آج سے سینچورین میں شروع ہونے والی اس ٹیسٹ سیریز میں اگرچہ پاکستان کو فیورٹ تو قرار نہیں دیا جا سکتا مگر یہاں سکواڈ کے انتخاب میں پاکستان نے ہوش کو جوش پہ ترجیح دی ہے۔ مدِ مقابل جنوبی افریقی ٹیم کو جو پیسرز دستیاب ہیں، وہ پاکستانی بیٹنگ کا کڑا امتحان ثابت ہوں گے۔
19 جنوری 1995 کی صبح، جب سلیم ملک اور ہنسی کرونیے وانڈررز کرکٹ سٹیڈیم جوہانسبرگ میں ٹاس کے لیے پچ کے قریب پہنچے تو پاکستانی پلئینگ الیون میں وقار یونس کے متبادل کے طور پر چُنے گئے عامر نذیر ابھی ائیرپورٹ سے گراؤنڈ کے لیے روانہ نہیں ہوئے تھے۔
جنوبی افریقہ کو انٹرنیشنل کرکٹ میں لوٹے ابھی تین ہی برس ہوئے تھے اور یہ پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کا یہاں افتتاحی دورہ تھا جسے یہاں صرف ایک ٹیسٹ میچ پر مشتمل یہ سیریز کھیلنا تھی۔
’چار دہائیوں تک برقرار پاکستان کا ٹیسٹ ریکارڈ‘
اپنی ٹیسٹ تاریخ کی پہلی ہی سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میں انڈیا کو ایک اننگز اور 43 رنز سے شکست دے کر پاکستان نے اپنے اس ریکارڈ کا آغاز کیا جو آئندہ چار دہائیوں تک اس شکل میں برقرار رہا کہ اپنے ہر حریف کے خلاف افتتاحی ٹیسٹ سیریز میں پاکستان نے کم از کم ایک میچ ضرور جیتا۔
مگر یہاں یہ ریکارڈ برقرار رہ پانا مشکل تھا کہ اس دورۂ جنوبی افریقہ پر دونوں ٹیموں کے بیچ صرف ایک ہی ٹیسٹ میچ شیڈول کیا گیا تھا اور اگرچہ پاکستانی ٹیم ہوم گراؤنڈز پر آسٹریلیا کے خلاف تاریخی فتح کا اعتماد لیے آ رہی تھی مگر اپنی ہوم کنڈیشنز میں جنوبی افریقہ واضح فیورٹ تھی۔
’وقار یونس کے کریئر کی پرائم فارم‘
پاکستان کے لیے یہ ایک طویل افریقی دورہ تھا۔ اس اکلوتے ٹیسٹ میچ سے پہلے جنوبی افریقہ ہی کی میزبانی میں منڈیلا کپ منعقد ہوا تھا جہاں پاکستان کے علاوہ نیوزی لینڈ اور سری لنکا کی ٹیمیں بھی صف آرا تھیں۔
اس طویل ٹورنامنٹ میں اگرچہ بالآخر فاتح جنوبی افریقی ٹیم ہی رہی مگر بیسٹ آف تھری فائنلز سے پہلے کوالیفائنگ راؤنڈ میں پاکستان ٹورنامنٹ کی کامیاب ترین ٹیم تھی جس نے گروپ سٹیج کے 6 میں سے 5 میچز اپنے نام کیے۔
54 کی اوسط سے، عامر سہیل نے آٹھ اننگز میں 432 رنز بنائے جبکہ بولنگ میں وقار یونس پوری طرح چھائے رہے جو 17.4 کی اوسط سے 21 وکٹیں حاصل کر کے ٹورنامنٹ کے کامیاب ترین بولر رہے جبکہ وسیم اکرم فائنلز سے پہلے تک پاکستان کو دستیاب نہ تھے۔
اپنے کریئر کی پرائم فارم دکھلاتے وقار یونس کی اس کارکردگی نے پاکستان کو قوی امید بندھا دی تھی کہ جب دیرینہ ’سائینس‘ انفیکشن کی کامیاب سرجری کے بعد وسیم اکرم بھی ان کے ہمرکاب ہو جائیں گے تو دو طرفہ ٹیسٹ روابط کے اس افتتاحی میچ میں پاکستان کے امکانات روشن تر ہو جائیں گے۔
اس وقت جنوبی افریقہ کے خلاف پاکستان کی برتری کا عالم یہ تھا کہ اس ٹیسٹ میچ سے دو ہی ماہ پہلے وِلز ٹرائی اینگولر ون ڈے کپ میں یہ دونوں ٹیمیں تین بار آمنے سامنے ہوئیں اور تینوں ہی بار فتح پاکستان کی ہوئی۔
بعید نہ تھا کہ منڈیلا کپ میں بھی پاکستان ہنسی کرونیے کی ٹیم پر ایسی ہی برتری برقرار رکھتا اگر اسے وسیم اکرم کی دستیابی کا معمہ درپیش نہ آتا جو سرجری کے لیے انگلینڈ چلے گئے تھے اور فائنلز سے پہلے تک ٹیم کو دستیاب نہ تھے۔
’ٹو ڈبلیوز کی 15 وکٹیں اور آسٹریلیا کے خلاف تاریخ‘
پاکستان کی اس ٹیسٹ ٹیم کا مورال خاصا بلند تھا کہ جنوبی افریقہ کے اس دورے سے تین ہی ماہ پہلے، آسٹریلیا کے خلاف، کراچی ٹیسٹ میں وسیم اکرم اور وقار یونس نے 15 آسٹریلوی وکٹیں حاصل کر کے ایک تاریخی فتح پائی تھی۔
ایک وکٹ کے مارجن سے اُچکی اس فتح کی خاص بات یہ تھی کہ پہلی اننگز میں پاکستان کو 81 رنز کے خسارے کے بعد، تیسری صبح کا آغاز واضح آسٹریلوی برتری سے ہوا مگر جب وقار یونس نے مارک وا کی وکٹ حاصل کی، تبھی دوسرے کنارے سے وسیم اکرم نے مائیکل بیون کی وکٹ حاصل کر کے اس انہدام کی بنیاد دھری جہاں آسٹریلیا نے صرف 61 رنز کے عوض اپنی آٹھ وکٹیں گنوا ڈالی تھیں۔
’اچانک سلیکشن اور 14 گھنٹے کی فلائٹ‘
مگر جوہانسبرگ کے اس اکلوتے پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ ٹیسٹ سے عین پہلے جہاں وسیم اکرم کی واپسی پاکستانی سکواڈ کے لیے تقویت کا باعث ہوئی، وہیں وقار یونس کا بھاری ورک لوڈ آشکار ہوا اور انھوں نے کمر درد کی شکایت کی جو بعد ازاں سٹریس فریکچر کی شکل میں ان کی کھیل سے دوری کا باعث بنی۔
پاکستانی ٹور مینیجمنٹ نے وہاں موجود سکواڈ میں سے انتخاب کی بجائے ان کے متبادل کے طور پر نوجوان میڈیم پیسر عامر نذیر کو چنا جنھیں اچانک اس میچ میں شمولیت کے لیے 14 گھنٹے کی طویل فلائٹ درپیش تھی اور جب دونوں کپتان ٹاس کے لیے پچ کے پاس کھڑے تھے، تب وہ ائیرپورٹ سے باہر نکل رہے تھے۔
’جونٹی رہوڈز اور برائن میکملن کا کاؤنٹر اٹیک‘
ہنسی کرونیے نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ اس بنیاد پر کیا کہ وہ وانڈررز کی پچ پر چوتھی اننگز میں بیٹنگ نہیں کرنا چاہتے تھے۔
اگرچہ پہلے ہی سپیل میں روڈی سٹین کی وکٹ حاصل کر کے وسیم اکرم نے پاکستان کو ابتدائی کامیابی دلائی اور عاقب جاوید کی اوپر تلے دو وکٹوں نے جنوبی افریقہ کو دیوار سے لگا دیا مگر پھر ہنسی کرونیے اور گیری کرسٹن کی پارٹنرشپ نے 4 سے زیادہ رن ریٹ کی بدولت، پہلے سیشن میں ٹیم کے 100 رنز مکمل کیے جو اس دور میں ہی نہیں، آج بھی خاصی غیر معمولی بات ہے۔
طویل فلائٹ کے بعد جب عامر نذیر میچ کے آغاز سے 36 منٹ بعد گراؤنڈ پہنچے اور سلیم ملک نے انھیں گیند تھمائی تو تھکن کے مارے وہ سات اوورز میں ہی ڈھیر ہو گئے اور میدان سے باہر چلے گئے۔
جونٹی رہوڈز کی نصف سنچری اور برائن میکملن کی اولین ٹیسٹ سنچری نے جنوبی افریقی اننگز کو اعتماد کے اس آسمان پہ پہنچا دیا کہ بالآخر جب عامر نذیر نے جونٹی رہوڈز کو چکما دے کر یہ پارٹنرشپ توڑی، تب تک وہ 157رنز کی پارٹنرشپ لگا چکے تھے اور پاکستان کے لیے میچ میں واپسی کی راہ نہ بچی تھی۔
’سلیم ملک ایک قدم پیچھے رہ گئے‘
پاکستانی بیٹنگ فینی ڈی ویلئیرز اور ایلن ڈونلڈ کی پیس کے کاری وار سہہ نہ پائی اور صرف سلیم ملک ہی مزاحمت دکھا پائے جو تین میچز میں متواتر تیسری ٹیسٹ سینچری سے محض ایک ہی قدم پیچھے تھے کہ ایلن ڈونلڈ نے ان کا یہ سپنا بھی ادھورا کر ڈالا۔
پاکستانی اننگز 460 رنز کے جنوبی افریقی مجموعے کے جواب میں اس کا عین نصف، 230 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔
ہنسی کرونئے وہاں فالو آن نافذ کر سکتے تھے مگر انھوں نے ٹوٹتی پھوٹتی پچ پر چوتھی اننگز کھیلنے کی بجائے دوبارہ خود بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور چوتھی اننگز میں پاکستان کے لیے 490 رنز کا پہاڑ ہدف کھڑا کیا۔
انضمام الحق مردِ بحران ثابت ہونے کو اٹھ کھڑے ہوئے جب پاکستان نے محض 5 رنز کے عوض عامر سہیل، سعید انور اور سلیم ملک کی وکٹیں گنوا بیٹھا تو آصف مجتبیٰ کے ہمراہ انھوں نے93 رنز کی ساجھے داری جما کر مزاحمت دکھائی۔
آصف مجتبیٰ کی مزاحمت تین گھنٹے تک برقرار رہی مگر ان کی وکٹ نے ایک اور انہدام کا رستہ کھولا اور انضمام الحق بھی اپنی سنچری سے پانچ رنز پیچھے رہ گئے کہ دیگر دس پاکستانی بلے بازوں نے مجموعی طور پر سکور میں صرف 51 رنز کا اضافہ کیا۔
پاکستانی ٹیم صرف 165 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ عالمی کرکٹ میں واپسی کے بعد یہ جنوبی افریقہ کی سب سے بڑی ٹیسٹ فتح تھی جو اس نے 324 رنز کے مارجن سے حاصل کی جبکہ پاکستان اپنا وہ 43 سالہ ریکارڈ بھی کھو بیٹھی جو یہ ہر حریف کے خلاف افتتاحی سیریز میں کم از کم ایک میچ جیت کر برقرار رکھتی آ رہی تھی۔
’ٹیم گروپنگ، میچ فکسنگ الزامات اور اچانک ریٹائرمنٹس‘
اس دورے کے عین بعد پاکستان کو زمبابوے کے خلاف بھی سیریز کھیلنا تھیں۔ وہ دورہ بھی پاکستان کے لیے خوشگوار نہ رہا کہ پہلے ٹیسٹ میچ میں زمبابوے سے حیران کن شکست کے بعد اگرچہ پاکستان نے آخری دو میچز جیت کر سیریز اپنے نام کر لی مگر تب تک معاملات بگڑ چکے تھے۔
جنوبی افریقہ کے خلاف شکست کے بعد پاکستانی ٹیم منیجر انتخاب عالم نے پاکستانی بیٹنگ کو ’غیر پیشہ ورانہ‘ قرار دیا تھا جبکہ اخبارات میں ٹیم گروپنگ اور لابنگ بارے چہ میگوئیاں زور پکڑ رہی تھیں جنھیں سلیم ملک نے ’محض افواہیں‘ قرار دیا تھا۔
مگر زمبابوے کے خلاف شکست کے بعد میچ فکسنگ اور ڈریسنگ روم میں بدمزگی کی ’افواہیں‘ عروج تک پہنچیں، شین وارن اور ٹم مے نے سلیم ملک پر میچ ہارنے کے لیے رشوت کی پیشکش کرنے کا الزام عائد کر چکے تھے جبکہ راشد لطیف اور باسط علی اچانک ریٹائرمنٹ کا اعلان کر چکے تھے۔
’کیا شان مسعود کی ٹیم تیسری فتح حاصل کر سکتی ہے؟‘
اس پہلے دورے کے اکلوتے ٹیسٹ میچ نے گویا اگلی دو دہائیوں تک پاکستان کے جنوبی افریقی دوروں کی ’ٹون‘ سیٹ کر دی جہاں دو دہائیوں پر محیط اس دو طرفہ مسابقت میں پاکستان محض دو ہی ٹیسٹ میچز جیت پایا۔
ان دو فتوحات میں سے پہلی فتح کے مرکزی کردار آل راؤنڈ اظہر محمود، وقار یونس اور مشتاق احمد تھے جبکہ انضمام الحق کی قیادت میں اس دوسری فتح کے مرکزی کردار دانش کنیریا و محمد آصف تھے۔
آج سے سینچورین میں شروع ہونے والی اس ٹیسٹ سیریز میں اگرچہ پاکستان کو فیورٹ تو قرار نہیں دیا جا سکتا مگر یہاں سکواڈ کے انتخاب میں پاکستان نے ہوش کو جوش پر ترجیح دی ہے اور ایکسپریس پیس پالیسی سے پلٹ کر دھیمے میڈیم پیسر محمد عباس کے تجربے کو فوقیت دی ہے جو پچھلی بار ٹیسٹ کرکٹ ساڑھے تین برس پہلے کھیلے تھے۔
مدِمقابل جنوبی افریقی ٹیم کو جو پیسرز دستیاب ہیں، وہ پاکستانی بیٹنگ کا کڑا امتحان ثابت ہوں گے مگر جو اعتماد یہ ٹیم ون ڈے سیریز سے حاصل کر کے آ رہی ہے، اگر اسی کو یہاں منعکس کرنے میں کامیاب ہو گئی تو شاید ان دوروں کی دو دہائیوں میں کوئی تیسری ٹیسٹ فتح پاکستان کے دروازے پہ دستک دے ڈالے۔