9.1 شدت کا زلزلہ اور تباہ کُن سمندری لہریں: 20 سال قبل آنے والی قدرتی آفت جس کا شکار بننے والے بہت سے لوگ آج بھی لاپتہ ہیں

آج سے 20 سال قبل 26 دسمبر کو دنیا کے اب تک سب سے بڑے زلزلوں میں سے ایک زلزلہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس زلزلے کی ریکٹر سکیل پر شدت 9.1 تھی اور اس کا مرکز انڈونیشیا کا ایک جزیرہ سماترا تھا۔ سمندر میں آنے والے اس زلزلے نے ایک بہت بڑے سونامی کو جنم دیا جو پوری شدت سے انڈونیشیا کے ساحل سے ٹکرایا تھا۔
سونامی
BBC
2004 کے سونامی میں انڈونیشیا کے شہر بندہ آچے میں کم از کم 160,000 افراد مارے گئے تھے

آج سے 20 سال قبل یعنی 26 دسمبر 2004 کو دنیا میں آنے والے سب سے بڑے زلزلوں میں سے ایک زلزلہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس زلزلے کی ریکٹر سکیل پر شدت 9.1 تھی اور اس کا مرکز انڈونیشیا کا ایک جزیرہ سماٹرا تھا۔

سمندر میں آنے والے اِس زلزلے نے ایک بہت بڑے سونامی (سمندری طوفان) کو جنم دیا جو پوری شدت سے انڈونیشیا کے ساحلوں سے ٹکرایا تھا۔ یہ سونامی بحرہند کے ارد گرد کی تمام ساحلی آبادیوں کو مکمل طور پر بہا کر لے گئی تھی۔

اس سونامی کو ’بحرہند سونامی‘ اور ’کرسمس سونامی‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق اس ہولناک سونامی کے باعث 14 ممالک میں دو لاکھ 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی سیاح بھی تھے۔

سونامی ایولیویشن کولیشن نامی تنظیم کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق اس واقعے میں کم از کم دو لاکھ 75 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ بہت سے آج بھی لاپتہ ہیں۔

جان لیوا لہریں

سونامی
PA Media
سنہ 2004 کے سونامی کے نتیجے میں بہت سے افراد آج بھی لاپتا ہے

اس تباہ کن سونامی کی انتباہی علامات میں سے ایک سمندر کا ساحلوں سے پیچھے ہٹنا تھا، اور یہ عمل بحر ہند کے ساتھ منسلک ساحلوں پر رونما ہوتے دیکھا گیا تھا۔ سونامی سے قبل سمندر اپنے ساحلوں پر سینکڑوں میٹر پیچھے ہٹ گیا تھا جس کے باعث کئی مقامات پر سمندر کی تہہ تک دیکھی گئی تھی۔

9.1 شدت کا زلزلہ آنے کے 30 منٹ کے اندر اندر بڑی بڑی اور طاقتور سمندری لہروں نے شمالی سماٹرا اور انڈیا کے جزیرہ نکوبار کے ساحل سے ٹکرانا شروع کر دیا تھا۔ اس کے دو گھنٹوں کے اندر یہ طاقتور سمندری لہریں جنوبی انڈیا، سری لنکا اور تھائی لینڈ کے ساحلوں سے ٹکرائی تھیں جبکہ سات گھنٹوں میں یہ لہریں ہارن آف افریقہ کے ساحل تک پہنچی تھیں۔

ایک اندازے کے مطابق اس تباہی سے تقریباً دس ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ جبکہ سمندر میں 30 میٹر (سو فٹ) تک بلند لہروں نے جنم لیا۔

سونامی کیا ہے؟

سونامی
BBC

’سونامی‘ ایک جاپانی لفظ ہے جو دو لفظوں کا مجموعہ ہے۔ ’سو‘ کے معنی ساحل یا بندرگاہ کے ہیں اور ’نامی‘ بلند اور طويل القامت سمندری لہروں کو کہتے ہيں۔

سونامی کے لغوی معنی بندرگاه كو اتھل پتھل كر دينے والی ديوقامت سمندری لہروں کے ہيں۔

سونامی کا لفظ سمندر کی سطح کے نیچے آنے والے زلزلوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لہروں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی لہریں مختلف رفتار سے سفر کرتی ہیں لیکن اُن کی رفتار شروع میں بہت زیادہ ہوتی ہے جو بعد میں آہستہ آہستہ کم ہوتی جاتی ہے۔ یہ لہریں جب ساحل سے ٹکراتی ہیں تو ان لہروں کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ایک سونامی اس وقت بنتا ہے جب سمندر کی سطح کے نیچے زلزلہ آتا ہے اور اس سے پیدا ہونے والی توانائی عمودی طور پر کئی میٹر تک سمندری تہہ کو ہلا کر رکھ دیتی ہے اور اس کے نتیجے میں ہزاروںکیوبک کلومیٹر پانی میں زور دار ہلچل پیدا ہوتی ہے۔

اقوام متحدہ نے سونامی کو ایسے بیان کیا ہے ’وہ سمندری لہریں جو اکثر پانی کی دیوار کی مانند دکھتی ہیں اور جو ساحلی پٹی پر حملہ آور ہونے کے ساتھ ساتھ کئی گھنٹوں تک خطرناک ہو سکتی ہیں۔‘

سونامی کی صورت میں پیدا ہونے والی پہلی لہر ہمیشہ سب سے بڑی یا طاقتور نہیں ہوتی۔ سنہ 2004 میں بحر ہند سونامی کی دوسری لہر سب سے بڑی اور طاقتور تھی البتہ سنہ 1964 میں آلاسکا میں آنے والے سونامی کی چوتھی لہر سب سے بڑی اور طاقتور تھی۔

سونامی زلزلے، لینڈ سلائیڈنگ یا آتش فشاں پھٹنے سے پیدا ہو سکتے ہیں۔

سونامی
BBC

سونامی کی وارننگ

جاپانیوں نے سب سے پہلے سونامی کا تعلق زلزلوں سے جوڑا تھا۔ سب سے پہلے سنہ 1896 میں سنریکو میں آئے سمندری زلزلے کو ’سنریکو سونامی‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس سمندری زلزلے میں 22 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

سنہ 1923 سے پہلے کسی بھی ملک کے پاس سونامی سے متعلق انتباہی وارننگ جاری کرنے کی صلاحیت موجود نہیں تھی۔تاہم سنہ 1923 میں تھامس جاگر نامی ایک ماہر ارضیات اور ہوائی آتش فشاں آبزرویٹری کے بانی وہ پہلے سائنسدان تھے جنھوں نے مشرقی روس کے علاقے کامچٹکا میں زلزلے کے بعد سونامی کے امکان کا ذکر کیا تھا۔

سنہ 1941 میں جاپان کے شہر سیندائی میں دنیا کی پہلی سونامی ارلی وارننگ تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تھی۔

چنئی کا ساحل
Getty
سنہ 2004 کا سونامی اتنا شدید تھا کہ مرکز سے 2000 کلومیٹر دور انڈیا کے شہر چنئی کے ساحل پر بھی اس کی لہریں ٹکرائیں تھی

امریکی حکومت نے سونامی کے حوالے سے پہلا الرٹ سینٹر سنہ 1949 میں ہونولولو جیومیگنیٹک آبزرویٹری میں قائم کیا تھا۔ بعدازاں یہپیسیفک سونامی وارننگ سینٹر کا ایک اہم حصہ بن گیا۔

مگر سنہ 2004 میں بحر ہند کے خطے میں کسی بھی ملک کے پاس سونامی کے انتباہ کے حوالے سے نہ تو کوئی ارلی وراننگ نظام موجود تھا اور نہ ہی ایسی کسی آفت یا ہنگامی صورتحال میں ساحلی پٹی پر موجود آبادی کو فوری انخلا کرنے کا کوئی طریقہ کار اور حکمت عملی دستیاب تھی۔

بحر ہند کا سونامی وارننگ اینڈ میٹیگیشن کے نظام کی بنیاد سنہ 2005 میں رکھی گئی اور 28 ممالک کی شمولیت سے یہ سینٹر سنہ 2011 میں فعال ہوا۔

سنہ 2004 کے ہولناک سونامی کے بعد سے خطے کے کئی ممالک نے سونامی کے ممکنہ خطرے کو جاننے کے لیے اپنے سونامی وارننگ نظام بھی نافذ کیے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.