضرور ٹورنامنٹ میں شرکت کروں گا۔‘داؤد جان کے مطابق انہوں نے اپنی بائیک، موبائل اور دیگر ضرورت کی چیزیں اونے پونے داموں فروخت کیں تاکہ وہ اپنے اخراجات برداشت کر سکیں۔عالمی سطح پر مکسڈ مارشل آرٹس کے اکثر مقابلے نجی طور پر منعقد ہوتے ہیں جن میں حصہ لینے کے لیے نجی فیڈریشنز اپنے کھلاڑیوں کے لیے سپانسرشپ کا انتظام کرتے ہیں تاہم بسا اوقات سپانسر شپ نہ ہونے کی وجہ سے کئی ایتھلیٹس ٹورنامنٹ میں شرکت نہیں کر پاتے۔داؤد جان نے اس بار ٹورنامنٹ میں شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ میڈل جیتنے کا عزم کر رکھا تھا جس کے لیے انہوں نے اپنی بائیک تک فروخت کر دی۔وہ بتاتے ہیں کہ ’سب کو اپنی چیزیں عزیز ہوتی ہیں لیکن میری مجبوری تھی۔ میں نے کئی مخیر حضرات کو پیغامات بھیجے اور درخواست کی کہ وہ مجھے سپانسر کریں لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا جب مجھے جواب ملنا بھی بند ہو گئے۔ اسی لیے میں نے اپنے بل بوتے پر انڈونشیا جانے کی ٹھان لی۔‘
داؤد جان کراچی میں چند دن ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد دوستوں سے قرض لے کر انڈونیشیا کے لیے روانہ ہوئے۔ (فوٹو: داؤد جان)
داؤد جان اپنا سامان فروخت کر کے کراچی روانہ ہوئے۔ ان کے مطابق اس ٹورنامنٹ کے لیے کم از کم دو ماہ تک ٹریننگ ضروری ہوتی ہے لیکن وہ یہ ٹریننگ بھی مکمل نہ کر سکے۔
’ایسے مقابلوں سے قبل عموماً دو یا تین ماہ کی ٹریننگ کی جاتی ہے لیکن میرے پاس سپانسر نہیں تھا اس لیے میرا جانا مشکل تھا۔ انڈونیشیا جانا اور پھر واپسی کی ٹکٹ کے پیسے بھی نہیں تھے جب کہ وہاں رہائش کے ساتھ ساتھ روزمرہ کھانے کا معاملہ بھی دیکھنا تھا۔‘وہ مزید کہتے ہیں کہ ’میں ٹورنامنٹ سے 10 دن قبل کراچی پہنچا جہاں میں نے چند ہی دن ٹریننگ لی۔‘وہ کراچی میں چند دن ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد دوستوں سے قرض لے کر انڈونیشیا کے لیے روانہ ہوئے۔انڈونشیا کے شہر جکارتہ میں انہوں نے 61.2 کلوگرام کی کیٹیگری میں پاکستان کے پہلے نیو ورلڈ نمبر 3 رینک ایتھلیٹ بننے کا اعزاز حاصل کیا۔داؤد جان نے ورلڈ ایم ایم اے چیمپئن شپ 2024 کے پہلے میچ میں انڈونیشیا کے مایہ ناز مکس مارشل آرٹسٹ ایکو سپوترا کو اُن کے ہوم گراؤنڈ پر شکست دی۔
دائود جان کے مطابق کانسی کا تمغہ جیتنے کے بعد وہ لوگوں کا رویہ بھول گئے ہیں۔ (فوٹو: داؤد جان)
ایکو سپوترا ساؤتھ ایسٹ ایشین گیمز میں میڈل ہولڈر ہیں اور دنیا کی دوسری بڑی چیمپیئن شپ ’ون چیمپئن‘ فائٹر بھی رہ چکے ہیں۔ داؤد جان نے ایکو کو تیسرے راؤنڈ میں شکست سے دوچار کیا۔
دائؤد جان بتاتے ہیں کہ ’میرے ذہن میں پہلے سے ہی کئی چیزیں گردش کر رہی تھیں لیکن جب مجھے معلوم ہوا کہ میرا مقابلہ ایکو کے ساتھ ہے تو میں دل ہی دل میں ڈر گیا کیوں کہ میں نے اس کی فائٹنگ دیکھی تھی۔ وہ ماہر ایتھلیٹ ہیں لیکن اپنی محنت اور لگن سے انہیں بھی شکست سے دوچار کیا۔‘دیر کے داؤد جان ٹورنامنٹ میں کانسی کا تمغہ جیتنے کے بعد بھی اپنے مشکل دنوں کو نہیں بھولے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے جب میڈل جیتا تو میرے سامنے وہ تمام حالات آگئے جب مجھے سپانسرشپ نہیں مل رہی تھی۔ چڑھتے سورج کے تو سب پجاری ہوتے ہیں، پہلے کوئی میرے میسج کا جواب بھی نہیں دے رہا تھا لیکن پھر سب نے مبارک باد کے پیغامات بھیجے اور میرے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔‘داؤد جان کے مطابق کانسی کا تمغہ جیتنے کے بعد وہ لوگوں کا رویہ بھول گئے ہیں۔انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ’میرا مقصد میڈل جیتنا تھا جس میں مجھے کامیابی ملی۔ ایک ایتھلیٹ کو اگر سپانسرشپ کے مسائل نہ ہوں تو وہ کانسی تو کجا سونے کا تمغہ بھی جیت سکتا ہے۔ ایک دن وہ بھی آئے گا جب میں سونے کا تمغہ ہاتھ میں تھامے ان سب کو خاموش پیغام دوں گا جو کل میرے پیغام کا جواب نہیں دے رہے تھے۔‘