ٹائم میگزین کے سرورق پر ایک دلفریب تصویر نے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کر دیا۔ برف جیسے سفید بھیڑیے کی شبیہہ کے ساتھ دعویٰ کیا گیا کہ ’ڈائروولف‘ کو جدید جینیاتی انجینئرنگ کی مدد سے واپس لایا جا چکا ہے۔ یہ کارنامہ ایک معروف بایوٹیکنالوجی کمپنی ’کولوسل بایوسائنسز‘ نے انجام دیا، جس کے مطابق، انہوں نے قدیم ڈی این اے اور جدید جینیاتی ترمیم کے ذریعے تین ڈائروولف کے بچوں کو جنم دیا ہے— جنہیں رومولس، ریموس اور خالیشی کا نام دیا گیا ہے۔
لیکن سائنسی برادری اس خبر کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ درحقیقت، یہ بچے خالص ڈائروولف نہیں بلکہ عام گرے وولف ہیں جن کے ڈی این اے میں چند جینیاتی تبدیلیاں کی گئی ہیں تاکہ وہ ڈائروولف جیسے نظر آئیں۔ نیوزی لینڈ کی اوٹاگو یونیورسٹی کے ماہر حیوانیات فلپ سیڈن نے واضح کیا کہ یہ بھیڑیے مکمل طور پر معدوم ہوچکے ڈائروولف نہیں، بلکہ جینیاتی طور پر ترمیم شدہ ہائبرڈ جانور ہیں۔
ڈائروولف، جو تقریباً 10 ہزار سال پہلے برفانی دور میں خوفناک شکاری کے طور پر جانا جاتا تھا، حقیقت میں گیم آف تھرونز جیسے فکشنل ڈراموں کی بدولت عوام میں زیادہ مقبول ہوا۔ تاہم، پیلوجنیٹیسسٹ ڈاکٹر نک رولنس کا کہنا ہے کہ مکمل ڈائروولف کو واپس لانا سائنس کے لیے ایک ناممکن کام ہے کیونکہ اس کا اصل ڈی این اے انتہائی حد تک تباہ ہوچکا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’قدیم ڈی این اے کی حالت ایسی ہے جیسے کسی تازہ ڈی این اے کو 500 ڈگری کے تندور میں رکھ دیا جائے اور جب وہ نکلے تو وہ خاک اور راکھ کے سوا کچھ نہ ہو۔‘‘
’کولوسل بایوسائنسز‘ کا دعویٰ ہے کہ وہ نہ صرف ڈائروولف بلکہ معدوم ہوچکے اون والے میمتھ اور تسمانی شیطان جیسے جانوروں کو بھی واپس لانے پر کام کر رہی ہے۔ لیکن کیا یہ قدرتی ماحول کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے؟ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر ہم معدومیت کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے، تو ہم قدرت کے اصل نظام کو سمجھنے اور سیکھنے میں ناکام رہیں گے۔
یہ تجربہ سائنسی دنیا کے لیے ایک اہم پیش رفت ضرور ہے، مگر یہ کہنا کہ ڈائروولف دوبارہ زندہ ہو چکا ہے، حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ یہ جینیاتی طور پر ترمیم شدہ ہائبرڈ جانور ضرور ہیں، مگر قدرت کی اصل تخلیق کا حقیقی متبادل ہرگز نہیں۔